قائدکی دانشمندی اورگاندھی کی چالیں
شیئر کریں
سمیع اللہ ملک
قوم ہر سال بڑے جوش وجذبے اورعقیدت واحترام سے اپنایومِ آزادی مناتی ہے۔میڈیامیں اس دن کے حوالے سے بہت سیرحاصل معلومات پڑھنے اورسننے کوملتی ہیں اوراسی حوالے سے اسلامیانِ برصغیرکے متفقہ،جرأت منداوربے داغ کردارکے مالک قائداعظم نے قیامِ پاکستان جیساعظیم اورتاریخی کارنامہ انجام دیا۔اس پرخراجِ تحسین پیش کرنے کیلئے تقریبات کااہتمام کیاجاتاہے۔بی بی سی کے زیرِاہتمام ایک عالمی سروے میں قائداعظم کوجنوبی ایشیاکاعظیم ترین رہنما تسلیم کیاگیاہے۔ان کی عظمت کے کئی پہلوہیں جن کا اعتراف دنیاکے تمام انصاف پسند حلقوں حتی کہ منصف مزاج ہندومصنفین اوردانشوروں نے بھی ان کی جرات واستقامت،بالغ نظری، دوراندیشی،جمہوریت و قانون پسندی اور دیانت وامانت کوخراجِ تحسین پیش کیااوربعض ہندورہنماؤں نے یہ تک کہا کہ کانگریس میں ایک جناح ہوتاتوبرصغیرکی تقسیم نہ ہوتی۔
قائداعظم نے علیحدہ وطن کامطالبہ اس وقت کیاجب سفیراتحادکی حیثیت سے برصغیر کی دونوں قوموں کواکٹھارکھنے اورہندواکثریت کو مسلم اقلیت کے سیاسی واقتصادی حقوق جمہوری اصولوں کے مطابق تسلیم کرنے کی کوششیں ناکام ہوگئیں اورانتہاپسند،تنگ نظراورمسلم دشمن کانگریسی قیادت نے ثابت کردیاکہ وہ متحدہ ہندوستان میں ماضی کی حکمران مسلمان قوم کا وجودبرداشت کرنے اورآزادی کے بعد اسے عزت واحترام کے ساتھ اپنے ساتھ رکھنے پرآمادہ نہیں۔قائداعظم نے ایک گولی چلائے بغیراپنی باعزم قیادت اوراسلامیانِ برصغیر کی جمہوری جدوجہدکے ذریعے آزادخودمختارریاست حاصل کی جس کے بارے میں وہ بارباریقین دلاچکے تھے کہ نئی ریاست اسلام کاقلعہ ہوگی اوراس کے سنہری اصولوں کااحیا کرے گی،جمہوری پارلیمانی نظام کے تحت کام کرے گی اورجدیدتقاضوں کے مطابق صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست ہوگی۔
اقبال نے دوقومی نظریہ کے تحت ایک آزادمسلم ریاست کاجوتصورپیش کیااورجسے قائداعظم نے حاصل کرنے کیلئے مردانہ وارجدوجہد کی،اس کے بارے میں بانی پاکستان نے بار بار واضح کیاکہ وہ مسلمانوں کے معاش اورروزگارکامسئلہ حل کرے گی۔ایک موقع پرانہوں نے کھل کریہ کہاکہ مجھے ایسے پاکستان میں کوئی دلچسپی نہیں جوجاگیرداروں وڈیروں اور سرمایہ داروں کے حقوق کامحافظ ہو۔قائداعظم نے اپنی زندگی میں پاکستان کیلئے اسلامی جمہوری پارلیمانی نظام پسندکیا،آئین کے بارے میں واضح طورپرکہاکہ اسلام کے جمہوری اصولوں کے مطابق مدون ہوگا۔نئی ریاست میں اقلیتوں کومکمل حقوق حاصل ہوں گے جواسلام نے انہیں عطاکئے ہیں اورفوج کاکردارمنتخب جمہوری حکومت کے ایک ماتحت ادارے کاہوگا۔
یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ قائدکی زندگی ہی میں فوج کے انگریزکمانڈرانچیف نے حکم عدولی کی اورقائداعظم کے احکامات کے تحت پاکستان کی شہ رگ کشمیرمیں فوجی دستے بھیجنے سے انکارکیاجبکہ بھارت کے فوجی کمانڈرانچیف نے جواہرلال نہروکے احکام کی مکمل اطاعت کی اورسرینگرائیرپورٹ پرقبضہ کرکے مجاہدین کے بڑھتے ہوئے قدم روک دیے۔قا ئد کی وفات کے صرف دس سال بعدجنرل ایوب خان نے جمہوری نظام کی بساط لپیٹ کرملک میں فوج کی حکمرانی کااصول متعارف کرایاجوبعدازاں کسی نہ کسی شکل میں مروج رہاجس کی وجہ سے یہ ملک اقبال اورقائداعظم کی تعلیمات کے مطابق نہ توجدیدجمہوری پارلیمانی ریاست بن سکااورنہ اسلامی فلاحی معاشرے کی تشکیل ممکن ہوسکی البتہ فوجی حکمرانی اورہمارے سیاسی لیڈروں کی غلط حکمت عملی کے نتیجے میں پاکستان کااکثریتی حصہ جداہوگیااورباقی ماندہ ملک میں لسانی،نسلی فرقہ واریت،صوبائی تعصبات اوراس خطے میں امریکی مداخلت نے ملک کوایسے خطرات سے دوچارکررکھاہے کہ ملک کی سلامتی کی ہروقت فکررہتی ہے۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوان نسل کوتاریخ کے حوالے سے بتایاجائے کہ کن مشکل حالات میں پاکستان کوحاصل کیاگیااس کا اندازہ ہمیں قائداعظم کے اس خط سے ہوتاہے جوانہوں نے25ستمبر1944کویعنی ملاقاتوں کے آخری دنوں میں گاندھی کولکھا۔قائداعظم لکھتے ہیںکہ ”آپ پہلے ہی قراردادلاہور کے بنیادی اصولوں کومستردکرچکے ہیں ، آپ یہ تسلیم نہیں کرتے کہ مسلمان ایک قوم ہیں،آپ یہ تسلیم نہیں کرتے کہ مسلمانوں کوحق ِخوداختیاری ہے اوروہی اسے استعمال کرسکتے ہیں،آپ یہ نہیں مانتے کہ پاکستان دو خطوں اورچھ صوبوں پرمشتمل ہے۔آپ سے خط وکتابت اوربحث کے بعدمیں یہ کہہ سکتاہوں کہ انڈیاکی پاکستان اورہندوستان میں تقسیم کی آواز صرف آپ کے لبوں پر ہے ،یہ آپ کے دل کی آوازنہیں”۔گاندھی کے اس رویے سے ناکامی اس بات چیت کامقدربن گئی۔
29ستمبر1944کوویول نے اپنی ڈائری میں لکھاکہ ”مجھے(اس گفت وشنیدسے)بہترنتیجے کی توقع تھی۔اس سے ایک لیڈرکے طورپر گاندھی کی شہرت کوشدیددھچکالگاہے۔جناح کاکام بہت آسان تھاانہیں گاندھی سے صرف یہ کہتے رہناتھاکہ تم بکواس کررہے ہواوریہ بات ٹھیک بھی تھی لیکن انہوں نے یہ بات گستاخانہ اندازمیں کی۔ میرے خیال میں اس سے اپنے پیروکاروں میں جناح کی عزت توشائد بڑھ گئی ہولیکن معقول آدمیوں کے درمیان ان کی شہرت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔”ویول اوردیگرانگریزحکمرانوں کی نظرمیں معقول آدمی وہ ہے جوان ہی کے دماغ سے سوچے اوراس پرعمل کرے۔ان کی معقولیت کی ڈکشنری میں آزادانہ فکروعمل کی کوئی گنجائش نہیں۔
مذاکرات کی ناکامی کے بعدقائداعظم نے4اکتوبر1944ء کوایک پریس کانفرنس میں اپنے نقطہ نظرکی وضاحت کی۔ایک اخباری نمائندہ نے ان سے پوچھاکہ کیامستقبل قریب میں گاندھی جی سے آپ کی ملاقات کاکوئی امکان ہے؟قائداعظم نے مزاحاًکہاکہ مسٹر گاندھی کہتے ہیں کہ اس کاانحصاران کے دل کی آوازپرہے چونکہ میری وہاں تک رسائی نہیں، اس لیے میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔حقیقت یہ ہے کہ گاندھی جی کی نیت معاملات کوطے کرنے کی تھی ہی نہیں۔قائداعظم سے گفت وشنیدکے دوران ہی انہوں نے راج گوپال اچاریہ سے کہاتھاکہ اس بات چیت سے میرااصل مقصدجناح کے منہ سے یہ کہلواناہے کہ پاکستان کاتصورہی غلط اورلغوہے۔معلوم ہوتاہے کہ گاندھی کوقائدکی صلاحیتوں کا صحیح اندازہ نہیں تھا اس لیے ان کی تمام تدابیرغیرموثررہیں۔
