گھروں سے بھٹو نہیں اب ڈالرنکلے گا؟
شیئر کریں
عطا اللہ ذکی ابڑو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
15 ستمبر کی تاریخ کو سیاسی حلقے انتہائی اہم قراردے رہے ہیں ۔منظرنامہ بتا رہا ہے کہ مڈ ستمبر سے وہ ستمگردن شروع ہوچکے ہیں جس سے ملکی تاریخ کا سیاسی منظر بدلنے جارہا ہے جی ہاں بالکل صحیح سمجھے آغازسندھ سے ہوگا ۔یہی وجہ ہے کہ حقائق کو بھانپتے ہوئے سندھ کی بااثر شخصیات نے الیکشن کراؤ؟ الیکشن کراؤ؟ کی گردان شروع کررکھی ہے یہ ہوں گے کب؟ الیکشن کمیشن کو بھی خبرنہیں؟ الیکشن کا دباؤ ڈالنے کے لیے پیپلزپارٹی چیئرمین بلاول بھٹو کا سندھ سے شروع کیے جانے والا عوامی دورہ کا تخت لاہور میں قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی بتایا جاتا ہے؟ صدرمملکت ڈاکٹرعارف علوی نے الیکشن کمشنرسکندرسلطان راجہ کو لکھے گئے خط میں ملک بھر میں عام انتخابات کیلئے 6 نومبر کی تاریخ تجویز کی ہے اورکہا کہ 6 نومبر کی تاریخ تجویز نہیں کی بلکہ 6 نومبر کی تاریخ آرٹیکل 48 (5) کی تشریح کے تناظر میں ہے۔ ادھرحلقہ بندیوں میں مصروف عمل الیکشن کمیشن ذرائع کہتے ہیں ہم اپنی ذمہ داریوں سے بخوبی آگاہ ہیں، نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ معاشی استحکام کے بغیرعام انتخابات ملکی صورتحال کو کسی اور ڈگرپر لے جاسکتے ہیں، سابق صدرزرداری اور معتبرسیاسی حلقے عام انتخابات آئندہ سال جنوری یا فروری ہوتا دیکھ رہے ہیں؟ برگیڈئیر(ر)اشفاق حسن نے اپنے ایک ٹویٹ میں اس بات کا اشارہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ کرپشن میں ملوث افراد،ڈالرذخیرہ کرنے ان کی اسمگلنک کرنے،ایرانی تیل کی اسمگلنک کرنے،ملکی خزانے پربوجھ بننے، سیاسی بھرتیاں کرنے،نان فائلرکا خاتمہ کرنیاور ملک میں سیاسی استحکام لانے کے لیے سخت فیصلے کرنا ہوں گے ،اس کام کو ایک ہی شخصیت کرسکتی ہے جو معاشی استحکام لائے بغیر چین سے نہیں بیٹھے گی وہ ہیں آرمی چیف جنرل عاصم منیرصاحب، جنہوں نے ملک کو ترقی کی شاہراہ لانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال بھی مدت پوری کرکے ریٹائرمنٹ کے بعد ججزکالونی منتقل ہوچکے ہیں۔ نئے چیف جسٹس فائزعیسیٰ قاضی رواں ہفتے چیف جسٹس ہاؤس منتقل ہوجائیں گے،انہوں نے 17 ستمبر کوعہدے کا حلف اٹھالیا ہے ، ساتھی ججز کوعشائیے پرمدعو کررکھا ہے جس میں سابق چیف جسٹس شامل ہیں یہ وہی چیف جسٹس عمرعطا بندیال ہیں جن کے عشائیے کے بائیکاٹ کا اعلان پاکستان بار کونسل نے کیا تھا، وائس چیئرمین بارکونسل ہارون رشید نے سابق چیف جسٹس کو دست بدستہ گوش گزارکرایا کہ عدالت عظمٰی میں 60 ہزارمقدمات زیرالتوا ہیں، مقدمات کی تاریخ مقررکرنے اورنمٹانے کا کوئی شفاف طریقہ کارنہیں؟