میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
الیکشن کمیشن میں عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس کا فیصلہ محفوظ

الیکشن کمیشن میں عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس کا فیصلہ محفوظ

جرات ڈیسک
پیر, ۱۹ ستمبر ۲۰۲۲

شیئر کریں

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی نااہلی کے لیے دائرتوشہ خانہ ریفرنس میں فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔ فیصلہ آنے والے دنوں میں سنایا جائے گا۔ چیف الیکشن کمشنر ڈاکٹر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں نثار احمد درانی، شاہ محمد جتوئی، بابر حسن بھروانہ اور جسٹس (ر) اکرام اللہ خان پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے پاکستان مسلم لیگ (ن)کے رکن قومی اسمبلی علی گوہر خان بلوچ اور حکمران اتحاد کے پانچ دیگر اراکین قومی اسمبلی کی جانب سے توشہ خانہ کے تحائف انتخابی گوشواروں میں چھپانے پر سابق وزیر اعظم عمران خان کی آرٹیکل 63 کے تحت نااہلی کے لئے دائر ریفرنس پر سماعت کی۔ ریفرنس اراکین قومی اسمبلی نے اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کے توسط سے الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔ دوران سماعت عمران خان کے وکیل بیرسٹر سینیٹر سید علی ظفر کا کہنا تھا کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے آرٹیکل 63 دو کے تحت جو ریفرنس بھجوایا ہے وہ غیر قانونی ہے، انہیں ریفرنس بھجوانے کا کوئی اختیار نہیں تھا۔ علی ظفر کا کہنا تھا کہ الیکشن کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن عدالت نہیں اور کسی عدالت سے ڈیکلیئریشن اسپیکر قومی اسمبلی کو نہیں گیا کہ عمران خان نا اہل ہیں اور اسپیکر نے بغیر ڈیکلیئریشن کے ہی ریفرنس بنا کر الیکشن کمیشن کو بھیج دیا، الیکشن کمیشن یہ کیس نہیں سن سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن آرٹیکل62ون ایف اور63دو کے تحت نااہل کرنے کا مجاز نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر قانون کے مطابق اثاثہ ظاہر نہیں کیا جاتا تو پھر 120 دن کے اندر الیکشن کمیشن اس پر سماعت کرسکتا ہے لیکن اب یہ کیس بہت زیادہ پرانا ہو چکا ہے اور یہ ایک سیاسی کیس ہے۔ ہم نے تمام اثاثے اور ٹیکس ریٹرن اپنے جواب کے ساتھ لگا دیے ہیں۔ اسپیکر کہہ رہے ہیں کہ عمران خان صادق اور امین نہیں ہیں۔ علی ظفر کا کہنا تھا کہ ہر مس ڈیکلیئریشن نااہلی نہیں بنتی۔ ان کا کہنا تھا کہ اسپیکر کی جانب سے بھجوایا گیا سوال مسترد ہوتا ہے۔ عمران خان کے خلاف الزامات بے بنیاد اور ناجائز ہیں اور بدنیتی پرلگائے گئے ہیں، یہ سیاسی ریفرنس ہے اور اسپیکر نے دیکھے بغیر خود ہی ریفرنس بنا کر الیکشن کمیشن کو بھیج دیا ۔ جبکہ (ن) لیگ کے وکیل بیرسٹر خالد اسحاق کا جواب الجواب میں کہنا تھا کہ عمران خان نے تحائف وصول کرنے اور فروخت کرنے کو تسلیم کیا لیکن یہ نہیں بتایا کہ یہ تحائف کس تاریخ اور کتنی مالیت میں فروخت کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے اپنے لندن فلیٹ کی رسیدیں دی تھیں لیکن تحائف فروخت کرنے کی رسیدیں فراہم نہیں کیں چنانچہ انہیں نااہل قراردیا جائے۔ خالد اسحاق کا کہنا تھا کہ یہ الیکشن کمیشن کو ایک اکاؤنٹ دکھاتے ہیں کہ اس میں پانچ کروڑ روپے پڑے ہیں لیکن کوئی رسید نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آئین نے الیکشن کمیشن کو اختیار دیا ہے اور وہ آرٹیکل62 ون ایف اور63 دو کے تحت نااہل کرسکتا ہے۔ علی ظفر نے مزید کہا کہ تحائف کی 5 کروڑ 80 لاکھ آمدن پر جو ٹیکس دیا وہ ہم نے ڈکلیئر کیا ہے، 2021 تک کی تفصیلات جواب میں دے دی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر کہیں کسی تفصیل پر شک پڑتا ہے تو الیکشن کمیشن اس کی اسکروٹنی کرتا ہے، ہمارے کیس میں الیکشن کمیشن نے کوئی اعتراض نہیں لگایا، 2019- 20 میں ہمیں 17 لاکھ کے تحائف ملے۔ ممبر کمیشن نے کہا کہ آپ نے جو تحائف خریدے، رقم توشہ خانہ کو ادا کی، وہ رقم کہاں سے آئی، جس پر وکیل عمران خان نے کہا کہ یہ بات ہم نے آپ کو نہیں دکھانی۔ الیکشن کمیشن نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد عمران خان کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں