فروغ اسلام کیلئے دعوت حق کا آغاز
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
اِسلام دین فطرت اور قراٰنِ مجید مکمل ضابطہ حیات ہے۔ یہ دین انسانی فلاح و بہبود کا ضامن دنیاوی زندگی میں امن و سکون اور اخروی زندگی میں راحت وآرام کا پیامبرہے۔ رسول اکرمۖ غار حراء سے نکل کر جب گھر میں داخل ہوئے تو آپ نے بستر پر آرام فرمایا۔ ابھی اسلام کے مستقل اور دین کے بارے میں سوچ ہی رہے تھے کہ سورہ مدثر نازل ہوئی اور رسول خدا کو اٹھ کھڑے ہونے اور ڈرانے پر مقرر کیا۔ چنانچہ اس طرح پیغمبر اکرم نے دعوت حق کا آغاز کیا۔
مشرکین کی سازش سے محفوظ رہنے کے لیے رسول اکرم ۖنے یہ فیصلہ کیا کہ عوام کی جانب توجہ دینے کی بجائے لوگوں کو فرداً فرداً دعوتِ حق کے لیے تیار کریں اور پوشیدہ طور پر باصلاحیت لوگوں سے ملاقات کرکے ان کے سامنے دین الٰہی پیش کریں۔ چنانچہ آپ کی جدوجہد سے چند لوگ آئین توحید کی جانب آگئے مگر ان کی ہمیشہ یہی کوشش رہی کہ اپنے دین کو مشرکین سے پوشیدہ رکھیں اور فرائض عبادت کو لوگوں کی نظروں سے دور رہ کر انجام دیں۔جب مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور تیس تک پہنچ گئی تو رسول خدا نے ارقم کے گھر کو جو کوہ صفا کے دامن میں واقع تھا تبلیغ اسلام اور پرستش خداوند تعالیٰ کا رکز قرار دیا۔ آپ اس گھر میں ایک ماہ تک تشریف فرما رہے۔ اب مسلمانوں کی تعداد چالیس تک پہنچی تھی۔دعوت کا دوسرا مرحلہ اس آیت مبارکہ کے نزول کے ساتھ شروع ہوا۔اپنے رشتہ داروں کو عذابِ الٰہی سے ڈرایئے۔ پیغمبر اکرمۖ نے عزیز و اقارب کو کھانے پر بلایا، تاکہ ان تک خداوند تعالیٰ کا پیغام پہنچا دیں۔ تقریباً چالیس یا پینتالیس آدمی آپ ۖکے دستر خوان پر جمع ہوئے، رسول خداۖ چاہتے تھے کہ لوگوں سے گفتگو کریں، مگر ابولہب نے غیر متعلقہ باتیں شروع کرکے اور آپ پر سحر و جادو گری کا الزام لگا کر محفل کو ایسا درہم برہم کیا کہ اس میں اصل مسئلے کو پیش نہ کیا جا سکا۔اگلے روز آپۖ نے دوبارہ لوگوں کو کھانے پر مدعو کیا۔ جب لوگ کھانے سے فارغ ہوگئے تو رسول خداۖ اپنی جگہ سے اٹھے اور تقریر کے دوران فرمایا:اے عبدالمطلب کے بیٹو! خدا کی قسم مجھے قوم عرب میں ایک بھی ایسا جوان نظر نہیں آتا کہ وہ اس سے بہتر چیز لے کر آیا ہو، جو میں اپنی قوم کے لیے لے کر آیا ہوں۔ میں تمہارے لیے دنیا اور آخرت کی خیر (بھلائی) لے کر آیا ہوں۔ خداوند تعالیٰ نے مجھے اس کام پر مقرر کیا ہے کہ میں تمہیں اس کی طرف دعوت دوں۔ تم میں سے کون ہے جو اس کام میں میری مدد کرے تاکہ وہ تمہارے درمیان میرا بھائی، وصی ور جانشین بن سکے۔
قلم کاروان اسلام آبادکی ادبی نشست میں واقعاتِ سیرة النبی ۖ کے حوالے سے پروفیسر ثاقب رضا نور الحق نے : "اسلام کی عالمگیر دعوت کا آغاز” کے عنوان سے خطاب میں اسلام کی حقانیت کی وضاحت میں دنیا میں موجود دیگر مذاہب کے ساتھ موازنے کی صورت میں اسلام کو پوری عالم ِ انسانیت اور عالم جنات کے مکلف دین ہونے کی شرط کو لاگو کیا۔ انہوں نے بتایا کہ دین ِ اسلام پوری کائنات کے لیے مستقل دین کے طور پر نازل کیا گیا، عیسائیت اور مجوسیت کے ساتھ ساتھ ہندو مت کا بھی ذکر کیا۔ یہ بھی ذکر کیا کہ اسلام سے قبل جتنے انبیاء کرام اس دنیا میں آئے وہ مخصوص علاقوں اور مخصوص قوموں کے لیے آئے یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نے بھی اپنی قوم کو کہا کہ مجھے صرف بنی اسرائیل کی طرف مبعوث کیا گیا اور میری دعوت صرف بنی اسرائیل کے لیے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے دیگر مذاہب اپنے ہاں دعوت و تبلیغ کے فریضہ کو وہ اہمیت نہیں دیتے جو اسلام دیتا ہے کیوں کہ اسلام پورے عالم کے جن و انس کے لیے رہبر و ہدایت اور رشد و رہنمائی کا ذریعہ ہے جیسا کہ خود قرآنِ مجید فرقانِ حمید کی سورة اعراف اور سورة جن میں اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا کہ ہم نے آپ ۖ کو پوری کائنات کے لیے رسول و پیغمبر اور نبی بنا کر بھیجا یہی وجہ ہے کہ جنات کی ایک جماعت نے جب قرآن مجید کی تلاوت اور اس کی دعوت کو سنا تو اپنی قوم کی طرف لوٹ کر ان کو بھی دین اسلام کی دعوت دی۔
اسلام کی دعوت قیامت تک کے انسانوں اور جنات کے لیے ہے کیوں کہ انہی دو انواع کو اللہ رب العزت نے شعور جیسی نعمت سے نوازا ہے اور یہی شعور ان کی نجات (قبول حق کے عوض )یا پھر سزا (انکار ِ حق کی صورت میں ) کا سبب بنے گا۔ اگر امت اس دعوت و تبلیغ کے مشن کو جاری رکھے گی بالکل اسی طرز پر جس طرز پر کوہِ صفا سے آغاز کر کے میدانِ منٰی میں آپ ۖ نے مکمل کیا تو امتِ مسلمہ اپنی نجات کا سامان کر لے گی اور اگر اس دعوت کو چھوڑ دیا اور انکار کیا تو پوری امت گناہ گار ہو گی۔ایک امریکن پروفیسر Dr. M.K Hermenson کے قبول اسلام کے واقعہ کو بھی نقل کرتے ہوئے یہ وضاحت کی کہ قرآن کریم کی دعوت آج بھی اپنی ذات میں ایک معجزہ ہے البتہ داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ دعوتِ اسلام کے لیے اپنا اندازِ تکلم ، جذبہ ، جوش اور تڑپ وہی رکھے جو آقائے دوجہاں، رحمتِ دوعالم اور ان کے اصحاب رضوان اللہ علیھم اجمعین کے ہاں رہے۔ الغرض اسلام کی دعوت کا اصول خیر خواہی اور اخلاص پر مشتمل ہو۔
اسلام کی عالمی دعوت کا باقاعدہ آغاز صلح حدیبیہ سے ہوا جس کے بعد رسولِ اکرم ۖ نے مختلف ریاستوں کے والیان کے نام خطوط اور سفیر روانہ کیے جہنوں نے باقاعدہ اسلام کی دعوت دی جن لوگوں نے دعوت قبول کر لی ان کو اسلام میں داخل کیا گیا اور جنہوں نے مخالفت کی اور جنگ پر اتر آئے ان کا مردانہ وار مقابلہ کیا گیا اور اسلام کی دعوت کو پوری دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلا دیا۔ قرآن مجید اور سیرة النبیۖکے فہم کے لیے اس پس منظر کی اشد ضرورت ہے جس پس منظر میں قرآن مجید کا نزول ہوا اور جس ضمن میں احادیثِ رسول ۖ کا ذخیرہ اشارات دیتا ہے۔ آپ ۖ نے معاشرتی ، سیاسی ، سماجی، معاشی ، علمی، فکری و فنی ، نفسیاتی ، اور حکومتی الغرض پورے شعور کے ساتھ صحیح وقت پر اپنی دعوت کے تمام پہلوؤں کو برتا اور کامیابی سمیٹی اور اپنی تمام تر جدو جہد کو خدا کی دھرتی پر خدائی نظام کے نافذ کرنے میں صَرف کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کائنات کی وسعتوں میں اسلام اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ وجود پا گیا۔ آج بھی اگر بحیثیتِ قوم اپنی تمام تر صلاحیتیں اسی نظام کے نفاذ کے لیے لگا دیں جس کا حکم رب العالمین نے دیا ہے تو بعید نہیں آج 76 سالوں کے بعد بھی وہ نعرہ یقینی ثابت ہو سکتا ہے جس کے لیے یہ ملک وجود میں آیا تھا اور اس کے ضمن میں پوری دھرتی پر رب العالمین کے نظام کو نافذ کیا جا سکتا ہے شرط یہ ہے کہ قیادت صالح ، مخلص اور ایمان دار لوگوں کے ہاتھ میں دی جائے۔ اسلام ایک عالمگیر دین ہے اور یہ دین تب ہی غالب آئے گا جب اس دین کی دعوت کو انہی اصولوں پر لاگو کیا جائے جس پر آج سے قریباً ساڑھے چودہ سو سال دعوت دی گئی تھی۔
٭٭٭