ایسے فیصلوں اورآئندہ وقت پرعام انتخابات سے متعلق تمام امیدیں اب نئے چیف جسٹس سے وابستہ ہیں ۔موجود منظرنامے کو بھانپتے ہوئے تخت لاہور والے میاں برادران نے بھی لندن سے وطن واپسی کی تاریخ دیدی ہے۔ ایک باہمی مشاورت سے نوازشریف کی وطن واپسی کے لیے 20 اکتوبرکا اعلان کیا گیا ہے ساتھ ہی مریم نوازکوپیپلزپارٹی کے قلعہ سندھ میں دراڑ ڈالنے کا ٹاسک سونپا گیا ہے۔ ایک ٹاسک ایم کیوایم پاکستان،جی ڈی اے اور جے یو آئی کوبھی ملا ہے؟ اور وہ پیپلزپارٹی کے خلاف ایک میز پرآچکے ہیں جو جماعتیں الیکشن الیکشن کے نعرے بلند کررہی تھیں وہ آج الیکشن کی تاریخ دینے والے صدر مملکت کے خط کو غیر آئینی قرار دینے پرتلی ہیں؟
اس بارسیاست میں پی ایچ ڈی کہلانے والے ایک زرداری سب پہ بھاری کا نعرہ ماند پڑتا جارہا ہے۔ معاملے کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے سابق صدرنے متوقع آپشنز پربھی سنجیدگی سے غورشروع کردیا ہے اور اس کے لیے قانونی ٹیم سے مشاورت میں ہیں۔ پارٹی لیڈران اس بات پر فکرمند ہیں کہ گھروں سے نکلنے والا بھٹو اب ڈالرکی صورت اختیارکرنے جارہا ہے ،معاملے کی نزاکت کو دیکھ کرعوام کا پارہ بھی ہائی ہے جس کی مثال 11 نومبر کو بلاول بھٹو کے آبائی شہرنواب شاہ پہنچنے پردیکھنے میں آئی ،جہاں سکرنڈ کے مقامی جیالے ذیشان سومرو بلاول بھٹو کی گاڑی کے آگے لیٹ گیا اورچیئرمین سے ملاقات کے لیے مقامی عہدیداروں سے ضد کرتا رہا کہ مجھے چیئرمین سے ملنا ہے، بے شک گاڑی چڑھا دو میں نہیں اٹھوں گا۔ کیا جیالا بولا ہم کارکن صرف نعرے لگانے کیلئے رہ گئے ہیں ؟بلاول بھٹو زرداری کے پرائیویٹ گارڈ اورسیکیورٹی اہلکاروں نے مقامی جیالوں کی مدد سے ضدی ذیشان کو اٹھاکرہمیشہ کی طرح ایک بار پھر سائیڈ کردیا؟ بالکل اسی طرح شہر نواب شاہ کی مقامی قیادت کا رویہ بھی تبدیل ہوتاجارہاہے۔ گزشتہ تین روز پہلے میئرنواب شاہ کی جانب سے ایک تقریب بھی صحافیوں اور جیالوں کے درمیان تلخ کلامی کی نذر ہوگئی۔ صحافیوں نے میئرنواب شاہ کی تقریب کا بائیکاٹ کردیا۔ پارٹی چیئرمین صاحب ان جیالوں کوسائیڈ کرنے کے بجائے پارٹی سے دیمک کی طرح چمٹے رہنے والے کرپٹ لیڈران کوسائیڈ کریں جو کئی سالوں سے مال تجوریوں میں بھر رہے ہیں اورجیالا سڑک پرصرف جھنڈے لہرانے کے لیے رہ گیا ہے؟ یہ مقامی وڈیرے،لٹیرے نہ خود عوام کی خدمت کرتے ہیں اورنہ کسی کو آگے آنے دیتے ہیں؟ اور پارٹی کے لیے الگ بدنامی کا باعث ہوئے ہیں۔ بلاول بھٹو اپنی طرح نواب شاہ شہر سے شمولیت کرنے والے نئے چہروں کو آگے لے آئیں جو آئندہ مستقبل کے لیے پارٹی کا اثاثہ ہیں ۔