نگراں حکومت کا ایجنڈا ابھی تک واضح نہیں ہو سکا!!
شیئر کریں
24 رکنی نگراں کابینہ نے حلف اٹھا لیا‘ نگراں کابینہ میں شامل وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی فارن سروس کے اعلیٰ افسران میں سے ہیں۔ وہ ریٹائرڈ سیکرٹری خارجہ ہیں، انہوں نے امریکہ میں سفیر، آسٹریلیا میں ہائی کمشنر، بھارت میں ڈپٹی ہائی کمشنر، یورپی یونین کے سفیر اور وزارت خارجہ کے ترجمان کے طور پر خدمات انجام دیں۔ وزیر دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر) انور علی حیدر نے پاک فوج میں ایڈجوٹینٹ جنرل کے طور پر خدمات انجام دیں۔ وہ نیا پاکستان ہاؤسنگ اینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین کے طور پر بھی کام کر چکے ہیں۔ ڈاکٹر شمشاد اخترانھیں اسٹیٹ پاکستان کی ملک کی پہلی خاتون گورنر کے عہدے پر بھی فائز رہنے کااعزاز حاصل ہے۔انھوں نے جون 2018 سے اگست 2018 تک نگراں کابینہ میں وزیر خزانہ کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل بان کی مون کی سینئر مشیر اور ورلڈ بینک کی نائب صدر کے طور پر بھی کام کیا۔ وزیر داخلہ سینیٹر سرفراز بگٹی کوداخلہ امور کا خاصہ تجربہ وہ 2013 سے 2018 تک بلوچستان کے وزیر داخلہ اور قبائلی امور بھی رہے۔ وہ مارچ 2018 سے سینیٹ کے رکن ہیں۔ وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی سینئر صحافی اور براڈ کاسٹر ہیں لیکن خبروں یا ملکی معاملات کے حوالے سے کسی بھی رپورٹ کے حوالے سے ان کا نام کبھی سامنے نہیں آیا۔ وہ کراچی سے شائع ہونے والے ایک انگریزی اخبار سے بھی کچھ عرصہ کام کیااوروائس آف امریکہ سے بھی وابستہ تھے۔ آصف زرداری نے انھیں پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے ڈائریکٹر جنرل کے طورپر فائز کیاتھا جس پر ریڈیو پاکستان کے سینئر عملے نے شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا لیکن آصف زرداری کی پشت پناہی حاصل ہونے کے سبب انہوں نے 2008 سے 2013 تک پی پی پی کی حکومت کے دوران ڈائریکٹر جنرل پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن بھی خدمات انجام دیں۔ وزیر مذہبی امور انیق احمد ٹیلی ویژن کے اینکر ہیں۔ وہ ایک نجی ٹیلی ویژن چینل پر صبح کے مذہبی پروگرام کے میزبان ہونے کے ناطے مقبول ہیں۔ وزیر تعلیم مدد علی سندھی ایک مشہور مصنف، صحافی اور کالم نگار ہیں۔ وزیر صحت ڈاکٹر ندیم جان کا اقوام متحدہ، یو ایس ایڈ، ورلڈ بینک، یورپی یونین، ڈی ایف آئی ڈی، آئی این جی اوز اور قومی حکومتوں کے ساتھ کام کرنے کا 24 سالہ شاندار کیریئر ہے۔ انہوں نے دنیا کے سب سے مشکل حالات سے دوچار صومالیہ، جنوبی سوڈان، ایتھوپیا، فلپائن، کینیا، افغانستان اور پاکستان میں فاٹا کے پی میں پیچیدہ ہنگامی صورتحال پر کا انتظام کیا ہے۔ ڈاکٹر ندیم نے 1996 سے 2000 تک پاکستان کے فلیگ شپ پولیو پروگرام کی ترقی اور نفاذ میں کلیدی کردار ادا کیا۔
اپنی 24 رکنی بھاری بھرکم کابینہ کی حلف برداری کے بعد نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ نے ایک دفعہ پھر اس عزم کو دہرا کرگویا نگراں وزرا کو یہ یاددہانی کرائی کہ وہ زیادہ مہم جوئی سے گریزکریں کیونکہ نگراں حکومت کو آئی ایم ایف کے ساتھ شہباز حکومت کے معاہدے کے سبب ملکی معاشی پالیسیوں کا تسلسل قائم رکھنا اور مزید اقتصادی بہتری لاناہے‘ انھوں نے وعدہ کیاہے کہ عوامی فلاحی منصوبے بلاتعطل جاری رہیں گے‘ اس سے قبل اپنے ایک بیان میں انھوں نے کہاتھا کہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے تحت ملک میں بیرونی سرمایہ کاری بڑھانے کیلئے اقدامات نگران حکومت کی ترجیحات میں شامل ہیں‘ نگراں حکومت معیشت کی بہتری کیلئے ڈی ریگولیشن اور ذمہ دار خودمختاری پر توجہ مرکوز کرے گی، نگران حکومت اپنی محدود مدت میں تمام تر توانائیاں معیشت کی اصلاح پر صرف کرے گی‘انہوں نے ہدایت کی ہے کہ ٹیکس محصولات میں اضافہ کیلئے اقدامات پر سختی سے عمل کیا جائے، پاور سیکٹر میں جاری اصلاحات پر عملدرآمد میں مزید تیزی لائی جائے، صحت اور تعلیم کے شعبہ میں بین الاقوامی معیار کی سہولیات یقینی بنائی جائیں۔
انوارلحق کاکڑ کے نگران وزیراعظم بننے کے بعد لمبی مدت کے نگران سیٹ اپ کی قیاس آرائیوں نے زور پکڑ لیا ہے۔ کچھ ذرائع تو مصر ہیں کہ2 سال کا منصوبہ تیار ہو چکا ہے۔ لیکن معاملہ یہ ہے کہ انتخابات میں اگر مردم شماری اور حلقہ بندیوں کی وجہ سے2 ماہ سے زیادہ تاخیر مقصود ہو (یعنی فروری کے بعد) تو آئین میں اس کی گنجائش ڈھونڈنی پڑے گی جو قاضی فائز عیسی کے چیف جسٹس بننے کے بعد آسان کام نہیں ہو گا۔ویسے بھی آئی ایف ایف قرض کی قسطوں کی فراہمی کاجو شیڈول دیا ہے اس کے مطابق نگراں حکومت آئینی مدت سے زیادہ عرصہ کام کرنا مشکل ہوگا،مردم شماری اور حلقہ بندیوں سے متعلق معاملہ عدالت میں پہنچنے کے بعد اب یہ امیدپیدا ہوگئی ہے کہ انتخابات آئین کے تحت مقرر ہ مدت یعنی 90 دن کے اندرہوجائیں گے،نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ نے جن لوگوں کو اپنی عبوری کابینہ میں شامل کیاہے شاید ان میں سے کوئی بھی نام مسلم لیگ ن یا پیپلزپارٹی طمانیت کا باعث ثابت نہیں ہوا ہوگا یہی وجہ ہے کہ ا ن لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں نگران سیٹ اپ کے مکمل ہونے اور اس کے بعد اس کے اثرات کا انتظار کر رہے ہیں لیکن حکومت ختم ہونے کے بعد ان کے خدشات بڑھ چکے ہیں۔آئندہ آنے والے چند ہفتوں میں یہ واضح ہو جائے گا کہ سابق اتحادی حکومت میں شامل جماعتوں کی سیاست کس کروٹ بیٹھے گی۔ کیا ان کے لیے سختیاں بڑھ سکتی ہیں؟ اس کا سوال کا جواب فی الحال نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کے پاس ہی ہے۔انورالحق کاکڑ ایک ذہین اور منجھے ہوئے سیاست دان ہیں، ان کی نامزدگی پر اعتراضات بھی ہوئے کہ وہ باپ (BAP) کے رہنما ہیں جن کو اسٹیبلیشمنٹ کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔انوارالحق نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے تعلقات کی کبھی تردید نہیں کی بلکہ گزشتہ ایک عشرے کی سیاست کے دوران انھوں نے ہر معاملے میں اسٹبلشمنٹ کے ساتھ اپنے خوشگوار تعلقات کے تاثر کو تقویت دی ہے۔ اب بروقت اور شفاف انتخابات کے انعقاد میں کامیابی ہی ان کے انتخاب کو درست ثابت کرے گی۔