انسانی ہمدردی کا عالمی دن۔تاریخ و حقائق
شیئر کریں
ڈاکٹر جمشید نظر
عراق کے شہر بغداد میں کینال ہوٹل میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے خصوصی نمائندے برائے عراق ”سرجیو ویرا ڈی میلو” اور انسانی امدادی کے کارکنان عراق میں امن مشن اور عراقی عوام کی مدد کے لئے ٹھہرے ہوئے تھے کہ ایک روز بارود سے بھراایک ٹرک ہوٹل سے ٹکرایااور زور دار دھماکوں کے بعدہوٹل تباہ ہوگیا جس کے نتیجہ میں22 انسانی امدادی کارکن ہلاک ہوگئے جن میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے خصوصی نمائندے برائے عراق بھی شامل تھے ۔یہ واقعہ 19اگست 2003 میں پیش آیا تھا جس کے پانچ سال بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی جس کے تحت ہر سال 19اگست کو دنیا بھر میں انسانی ہمدردی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔
اس عالمی دن کے موقع پر انسانوں کی مدد اوربھلائی کو فروغ دینے کے علاوہ ان افراد کوکو خراج تحسین بھی پیش کیا جاتا ہے جنھوں نے انسانی امداد کی خاطر اپنی جانیں گنوا دیں اس لئے یہ عالمی دن دکھی انسانیت کی خدمت کرنے والوں کے اس جذبہ کے نام پر وقف ہے جو بلا تفریق رنگ و نسل ہر ممکن طور پر دکھی اور ناچار انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ اوراس کی شراکت دار تنظیموں کا مقصددنیا کے تقریبا 109 ملین لاچارا ور بے بس افراد کی ہر طرح سے مدد کرنا ہے اس مقصد کی تکمیل کے لئے تقریبا 28.8 بلین ڈالر فنڈز کی ضرورت ہوگی۔ایک اندازے کے مطابق جب تک موسمیاتی تبدیلی اورزمینی تنازعات کی اصل وجوہات کو بہتر طریقے سے حل نہ کیا جائے تب تک صورتحال بدستور خراب ہوتی رہے گی۔ادارہ عالمی انسانی ضروریات کی حالیہ جائزہ رپورٹ کے مطابق موجودہ سال کے دوران دنیا بھر میں تقریبا 362 ملین سے زائد افراد کوانسانی مدد کی ضرورت ہے ۔ایڈ ورکر سیکیورٹی ڈیٹا بیس کے جاری کردی اعدادوشمار کے مطابق اس سال اب تک113حملوں میں62انسانی کارکن ہلاک ہوچکے ہیں ،رپورٹ کے مطابق جنوبی سوڈان امدادی کارکنوں کے لئے سب سے زیادہ خطرناک ملک قرار دیا گیا ہے۔
دین اسلام میں ابتداء سے ہی انسانوں کی مدد اوربھلائی کی ترغیب دی گئی ہے۔مال ودولت کی فراوانی اور بے پناہ صلاحیتوں کے باوجودہر انسان کسی دوسرے انسان کا محتاج ہے اس لئے ایک دوسرے کی محتاجی کو دور کرنے کے لئے باہمی تعاون،ہمدردی،خیر خواہی اور محبت کے جذبہ کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔پاکستان میںخدمت خلق خدا کی اعلیٰ مثال عبدالستار ایدھی مرحوم ہیں جن کی انسانی بھلائی کے حوالے سے خدمات کا اعتراف پوری دنیاکرتی ہے۔ عبدالستار ایدھی مرحوم کو بچپن میں ا سکول جاتے وقت اپنی والدہ سے دو پیسے ملاکرتے تھے جن میں سے ایک پیسہ وہ کسی ضرورت مند کو دے دیا کرتے تھے جب جوانی میں قدم رکھا توآپ نے ایک چھوٹی سی دکان میں ڈسپنسری کھول کر لوگوں کومفت طبی امداد فراہم کرنا شروع کردی۔اکثرآپ ڈسپنسری کے باہرپڑے بینچ پر اس خیال سے سوجایا کرتے تھے کہ کوئی مریض آگیا تواس کی فوری مدد کرسکیں۔ان کے جذبہ انسانی کو دیکھ کر کسی نیک دل دوست نے مدد کی توآپ نے ایک چھوٹی سی پک اپ خرید کر مفت ایمبولینس سروس شروع کردی اور ڈرائیونگ سیکھ کرایمبولینس پرسارا دن شہر کا چکر لگاتے رہتے تاکہ کسی مریض یا زخمی کو ہسپتال پہنچا سکیں۔عبدالستار ایدھی مرحوم نے ایک مرتبہ بتایا کہ انھوں نے 48سال تک ایمبولینس کے علاوہ کوئی دوسری گاڑی نہیں چلائی ۔انسانی بھلائی کرتے کرتے ایک وقت ایسا آیا کہ ان کے ادارے کی ایمبولینس سروس دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس بن گئی اور ان کے ادارے کا شمار جنوبی ایشیاء کے سب سے بڑے غیر ریاستی فلاحی اداروں میں ہونے لگ گیا۔آج معاشرے کے ہر فرد کو مہنگائی ، غربت،بے روزگاری،بیماریوں اور دیگر مسائل نے جس طرح جکڑ رکھا ہے ان سے نجات پانے کے لیے ضروری ہے کہ جہاں تک ممکن ہو سب ایک دوسرے کی مدد اور بھلائی کریں۔
٭٭٭