نئے شامل ہونے والوں میں شہرکے سید، ملک اورآغا برا داری کے نوجوان پارٹی کے لیے بے باک ثابت ہوسکتے ہیں۔ ورنہ تو عوام بیدارہوچکے ہیں جس کی ایک جھلک ہمیں بلاول بھٹو کے سکھر پہنچنے پر نظر آئی۔ جلسہ گاہ میں نہ ایم این ایز،ایم پی ایز سمیت وڈیروں اورسرکاری افسران نے تمام سیاسی وابستگیاں بالائے طاق رکھ دیں پنڈال میں خالی کرسیاں اور گلی محلے کے بچے اٹھکیلیاں کرتے رہے۔ جلسہ گاہ میں ہمیں کہیں بھٹو زندہ دکھائی نہ دیا۔ ایک منظر نامہ ہمیں بلاول بھٹو کے بدین دورے پر بھی نظر آیا۔پارٹی چیئرمین عوام سے ووٹ مانگنے ذوالفقار مرزا کے شہر بدین پہنچے تو ایک سندھی بلاگر نے پارٹی چیئرمین کی ٹیبل سے پانی کی ڈسپوزایبل بوتل اٹھالی اور اسے جانچنے کا پیمانہ لیے سوشل میڈیا پر لے آیا اور بتایا کہ اس بوتل میں فرانس سے درآمد کیا جانے والا انتہائی مہنگا پانی ہے جو پارٹی چیئرمین صاحب پیتے ہیں اور گزشتہ چالیس برس سے یہی خاندان سندھ پرحکمران ہیں۔ یہ وہی سندھ کی دھرتی ہے جہاں روزسیکڑوں بلاول صاف پینے کا صاف پانی نہ ملنے کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔
گزشتہ روز سپریم کورٹ فیصلے نے عوام کی امیدوں کو پھرسے جگایا ہے اوریہ فیصلہ نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پرآیا ہے۔ عدالت نے درخواست قابل سماعت قرار دیتے ہوئے نیب ترامیم کی 10 میں سے 9 ترامیم کالعدم قرار دی ہیں، 58 صفحات پر مشتمل فیصلے میں 50 کروڑ کی حد سے کم ہونے پر ختم ہونے والے تمام مقدمات بحال کیے جاچکے ہیں تمام کیسز نیب اوراحتساب
عدالتوں میں دوبارہ مقرر کیے جائیں گے،اعلی عدلیہ نے چیئرمین نیب کی مدت چارسال بحال کرتے ہوئے نیب کو 7 دن میں تمام ریکارڈ متعلقہ عدالتوں میں بھیجنے کا حکم دیا ہے۔ اب پھر کسی رکشے، ٹھیلے اور فالودے والے کے اکاؤنٹس سے کروڑوں روپے نکل آنے کی توقع ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ نگراں حکومت اوورسیزپاکستانیوں کے لیے پیکیج کا اعلان کرنے کے بجائے نگراں حکومت کرنسی نوٹ ہی تبدیل کرنے کا اعلان کردیتی تاکہ بلیک منی کی صورت میں بنگلوں کے تہہ خانوں اوراسٹرانگ رومز میں چھپایا گیا ملکی خزانہ گھنٹوں میں باہرآجاتا۔نئے چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی کے حلف اٹھاتے ہی سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے تاریخ رقم ہونے جارہی ہے۔ اگر احتساب کا نظام سب کے لیے یکساں ہوگیا تو نئے چیف جسٹس سپریم کورٹ، نیب حکام اور مقتدر حلقوں کے اقدامات سے ہمیں گھروں سے زندہ بھٹو کے بدلے جلد ڈالر نکلتے ہوئے دکھائی دیں گے؟