اڈانی نام کا جن پھر سے بوتل سے باہر آگیا
شیئر کریں
ڈاکٹر سلیم خان
ایوانِ پارلیمان کے خصوصی اجلاس سے قبل پھر ایک بار اڈانی نے مودی جی کے لیے نیا مسئلہ کھڑا کردیا ۔ اڈانی کا معاملہ فی الحال سپریم کو رٹ میں زیر سماعت ہے ۔ اس میں 12 ستمبر کو اس وقت ایک نیا موڑ آیا جب انامیکا جیسوال نامی عرضی گزار نے حلف نامہ داخل کرکے بتایا کہ تقریباًدس سال پہلے ڈائریکٹوریٹ آف ریونیو انٹیلی جنس نے بیرون ملک سے درآمد کئے گئے سامان کی قیمت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے معاملے میں اڈانی گروپ کی تحقیقات سیبی کو دی تھی مگر اس حقیقت سے کورٹ کو اندھیرے میں رکھاگیا اور ان کے پاس اس کے ثبوت ہیں ۔ انہوں نے لزام لگایا ہے کہ گوتم اڈانی کے معاملے میں سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج بورڈ آف انڈیا (سیبی) نے حقائق چھپا کر گروپ کو فائدہ پہنچایا اور اس کیلئے اسٹاک ایکسچینج میں کمپنیوں کی لسٹنگ کے قوانین میں بھی تبدیلی کی۔ سیبی نے جانچ کے نام پر اڈانی گروپ کو بچا کر اس کی پشت پناہی کی ہے اس طرح گویا چوکیدار نے خود چوری کی ۔ممبئی میں انڈیا کے اجلاس سے عین پہلے بھی اس طرح انکشافات نے راہل گاندھی کے وارے نیارے کردیئے تھے ۔
راہل نے 31 اگست کو اڈانی گروپ معاملے پر مرکز کی مودی حکومت سے غیر ملکی اخبارات کی رپورٹ کا تذکرہ کرکے پی ایم مودی کے سامنے تلخ سوالات کرنے کے بعد کہا کہ ان کا اثر ہندوستان کی شبیہ و سرمایہ کاری پر پڑتا ہے ۔ راہل گاندھی کے مطابق پی ایم مودی کے ایک قریبی (گوتم اڈانی) نے ایک بلین ڈالر کا استعمال شیئر خریدنے کے لیے کیا۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ کس کا پیسہ ہے ؟ اڈانی کا یا پھر کسی اور کا؟ اس کی جانچ ہونی چاہیے ۔ راہل گاندھی نے سوال کیا کہ ”پی ایم مودی آخر اڈانی معاملے پر خاموش کیوں ہیں؟ جی 20 کے لیڈران ہندوستان آنے والے ہیں جو سوال پوچھیں گے کہ ایک کمپنی اتنی خاص کیوں ہے ؟ بہتر ہوگا کہ ان کے آنے سے پہلے ان سوالات کے جواب دیے جائیں اور اس معاملے کی جے پی سی جانچ کرائی جائے ۔ راہل گاندھی نے کہا کہ ‘دی گارجین’ اور’فنانشیل ٹائمز’نے شیئر پرائس کو بڑھانے کے لیے سرمایہ کاری کے ثبوت شائع کیے ہیں۔ راہل گاندھی نے وضاحت کی اڈانی جی نے اپنے شیئر کا غلط ڈھنگ سے بھاؤ بڑھا کر جو منافع کمایا اسی ہوائی اڈے اور بندرگاہیں اور ہندوستان کے دیگر سرمایے خرید ے ۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ پیسہ کس کا ہے ؟ اڈانی جی کا یا کسی اور کا ہے ؟ اور اگر کسی اور کا ہے تو وہ کون ہے ؟ اس طرح اشارے کنائے میں مودی جی پر نشانہ سادھا گیا ۔