1945میں قائداعظم کونظرآرہاتھاکہ اب برطانوی حکومت کوہندوستان میں الیکشن کرانے ہی پڑیں گے چنانچہ انہوں نے اپنی مہم کاآغاز کرتے ہوئے16اگست1945کو بمبئی سے ایک بیان میں کہاکہ”مسٹر گاندھی جب مناسب سمجھیں وہ کسی کے بھی نمائندے نہیں ہوتے،وہ ذاتی حیثیت میں بات کرتے ہیں،وہ کانگریس کے چارآنے کے بھی رکن نہیں،وہ اپنے آپ کوصفرکرلیتے ہیں اوراپنی اندرونی آوازسے مشورہ کرتے ہیں تاہم جب ضرورت پڑے تووہ کانگریس کے سپریم آمربن جاتے ہیں اوراپنے آپ کوسارے ہندوستان کانمائندہ سمجھتے ہیں ۔ مسٹرگاندھی ایک معمہ ہیں۔ مسلمانوں اورمسلم لیگ کے خلاف کانگریس میں اتنازہراورتلخی ہے کہ انہیں نیچادکھانے کیلئے وہ ہر سطح سے نیچے گرسکتی ہے اورتمام اصولوں کوترک کرسکتی ہے”۔
10اکتوبر1945کوکوئٹہ مسلم لیگ کے زیراہتمام ایک جلسہ عام میں انہوں نے گاندھی کی سیاست کانقشہ کھینچتے ہوئے کہاکہ”لیڈری حاصل کرنا،پولیس لاٹھی چارج کے موقع پربکری کی طرح بیٹھ جاناپھرجیل چلے جاناپھروزن کم ہونے کی شکائت کرنااورپھراس طرح رہائی حاصل کرلینا،میں اس قسم کی جدوجہدپریقین نہیں رکھتالیکن جب آزمائش کاوقت آئے توسب سے پہلے میں اپنے سینے پرگولی کھاؤں گا”۔21نومبر1945کوپشاورمیں تقریرکرتے ہوئے کہاکہ کانگرس کوپاکستان کامطالبہ تسلیم کرناہوگایامسلمانوں کوکچلناہوگا لیکن اب کوئی طاقت10کروڑمسلمانوں کوکچل نہیں سکتی۔24نومبرکوانہوں نے اسی شہرمیں کہاکہ”جب تک میں زندہ ہوں مسلمانوں کے خون کاایک قطرہ بھی بے فائدہ نہیں بہنے دوں گا،میں مسلمانوں کوکبھی بھی ہندوں کاغلام نہیں بننے دوں گا۔انگریزاورہندو دونوں مسلمانوں کے دوست نہیں ہیں۔ہمارے ذہنوں میں یہ بالکل واضح ہے کہ ہمیں ان دونوں سے لڑناہے۔ ہم ان کی متحدہ طاقت سے لڑیں گے اورانشااللہ کامیاب ہوں گے”۔
3دسمبر1945کوگاندھی جی کی بنگال کے گورنر”کیسی”سے ملاقات ہوئی توگاندھی نے ان سے کہاکہ”جناح ایک جاہ پسندآدمی ہیں اوران کی سوچ یہ ہے کہ وہ ہندوستان،مشرقِ وسطیٰ اوردیگر ممالک کے مسلمانوں کے درمیان رابطہ قائم کریں،میں نہیں سمجھتاکہ جناح اپنے ان خوابوں سے باہرآسکتے ہیں”۔دراصل گاندھی کوالیکشن کے نتائج اوراس کے متوقع اثرات کااندازہ ہورہاتھااس لئے قیامِ پاکستان سے پہلے ہی انہیں اسلامی یکجہتی کی فکرپریشان کررہی تھی،واضح رہے کہ یہ وہی گاندھی ہیں جومسلمانوں میں بھی اپنی لیڈرشپ قائم کرنے کیلئے تحریکِ خلافت کی قیادت سنبھالے ہوئے تھے،اب وہ بنگال کے پاکستان مخالف گورنرکے ذہن کومزیدزہرآلودکرنے کیلئے اپنے ترکش کے سارے تیراستعمال کررہے تھے۔
23مارچ1946کوکیبنٹ مشن ہندوستان آیا۔3/اپریل1946کوگاندھی جی کی مشن سے گفتگوہوئی،انہوں نے صرف ایک دھوتی باندھی ہوئی تھی اوربہت صحت مند دکھائی دے رہے تھے۔گاندھی نے مشن سے کہاکہ”جناح کوملک کی پہلی(عبوری)حکومت بنانے دیں،وزاراملک کے منتخب نمائندوں میں سے ہوں،جناح جس کوچاہیں لیں لیکن وزارا کواپنی اپنی اسمبلی سے اعتمادکاووٹ لیناپڑے گا۔اگرجناح حکومت بنانے سے انکارکردیں توپھرکانگرس کویہی پیشکش کی جائے”۔آپ نے گاندھی جی کااندازدیکھاکہ وزیراعظم جناح صرف ان لوگوں کوچن سکیں گے جن پران کی اسمبلیاں اعتمادکااظہارکریں۔