ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی اور فارما مافیا میں ناجائز منافع خوری کی تال میل
شیئر کریں
(جرأت انوسٹی گیشن سیل)فارما سیو ٹیکل مافیا کی جانب سے ادویہ سازی کے عمل میں خام مال کی خریداری سے فنش پراڈکٹ کی تیاری تک ہر مرحلے میں ہونے والے مالیاتی گھپلوں، غیر اخلاقی اورمجرمانہ حد تک بے پرواہی اور ایک ایک دوا پر عوام سے کئی ہزار گنا ناجائز منافع کمانے کا انکشاف ان صفحات پر کیا گیا تھا۔
پاکستان کے ادویہ ساز اداروں نے محکمہ صحت، وفاقی اور صوبائی ڈرگ انسپکٹرز، ڈرگ ٹیسٹنگ لیباریٹریز اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی میں اپنے پروردہ افسران کا ایسا غیر مرئی جال بچھا رکھا ہے کہ کسی بھی وفاقی یا صوبائی وزیر صحت، سیکریٹری یا افسران کے لیے دو ہی راستے بچتے ہیں، اول، وہ اس منظم ڈرگ مافیا کا مراعات یافتہ رکن بن جائے یا پھر اپنا تبادلہ کسی ایسے ادارے میں کروالیں جہاں مافیا کی طرز پر چلنے والی اس فارما سیوٹیکل مافیا کے مفادات وابستہ نہ ہوں۔
پاکستان کے عوام سے اربوں روپے سالانہ کا ناجائز منافع کمانے والی کمپنیوں میں ہلٹن فارما، OBSفارما، ہائی مونٹ، انڈس فارما اور متعدد قومی کمپنیاں شامل ہیں جن کی ادویا ت کی قیمتیں کثیر القومی کمپنیوں سے بھی زیادہ ہیں
فارما سیوٹیکل مافیاکے انسانی جانوں سے کھیلنے اور انہیں لوٹنے کے اس مکروہ دھندے کا سلسلہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام سے پہلے سے جاری ہے، لیکن ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی میں بدعنوان افسران کی تعیناتی نے اس مافیا کے منی لانڈرنگ، ناجائز منافع خوری، ادویات کی مصنوعی قلت اور بلیک مارکیٹنگ جیسے غلیظ اور مذموم جرائم میں نئی روح پھونک دی ہے۔ ذو الفقار علی بھٹو کے دور سے فارما سیوٹیکل مافیا کے جرائم کو روکنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں (اس حوالے سے تفصیلی رپورٹ انہی صفحات پر شائع ہوچکی ہے)۔ کسی ڈرگ کارٹیل کی طرز پر چلنے والی اس مافیا نے ہر اس فرد اور ادارے کو اپنی راہ سے ہٹا دیا جو ان کے مذموم مقاصد کی تکمیل میں حائل ہوا۔ لیکن ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام سے پہلے ناجائز منافع خوری کا سلسلہ صرف کثیر القومی کمپنیوں کی حد تک محدود تھا۔ قومی اور کثیر القومی کمپنیوں کی ایک ہی فارمولے پر تیار ہونے والی ادویات کی قیمتوں میں ایک واضح فرق دکھائی دیتا تھا۔ لیکن ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی سرپرستی میں یہ معاملہ اس کے برعکس ہوچکا ہے، اب قومی ادویہ ساز اداروں کی قیمتیں کثیر القومی فارما سیوٹیکل کمپنیوں سے زیادہ ہے۔ پاکستان کے عوام سے اربوں روپے سالانہ کا ناجائز منافع کمانے والی کمپنیوں میں ہلٹن فارما، OBSفارما، ہائی مونٹ، انڈس فارما اور متعدد قومی کمپنیاں شامل ہیں جن کی ادویا ت کی قیمتیں کثیر القومی کمپنیوں سے بھی زیادہ ہیں۔