راہل گاندھی نے اپنے بیان میں برطانیہ کے معروف انگریزی اخبار گارڈین نے اپنی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا تھا جس میں الزام لگا گیا ہے کہ اس نے بیرون ملک کچھ ایسے مالیاتی ریکارڈ کی دستاویزات دیکھی ہیں جن میں اڈانی خاندان نے خفیہ طور پر اپنی ہی کمپنیوں کے شیئرز خرید کرہندوستانی اسٹاک مارکیٹ میں کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ دی گارڈین نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پروجیکٹ (او سی سی آر پی) نے اس حوالے سے کچھ دستاویزات گارڈین اور فنانشل ٹائمز کے ساتھ شیئر کردی۔ نئی دستاویزات میں ماریشس کے اندر ایک نامعلوم اور مشکوک آف شور آپریشن کو اڈانی کے ساتھیوں نے مبینہ طور پر 2013 سے 2018 تک اپنے ہی گروپ کی کمپنیوں کے حصص کی قیمتوں میں اضافے کے لیے خریدے ۔ یعنی جس طرح مودی جی جعلی طریقہ پراپنی شہرت بڑھاتے ہیں اسی طرح قیمتوں کا یہ اضافہ نقلی تھا ۔ اس سے عوام کو جھانسہ دے کر انہیں سرمایہ کاری کے لیے راغب کیا گیا اور وہ دھوکہ گیا۔ اس طرح مودانی ماڈل کی دھوکہ دھڑی سیاست سے لے کر معیشت تک پھیل گئی ۔
اڈانی گروپ کو چاہیے تھا کہ وہ اطمینان سے ان الزامات کی تردید کرتا مگر چور کی داڑھی میں تنکہ اس راہ میں حائل ہوگیا اور اس نے آناً فاناً ایک وضاحتی بیان جاری کرکے اسے غیر ملکی تنظیموں کی سازش قراردے دیا۔ اس بوکھلاہٹ سے واضح ہوگیا کہ دال میں کالا ہے ۔ اس رپورٹ کی وجہ سے اڈانی گروپ کے شیئرز میں زبردست گراوٹ آئی اور اس کی مارکیٹ کیپ 150 بلین ڈالر تک کم ہو گئی۔ہنڈن برگ کی رپورٹ کے بعد 3سے 33 ویں نمبر پہنچنے والا اڈانی گروپ بڑی مشکل سے مئی میں 18 ویں پر آیا تھا مگر اب پھر ایک جھٹکے میں 24 ویں مقام تک کھسک گیا ہے ۔ ویسے گوتم اڈانی کے بھائی ونود اڈانی اور ساتھیوں نے خفیہ طور پر اڈانی گروپ کی کمپنیوں میں حصص خریدنے میں ونود فعال کردار سے انکار کردیا ہے مگریہ دستاویزات حصص کی قیمتوں میں ہیرا پھیری کا منی بولتا ثبوت ہیں ۔ان انکشافات کے بعد کانگریس پارٹی نے مودی حکومت سے پوچھا کہ شیل کمپنیوں میں جو20 ہزار کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی گئی ہے ، اس کا مالک آخر کون ہے ؟ پارٹی نے اس معاملے کی تفتیش کے لیے جے پی سی یعنی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کا مطالبہ کردیا۔
کانگریس کے جنرل سیکریٹری جے رام رمیش نے وزیر اعظم نریندر مودی اور گوتم اڈانی کے تعلقات پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ امسال 28 جنوری سے 28 مارچ تک کانگریس نے وزیر اعظم مودی سے اڈانی کے حوالے سے 100 سوالات پوچھے تھے لیکن کسی کا جواب نہیں دیا گیا۔ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اڈانی کی شیل کمپنیوں میں لگے 20 ہزارکروڑ روپے کا مالک کون ہے ؟”انہوں نے مزید کہا ”سرمایہ کاری میں شفافیت نہیں ہے اور شیل کمپنیوں کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا گیا ہے ۔جے رام رمیش کے مطابق راہل گاندھی نے ایوانِ پارلیمان میں یہ مسائل اٹھائے تو انہیں ایوان سے نااہل قرار دے کر نکال دیا گیا۔ یہ صرف اڈانی کا نہیں ہے بلکہ مودانی کا معاملہ ہے۔ اصل مسئلہ وزیر اعظم مودی اور اڈانی کے درمیان تعلقات کا ہے ۔ نئی دہلی میں جی 20کے سربراہی اجلاس سے نو دن قبل عالمی اخبارات میں انکشاف نے وزیر اعظم سمیت ان کے چہیتے دوست کی عزت بھرے بازار میں نیلام کردی ۔
مذکورہ بالا انکشافات نئے نہیں ہیں بلکہ سیبی کے تمام اصولوں کی خلاف ورزی کو’نہ کھاؤں گا اور نہ کھانے دوں گا’۔ کا دعویٰ کرنے والے مودی جی نے رفع دفع کروا کر اقتدار میں آتے ہی اپنے دوست کو کلین چٹ دلوا دی ۔ ڈی آر آئی کے ڈائریکٹر جنرل نجیب شاہ نے جنوری 2014 میں اپنے سیبی ہم منصب کو "اسٹاک مارکیٹ میں اڈانی گروپ آف کمپنیوں کے لین دین کے متعلق لکھا تھا اور اپنے خط کے ساتھ ایک سی ڈی بھی منسلک کی تھی جس میں اڈانی پاور پروجیکٹ میں بڑھائی گئی رسیدوں کے الزامات کی بابت تحقیقات سے مطلوبہ ثبوت موجود تھے ۔ اس خط میں کہا گیا تھا کہ :اس بات کے اشارے مل رہے ہیں کہ اڈانی گروپ میں لوٹی گئی رقم کا ایک حصہ ہندوستان میں اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری اور ڈس انویسٹمنٹ کے طور پرآیا ہوگا ۔اس خط و کتابت سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیبی جنوری 2014 میں اڈانی کی تحقیقات کر رہا تھا۔ اس معاملے سیبی کی ذمہ داری تھی کہ وہ تفتیش کرکے اڈانی کو کٹہرے میں کھڑا کرتا مگر اس نے کلین چٹ دے دیا ۔ اس معاملے میں سیبی کا کردار اس وقت زیربحث آیا جب سے سپریم کورٹ کی طرف سے مقرر کردہ ماہرین کی کمیٹی نے 2018 سے غیر ملکی پورٹ فولیو سرمایہ کاروں کے ضوابط میں یکے بعد دیگرے ترامیم کے بارے میں شکوک کا اظہار کیا۔ اس طرح مودی سرکار نے اڈانی کمپنیوں کو اسٹاک کی قیمتوں میں مبینہ ہیرا پھیری، اندرونی تجارت اور رشوت خوری کی راہ آسان کردی ۔ عدالت عظمیٰ کی طرف سے مقرر کردہ ماہر ین کی کمیٹی نے اکتوبر 2020 میں تحقیقات شروع کر دی اور اڈانی کا عمال نامہ کھل گیا۔
اس بدعنوانی کا ماسٹر مائنڈ ویسے گوتم اڈوانی کا بھائی ونود اڈانی ہے لیکن ان کے ساتھ دو مزید شریک کار بھی ہیں۔ ان میں سے ایک کا نام متحدہ عرب امارات کے ناصر علی شعبان علی ہے اور دوسرا چین چنگ لنگ (چینی باشندہ) ہیں۔ اڈانی کی سرمایہ کاری نہ صرف انفراسٹرکچر بلکہ دفاعی شعبے میں بھی ہے ایسے میں غیر ملکیوں کی سمولیت سارے معاملے کو سنگین بنادیتی ہے ؟اس لیے ان کے کردار کا پتہ لگانے کی ضرورت ہے ۔ ان لوگوں کے ذریعہ غیر ملکی شہریوں کے ذریعہ ہندوستانی شیئر مارکیٹ کو متاثر کرنے کی کوشش بھی تحقیق طلب ہے ۔اس پر وزیر اعظم کی خاموشی شکوک و شبہات میں اضافہ کرتی ہے ۔ سوال یہ بھی ہے کہ ملک بھر میں کہرام مچانے والی سی بی آئی اور ای ڈی جیسی ایجنسیاں اڈانی گروپ معاملے کی جانچ کیوں نہیں کر رہی ہے ؟ ان کو آخر کون روک رہا ہے ؟ڈی آر آئی کے 2014 والے خط کا منظر عام پر آتے ہی حزب اختلاف نے اڈانی گروپ کلین چٹ دینے والے سابق سیبی سربراہ یو کے سنہا کے کردار پر سوال اٹھایا جنہیں اڈانی کے این ڈی ٹی وی میں ڈائرکٹر بناکر نوازہ گیا جوایک طرح سے رشوت کا معاملہ تھا ۔ ایوان پارلیمان کے خصوصی اجلاس سے قبل حزب اختلاف کو پھر ایک بار مودی سرکار کو گھیرنے کا موقع مل گیا ہے اور وہ اس کا فائدہ اٹھا وزیر اعظم کے ناک میں دم کردے گا۔اڈانی کو بچانے کے لیے جو خصوصی اجلاس بلایا گیا ہے اس میں بھی اڈانی کا نام ہی گونجے گا۔ ایسا لگتا ہے اڈانی کے نام کا بھسما سور مودی کو بھسم کرنے پر تُل گیا ہے ۔ اسی لیے موقع بہ موقع نمودار ہونے والا یہ عفریت مودی کا جینا حرام کردیتا ہے ۔
٭٭٭