اپنی آبادی کی وجہ سے مسلم اقلیتی صوبوں کی اسمبلیوں میں ہندوں کی بڑی بھاری اکثریت تھی، ادھرعوام میں انتہائی مقبولیت کے باوجودمسلم اکثریتی صوبوں کی اسمبلیوں میں مسلمانوں کوآبادی کے لحاظ سے نشستیں نہ ملنے پرمسلم لیگ کوقطعی اکثریت حاصل نہ تھی اس لئے مجبوراً اسے تقریباسارے کے سارے کانگریسی ہندویاغیرلیگی مسلمان وزیر رکھنے پڑتے۔ایسی پیشکش کوقائداعظم کیوں قبول کرتے اوراس کے بعدحکومت خودبخودکانگرس کے پاس چلی جاتی۔یہ تھی گاندھی جی کی پیشکش قائداعظم کیلئے:
بروایں دام برمرغ دگرنہ کہ عنقارابلنداست آشیانہ
پیتھک لارنس نے گاندھی جی سے کہا کہ اس طرح توجناح کے زیادہ تروزاراغیرلیگی ہی ہوں گے،گاندھی جی نے کہاکہ اس سے تو گریزنہیں،ایسی بات کوکون آگے بڑھاتا۔لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے متحدہ ہندوستان کے آخری وائسرائے کے طورپر24مارچ کوحلف اٹھایااورفورا بعدسیاسی لیڈروں سے ملاقاتیں شروع کر دیں۔گاندھی جی نے31مارچ سے 14اپریل1947تک ہرروزلارڈماؤنٹ بیٹن سے ملاقات کی۔یکم اپریل کی ملاقات میں گاندھی جی نے تجویز کیاکہ مسٹر جناح کومتحدہ ہندوستان کاوزیراعظم بنادیا جائے اور جب تک وہ ہندوستانی عوام کے مفادمیں کام کرتے رہیں گے،کانگرس ان کے سا تھ پورے خلوص کے ساتھ تعاو ن کرے گی ۔ اس بات کا فیصلہ کہ وہ عوام کے مفاد میں کام کر رہے ہیں یانہیں،صرف اور صرف لارڈ مانٹ بیٹن ہی کریں گے،اگر جناح یہ تجویزنہ مانیں توپھرکانگریس کویہی پیشکش کی جائے۔ماونٹ بیٹن تسلیم کرتے ہیں کہ میں گاندھی کی یہ تجویز سن کرہکابکارہ گیا۔انہوں نے گاندھی جی سے پوچھاکہ اس تجویزکے بارے میں مسٹرجناح کاکیاتاثر ہوگا؟گاندھی جی نے جواب دیااگرآپ انہیں یہ کہیں گے کہ یہ تجویزگاندھی کی طرف سے آئی ہے توجناح کہیں گے ”مکارگاندھی”۔ماؤنٹ بیٹن نے مزے لے لے کرپوچھا”غالبایہ بات درست ہوگی”۔اس پرگاندھی جی نے بڑے جوش سے کہا”نہیں نہیں میں یہ تجویزپورے خلوص سے پیش کررہا ہوں”۔
قائداعظم سے بات کرنے سے پہلے ماؤنٹ بیٹن نے اسی دن یہ بات نہروکوبتائی تویہ سن کران کے مہاتما(گاندھی)ان کی جگہ قائداعظم کو وزیراعظم بنانے کی پیشکش کررہے ہیں، نہروکے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔نہرونے ماؤنٹ بیٹن سے کہاکہ گزشتہ برس گاندھی جی نے کیبنٹ مشن کے سامنے بھی ایسی ہی تجویزپیش کی تھی لیکن یہ مسئلے کاایک غیرحقیقی حل ہے۔گاندھی جی کودہلی میں چنددن اور رہناچاہئے کیونکہ چارمہینے تک مرکزسے دوررہنے کی وجہ سے وہ تیزی سے معاملات سے بے خبرہوتے جارہے ہیں۔نہروکی رائے سننے کے بعدماؤنٹ بیٹن نے قائداعظم سے بات کرنامناسب نہ سمجھااوراگرماؤنٹ بیٹن قائداعظم سے یہ بات کربھی لیتے کیاہوتا؟وہ اپنی ذات کیلئے قوم کوداؤپرلگانے والے ہرگزنہیں تھے ،اس قسم کی پیشکش کووہ بغیر کسی تامل کے ٹھکرادیتے۔ان چندواقعات سے ظاہرہوتاہے کہ گاندھی جی کی نیت اورطریقِ کارکوقائداعظم خوب سمجھتے تھے اوراللہ تعالی کے فضل وکرم سے ان کاہرلحاظ سے مناسب جواب دیا!رہے نام میرے رب کاجس نے پاکستان کوایک خاص مبارک رات کوایک بہت بڑے مقصدکیلئے بنایا!