اہم سوال یہ ہے کہ کیا انتخابات بروقت یعنی نومبر میں ہو جائیں گے؟ اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ ’آئین یہی کہتا ہے اور ایسا ہی ہونا بھی چاہیے۔لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ خود کو اس ملک کا اسٹیک ہولڈر قرار دینے والوں کی اکثریت چاہتے ہیں کہ عام انتخابات بروقت یعنی نومبر میں نہ ہوں اور کسی نہ کسی بہانے ان کو آگے بڑھایا جائے تاکہ انھیں عوام کے ذہنوں سے اپنی زیادتیوں اور سفاکیوں کے اثرات کم کرنے میں مدد مل سکے جبکہ عوام کی اکثریت اور خود مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے عام ورکرز کی اکثریت چاہتی ہے کہ عام انتخابات بروقت یعنی نومبر میں ہی ہوں۔
مردم شماری اور حلقہ بندیاں اور پھر ان پر اعتراضات ایسے معاملات ہیں جس سے عام انتخابات میں کم از کم آٹھ ہفتے کی تاخیر ہو سکتی ہے یعنی عام انتخابات اگلے برس فروری یا اس کے فوراً بعد تک جا سکتے ہیں۔یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان ہر دور میں ایک سیاسی اضطراب کا شکار رہا ہے۔کوئی سا بھی دور اٹھا لیں،سیاسی بے چینی اپنی انتہا کو نظر آئے گی۔76سال کی تاریخ تو یہی بتاتی ہے،کبھی سیاست دان خود الجھتے رہے اور کبھی اُن کی آمریت یا اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی رہی۔کبھی وہ کسی کے آلہ ء کار بنے اور کبھی اُن پر دباؤ ڈال کر اُن سے وہ کچھ کرایا گیا جس نے پاکستانی سماج کی چولیں ہلا دیں۔یہ سب کچھ سامنے کے حقائق ہیں مگر ہم انہیں تسلیم کرنے کو تیار نہیں، جس ملک میں سیاست کے بنیادی اصول ہی طے نہ ہو سکے ہوں،جہاں آئین کو بھی نہ ماننے کی روایت موجود ہو،جس نظام کے اندر مفادات کا بیج بو دیا گیا ہو،وہاں وہی کچھ ہو گا، جو ہو رہا ہے،لیکن اب بہت ہوچکا لوگ بہتری کی جس امید پر زندہ تھے اب وہ امید بھی ٹمٹمارہی ہے،یہ آخری مرحلہ ہے ہمارے سیاستدانوں کو اب تو ہوش کے ناخن لینا چاہئیں اس قوم کی اُمیدوں کو زندہ رہنا چاہئے۔پاکستان ہی ہیں پوری دنیا میں یہ تاثر بڑی شدت سے پھیل چکاہے کہ پاکستان ایک جگہ آ کے رک گیا ہے۔ایک جمود ہے جس نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ کوئی اس جمود کو ناامیدی کا نام دے یا اقتصادی بدحالی کا،اسے سیاسی انتظار سے تعبیر کرے یا سماجی شکست و ریخت سے،تاہم اس سے انکار ممکن نہیں کہ اِس وقت پاکستان کو ایک بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے،جس انداز سے ملک کو چلایا گیا ہے اس طرح یہ اب نہیں چل سکتا۔ایک طرف اس کی اقتصادیات جواب دے گئی ہے اور دوسری طرف عوام بھی بے بس ہوچکے ہیں اور مایوسی ہے کہ بڑھتی ہی جارہی ہے، سابق اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض نے کھل کر کہاہے کہ ہمارے بڑوں نے فیصلہ کیا ہے کہ الیکشن فروری میں ہوں گے۔ پہلے یہ کہا جا رہا تھا کہ انتخابات کو التوا کا شکار کیا جائے مگر 15 روز پہلے فروری میں الیکشن کا فیصلہ کیا گیا ہے، انتخابات فروری 2024 میں ہوں گے،اس حوالے سے کوئی ابہام نہیں، انتخابات اکتوبرمیں ہوتے تو نوازشریف اب تک واپس آچکے ہوتے،راجہ ریاض کے بڑے کون ہوسکتے ہیں اس کی وضاحت کی چنداں ضرورت نہیں۔ نگران وزیراعظم کو اگرچہ سابقہ اتحاد میں شامل تمام جماعتوں نے بلاچوں وچرا قبول کیاہے لیکن ان کی نامزدگی میں بڑی پر اسراریت پائی جاتی ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ کیر ٹیکر نہیں انڈر ٹیکر ہیں۔ ویسے نگرانوں کی ذمہ داری مانٹیرنگ کرنا ہوتا ہے اور نگران ماڈل جب متعارف کروایا گیا تھا تو اس کا بنیادی مقصد انتخابات کو صاف شفاف اور غیر جانبدرانہ بنانا تھا تاکہ انتظامیہ انتخابات میں کسی کی طرفداری نہ کر سکے۔ نگرانوں کے اختیارات بھی محدود تھے وہ ڈنگ ٹپاو معاملات چلاتے تھے۔ بڑے فیصلے یا دور رس اثرات والے معاملات پر فیصلے ان کی دسترس سے باہر تھے۔ مگر اب جانے والی پارلیمنٹ نے موجودہ نگرانوں کو کافی اختیارات دے دیے ہیں۔ پہلے ادوار میں انتخابات کا اعلان ہوتا تھا پھر نگرانوں کا اعلان ہوتا تھا۔ اس بار انتخابات ابھی کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہے اور نگران آچکے ہیں۔ اب اللہ بہتر جانتا ہے کہ نگرانوں نے الیکشن کروانے ہیں یا ان سے کوئی اور کام لینا ہے۔آج تک کی حقیقت تو یہ ہے کہ انتخابات کا کہیں نام ونشان نظر نہیں آ رہا۔کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ الیکشن کب ہوتے ہیں۔ ویسے مارچ 2024میں سینٹ کی آدھی نشستیں خالی ہو رہی ہیں اصولی طور پر اس سے قبل سینیٹ کا الیکٹرول کالج اسمبلیاں مکمل ہونی چاہیں لیکن کوئی بات نہیں اس کا بھی کوئی حل تلاش کر لیا جائے گا۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر نگرانوں نے فوری الیکشن نہیں کروانے تو پھر انھوں نے کیا کرنا ہے اور انھیں کس مقصد کے لیے لایا گیا ہے۔ اس کا جلد ہی پتہ چل جائے گاتاہم انتخابات میں تاخیر کا خمیازہ سب سے زیادہ سیاستدانوں کو بھگتنا پڑے گا جو اپنی نااہلیوں کی وجہ سے اپنی ڈاڑھی کسی اور کے ہاتھ میں دے چکے ہیں۔ شنید ہے کہ نگرانوں سے ایسے کام کروانا مقصود ہیں جن کیلئے جرات مندانہ فیصلوں کی ضرورت ہوتی ہے اور ہمارے سیاستدان ایسے بولڈ فیصلے لیتے ہوئے ڈرتے تھے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ نگرانوں سے معیشت کے حوالے سے اہم اقدامات اٹھوائے جائیں گے۔ خسارے میں چلنے والے تمام یونٹس کی نجکاری کر دی جائے گی۔ بڑے بڑے ڈیفالٹر پکڑ لیے جائیں گے اور عین ممکن ہے کہ احتساب اب کسی اور طرز کا ہو جس میں ریکوریاں ٹارگٹ ہوں گی۔ مختلف شعبوں نے نگرانوں سے مختلف توقعات باندھ لی ہیں۔ تاہم عوام صرف یہ چاہتے ہیں کہ نگران ایسے اقدامات کریں جس سے مہنگائی میں کمی لائی جاسکے تاکہ شہباز حکومت نے گزشتہ 16 ماہ میں ان کی زندگی میں جو زہر گھولا ہے اس میں کمی ہوسکے اور ان کے روزمرہ زندگی کے معاملات چل سکیں۔ کاروباری طبقہ چاہتا ہے کہ فوری طور پر ایسے اقدامات کیے جائیں جس سے ان کا کاروبار پرانی ڈگر پر آجائے۔ ریاست کی نگرانوں سے توقع ہے کہ سیاستدانوں کا پیدا کیا ہوا بگاڑ درست کرکے عوام کو مطمئن کیا جائے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نگران حکومت کس ایجنڈے پر کام شروع کرتی ہے۔