مبینہ ملاقات
شیئر کریں
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل اور چھور ہو۔ ایک ہی معاملے میں عدالتی فیصلے الگ الگ آسکتے ہیں۔ ایک ہی شخص ایک دور میں معتوب اور پھر اچانک محبوب بن سکتا ہے۔ ایک سیاسی جماعت کسی صبح محب وطن اور شام وطن دشمن قرار پاسکتی ہے۔ اقتدار سے آج بے دخل ہونے والے کل پھر پزیرائی پاسکتے ہیں۔ اقتدار کے دروبست میں زندہ کل اپنے لاشے کے ساتھ دفنائے جاسکتے ہیں۔ ادارہ جاتی نظم میں مردود ،کل مقبول ہوسکتے ہیں۔آج کے مقبول کل راندہ ٔدرگاہ ہوسکتے ہیں۔ آج جن کو ہرطرف سے پروانۂ گرفتاری تھمایا جارہا ہے، کل وزارتوں کے قلمدان تھامے مقتدر راہداریوں میں اِترا سکتے ہیں۔ آج اقتدار میں غرّانے والے کل جیل کی کال کوٹھریوں میں فریادیں کرتے سنائی دے سکتے ہیں۔ جب سیاسی روز مرہ کی کوئی مستقل نہاد ، بنیاد نہ ہو، جب فیصلوں کی بنیاد وقتی ضرورت اور ادنیٰ مفادات ہو، تو پھر ادارے، سیاسی نظام،عدل گاہیں اوراحتسابی بندوبست میں سے کسی کی بھی کوئی قدروقیمت باقی نہیں رہ جاتی۔ اُصول و ضوابط سے خالی فضاء میں ابہام سازگار اور افواہیں مدد گار ہوتی ہیں۔ پاکستان میں بھی ہیں۔
حالیہ دنوں میں سیاسی و صحافتی اُفق پر ایک مبینہ ملاقات کا خوب چرچا ہے۔ اس حوالے سے ابہام کی دھند میں افواہوں کا ایک سیلاب آیا ہوا ہے۔اس ملاقات کو محض بنی گالہ اور پنڈی کے درمیان صرف رابطہ نہیں سمجھا جارہا۔ چنانچہ حالات میں ایک بھونچال آنا فطری امر تھا۔ یہ ملاقات، عمران خان کے دورِ حکومت میں ایک اہم شخصیت کی لندن میں نوازشریف سے ملاقات کی خبروں جیسی ہی ہیں۔ تب اُس ملاقات پر جو رائے ایک حلقے میں پائی جاتی تھی، وہی رائے اب دوسرے حلقے میں اِ س نئی ملاقات کے حوالے سے پائی جاتی ہے۔ تب اُس ملاقات سے امکانات کی ایک نئی دنیا تراشنے والے بھی تھے، اور اُسے "رات گئی بات گئی” کے بمصداق ہوا میں اڑانے والے بھی تھے۔ فریقین کی تبدیلی سے اب یہی ہنگامہ بنی گالہ اور پنڈی کے درمیان رابطے پر بپا ہے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ ایسی ملاقاتیں افواہوں میں رہتی اور بدلتے حالات میں دکھائی دیتی ہیں۔ سوال یہ نہیں کہ کیا ایسی کوئی ملاقات ہوئی ہے، بلکہ اب سوال یہ رہ گیا ہے کہ کیا ایسی کوئی ملاقات دراصل لندن میں ہونے والی ملاقات کی طرح حالات بدلنے کا باعث بن سکتی ہے؟ اس ضمن میں عمران خان کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کو مثال بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ جبر تو نون لیگ سمیت ملک کی اکثر جماعتوں کے ساتھ بھی تھا جو فوجی قیادت کو کھلے عام موضوع بناتی رہی۔ عمران خان کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات کی تنزلی کا ماجرا نوازشریف اور اُن کے خاندان کے ساتھ تعلقات کی ابتری جیسا نہیں۔ پھر یہ کیوں باور کیا جانے لگا کہ اب عمران خان کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات کبھی بہتر نہیں ہوسکتے۔ اس حوالے سے حالات کے جبر پر بھی توجہ نہیں دی گئی،جو گاہے فیصلہ کن عامل کے طور پر بروئے کار آتا ہے۔
پاکستان میں کوئی شے مستقل نہیں۔ موجودہ حکومتی بندوبست بھی عمران خان کے دور میں کسی کے وہم گمان میں بھی نہ تھا۔ ذرا ذہنوں کو تازہ کیجیے!یہ حکومتی بندوبست عمران خان سے چھین کر ایسے تیرہ جماعتی اتحاد کی نذر کیا گیا جس کی کوئی مشترک بنیاد نہیں تھی۔ پی ڈی ایم اپوزیشن میں تھی تو عمران خان مخالفت اُن کا مشترکہ وصف تھا، مگر جب یہ حکومت میں آئے تو یہ مشترکہ بنیاد بھی تحلیل ہو گئی۔ کیونکہ اس بندوبست میں ایسی جماعتیں بھی شامل ہیں جو پی ٹی آئی حکومت کا بھی حصہ رہیں۔ یوں حزب اختلاف کے ہنگام پی ڈی ایم کا عمران خان کی مخالفت کا واحد مشترک رنگ بھی اب اقتدار میں آ کر اس سے اُکھڑ گیا ہے۔ یہ اتحاد جب اپوزیشن میں تھا تو اُن سے وابستہ سیاست دانوں سے بار بار ایک سوال ہوتا تھا کہ وہ پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کیوں پیش نہیں کرتے؟ تب پی ڈی ایم رہنماؤں کا جواب ہوتا تھا کہ اس فیصلے کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا ، جب تک کچھ قوتیں عمران خان کی حمایت ترک نہیں کردیتیں۔ چنانچہ پی ڈی ایم نے عمران خا ن کے خلاف فیصلہ کن معرکہ کسی "اشارے” پر ہی برپا کیا تھا۔ اگر چہ اُنہیں نیوٹرل کہا گیا، مگر اس سے مراد دراصل حمایت کا "اُلٹ پھیر” تھا۔ اس پورے پسِ منظر میں ایک "اہم شخصیت” کی لندن میں ملاقات انتہائی اہم اور فیصلہ کن عامل کے طور پر کام کررہی تھی۔ یہ صورتِ حال اب عمران خان کے اپوزیشن میں آنے کے بعد کوئی بدل نہیں گئی۔ تب پی ڈی ایم عمران خان کے خلاف نہیں بلکہ اُن اصل قوتوں کے خلاف دباؤ بڑھا رہی تھی، جو عمران خان کے حکومتی بندوبست کی اصل پشت پناہ تھیں۔ عمران خان بھی کچھ مختلف نہیں کررہے تھے۔ عمران خان بھی موجودہ سیاسی بھان متی کے کنبے کو ہدف نہیں بنا رہے، بلکہ اُن قوتوں کو تاک تاک کر نشانے پر لے رہے تھے، جو اس بندوبست کے اصل معمار و محافظ ہیں۔ یہ موجودہ حکومت اور اُن کے محافظ معماروں کی بد قسمتی ہے کہ ایک حقارت آمیز حکومت کرنے کے باوجود عمران خان بوجوہ عوام میں نہ صرف مقبول بلکہ محبوب رہنما کے طور پر بھی اُبھر نے لگے۔ اس اعتبار سے حکومت کو حکومت راس نہیں آسکی مگر عمران خان کو اپوزیشن خوب راس آئی۔ عمران خان کی عوامی مقبولیت کو اب نظرانداز کرنا کسی قوت کے بس کی بات نہیں، جس میں ایک احتجاجی تحریک بننے کے بے شمار امکانات بہر صورت موجود ہیں۔ یہ صورت حال حکومت سے زیادہ اس کے پشت پناہوں کے لیے پریشان کن ہے۔ اس فضا میں پنڈی اور بنی گالہ کا مبینہ رابطہ صرف حال احوال پوچھنے کے لیے نہیں ہو سکتا۔
کیا پنڈی اور بنی گالہ کے رابطے میں ایسی کوئی بجلیاں ہیں جو موجودہ حکومت کے بندوبست پر گرسکتی ہیں؟ اس کا اندازا نوازشریف، شہباز شریف، مولانا فضل الرحمان اور آصف زرداری سے زیادہ کس کو ہوگا؟ آخر وہ سب ایسے ہی رابطوں سے تو یہاں تک پہنچے ہیں۔ مذکورہ ملاقات کے بعد پاکستان کے سیاسی حالات میں رونما ہونے والے واقعات میں کچھ نئے اشارے ملنے شروع بھی ہو گئے۔ مریم نواز کی تیوری پر اچانک بَل پڑنے لگے۔ اُنہوں نے ایک مرتبہ پھر عمران خان کو لاڈلا قرار دیتے ہوئے کہا کہ "اگر ایسا نہ ہو تو اس کو ڈیل کرنا چٹکیوں کا کام ہے”۔ اس دوران میں اچانک عمران خان پاکستان کے مرکزی ذرائع ابلاغ کے دھارے میں دکھائی دیے۔ اُن کا ایک انٹرویو موضوع بحث بنا جس میں اُنہوں نے فوجی سربراہ کی موجودہ حکومت کے ہاتھوں تقرری پر سوال اُٹھا دیا۔ عدالتوں سے ملنے والی راحت کو بھی کچھ حلقوں میں اسی نقطہ نظر سے دیکھا گیا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ نئی حکومت کے قیام کے بعد سے اب تک گوشۂ تنہائی میں بیٹھے صدر مملکت نمودار ہوئے اور پہلی مرتبہ ایک زبردست سیاسی بیان داغا۔ ایک اہم شخصیت کی لندن میں ملاقات تحریک عدم اعتماد کی کامیابی پر منتج ہوئی تھی۔ اب ایک دوسری ملاقات کے چرچے ہیں۔ اور اس کے فوراً بعد عمران خان کی جانب سے ایک بار پھر انتخابات کی تاریخ طلب کی گئی ہے۔ تحریک انصاف اشارے دے رہی ہے کہ اگلے دو ہفتوں میں اگر انتخابات کی تاریخ نہ دی گئی تو پھر اسلام آباد کی جانب مارچ کی تاریخ دی جائے گی۔ پاکستان کے اہم ترین فیصلے ایک بار پھر بڑی تقرری کے گرد گھومنے لگے ہیں۔ ماضی قریب کے واقعات میں سیاسی ہنگامے اس دوران دو آتشہ ہوتے رہے ہیں۔ کیا مبینہ ملاقات سیاسی اُلٹ پھیر کا پھر اشارہ دیتی ہے؟