ادویہ سازی کے عمل میں خام مال کی خریداری سے فنش پراڈکٹ کی تیاری تک ہر مرحلے میں مالیاتی گھپلے، غیر اخلاقی اورمجرمانہ غفلت کے رویے فارما مافیا کی جانب سے سامنے آتے ہیں
ایک دہائی قبل سندھ کے ایک سینئر وزیر کی جانب سے وفاقی وزیر صحت اور اس وقت کے گورنر اور وزیر اعلیٰ سندھ کو سرکاری لیٹر ہیڈ پر Brand – name Medicines and indiscriminate determination of Prices: Acute hardship to millions of patients کے نام سے ایک رپورٹ بھیجی گئی تھی، جس میں قومی اور کثیر القومی کمپنیوں کی جانب سے خام ما ل کی آڑ میں کی جانے والی منی لانڈرنگ اور ادویات کی قیمتوں میں اضافے کو بمعہ درآمدی انوائسز شامل کیا گیا تھا۔ فارما سیوٹیکل مافیا کے ان کالے دھندوں کی روک تھام کے لیے اس رپورٹ کی ایک ایک کاپی وزیر صحت اور سیکریٹری صحت پنجاب، این ڈبلیو ایف پی(موجودہ خیبر پختون خوا)، اور بلوچستان، وفاقی سیکریٹری صحت، ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ،اسلام آباد کو بھی ارسال کی گئی تھی، لیکن اس رپورٹ پر کارروائی کرنے کے بجائے مذکورہ سینئر وزیر کے گرد گھیرا تنگ کردیا گیا۔ 6اگست 2007ء کو وزیر اعلیٰ ہاؤس کراچی میں ہونے والی ایک تقریب میں اس وقت کے ایک وفاقی وزیر جہانگیر ترین کی پریزینٹیشن کے دوران مذکورہ سینئر وزیر نے ادویا ت کی بہت زیادہ قیمتوں کا مسئلہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں برانڈڈادویات کی قیمتیں اس قدر زیادہ ہیں کہ اچھی آمدن رکھنے والے مریض بھی انہیں خریدنے کی سکت نہیں رکھتے۔ جس پر اس تقریب میں موجود صدر پاکستان نے مذکورہ وزیر کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے اس معاملے کی چھان بین کرنے اور جلد ہی وزارت صحت اور وفاقی اور صوبائی محکمہ صحت کے ساتھ ایک میٹنگ طے کرنے کا بھی وعدہ کیا۔ مذکورہ وزیر کے توجہ دلانے پر اس وقت کے سیکریٹری صحت نے بھی نوٹس لیا اور 22 اگست2007ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے عبوری احکامات جاری کیے جس کا متن کچھ اس طرح تھا:
’ڈرگ کنٹرولر اور سیکریٹری صحت نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ قو می اور کثیر القومی کمپنیوں کی جانب سے تیار ہونے والی ایک جیسی ادویات کی قیمتوں میں بہت واضح فرق ہے۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ کچھ سروے ٹیمیں بھی تشکیل دی گئیں ہیں جس میں شامل افسران کو کہاگیا ہے کہ اپنے تعیناتی والے علاقوں میں ایک چارٹ بنائیں جس میں قومی اور کثیر القومی ادویہ ساز اداروں کی جانب سے تیار کی جانے والی ادویات کی قیمتیں، اور انہیں تجویز کرنے والے ڈاکٹروں کے ان رجحانات کو ظاہر کریں کہ آخر وہ کیا وجوہات ہیں جن کہ بنا پر وہ مارکیٹ میں کم قیمت پر دست یاب ادویات کو لکھنے کے بجائے کثیر القومی کمپنیوں کی ادویات لکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔‘
سپریم کورٹ نے اس کیس کی سماعت کے لیے یکم اکتوبر، 2007ء کی تاریخ بھی متعین کردی۔ مذکورہ سینئر وزیر کے مطابق مجھے یقین تھا کہ وفاقی وزارت صحت بھی ’ایک ہی فارمولے پر بننے والی ادویات کی قیمتوں میں واضح فرق سے بخوبی آگا ہ تھی۔ محکمہ صحت نہ صرف ایک ہی جینرک پر بننے والی قومی اور کثیر القومی کمپنیوں میں قیمتوں میں فرق سے آگاہ تھا بلکہ مقامی طور پر ایک ہی موثر جُز اور فارمولے سے بننے والی مقامی ادویہ ساز اداروں کی قیمتوں میں بھی واضح فرق سے اچھی طرح واقف تھا۔ تعجب خیز بات تو یہ ہے کہ قیمتوں کا فرق صرف ان کمپنیوں کی زیر سہولت تیار ہونے والی ادویات تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ مختلف قومی اور کثیر القومی درآمد کنندگان کی جانب سے درآمد کیے گئے ایک ہی مالیکیول کو پاکستان میں مختلف قیمتوں پر فروخت کیا جا رہا تھا۔ واضح رہے کہ یہ سلسلہ آج بھی اسی شد و مد کے ساتھ جاری ہے۔ سائٹ ایریا کراچی میں سعید اللہ والا کی کمپنی Atcoلیباریٹریز پرائیوٹ لمیٹڈ Paclitaxel سے بننے والے انجکشن کو بھارتی ریاست ہریانہ کی کمپنی Fresenius Kabi سے درآمد کروارہی ہے۔ Intaxelکے برانڈ نام سے 300ملی گرام کے ایک انجکشن کو 20ہزار 325 روپے،260ملی گرام کے ایک انجکشن کو 17ہزار300 روپے،150 ملی گرام کے 11ہزار 900روپے،100ملی گرام کے ایک انجکشن کو9ہزار اور 30ملی گرام کے ایک انجکشن کو 6 ہزار روپے میں فروخت کر رہی ہے۔
ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی خصوصی مہربانی سے چلنے والی راولپنڈی کے پشاور روڈ پر واقعکمپنی Medinetفارما کینسر، ہیپا ٹائی ٹس اور دیگر جان لیوا بیماریوں کے ان درآمدہ انجکشنزکو منہ مانگی قیمتوں پر فروخت کر رہی ہے۔ یہ کمپنیPaclitaxelکے برانڈ نام سے 30ملی گرام کے ایک انجکشن کو 5 ہزار 160روپے میں فروخت کر رہی ہے۔ سندھی مسلم کو آپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی، کراچی کے پلاٹ نمبر143پر قائم ایک غیر معروف کمپنی الحبیب فارماسیوٹیکل بھی ناجائز منافع خوری کی اس بہتی گنگا سے خوب اچھی طرح مستفید ہورہی ہے۔ یہ کمپنی Paclitaxel Ahp نام کے انجکشن درآمد کروا کر 300ملی گرام کے ایک انجکشن کو20ہزار325روپے میں فروخت کر رہی ہے۔ جب کہ یہی کمپنی اسی فارمولے پر بننے والے ایک اور انجکشن کو Unitaxelکے برانڈ نام کے ساتھ کئی کثیر القومی اور قومی کمپنیوں سے کئی گنا زائد قیمت پر فروخت کر رہی ہے۔ Unitaxelکے30 ملی گرام کے ایک انجکشن کو5ہزار936روپے، 150ملی گرام کے ایک انجکشن کو12 ہزار200 روپے میں فروخت کیا جا رہا ہے۔ان کمپنیوں کی جانب سے درآمد کروائے گئے PACLITAXEL اور INTEXIL انجکشنز کا درآمدی ریکارڈ اور جان بچانے والے انجکشن پر پاکستان کے غریب مریضوں سے کمائے گئے اربوں روپے کی ناجائز منافع خوری کو آئندہ شامل اشاعت کیا جائے گا۔)جاری ہے)