پیپلزپارٹی کا وفاقی حکومت سے نکلنے کا فیصلہ
شیئر کریں
زرداری کی ن لیگ کے بغیر
وفاقی حکومت بنانے کی جوڑ توڑ
کراچی (رپورٹ: باسط علی)پیپلزپارٹی نے وفاقی حکومت سے نکلنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ انتخابات کے جادوگر آصف علی زرداری نے نون لیگ کو مشکلات سے دوچار کرنے اور مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کی سخت ترین حکمت عملی پر عمل درآمد شروع کردیا۔انتہائی باخبر ذرائع کے مطابق وزیراعظم شہبازشریف کی نون لیگ سمیت پی ڈی ایم کی باقی جماعتیں عام انتخابات کے لیے اکتوبر کے بجائے 10نومبر کی تاریخ پر صلاح مشورے کر رہی ہیں مگر آصف علی زرداری مستقبل میں اپنی حکومت کے لیے الیکٹ ایبلز کی لوٹ سیل کے سرگرم خریدار ہو کر یہ چاہ رہے ہیں کہ انتخابات نومبر کے بجائے اکتوبر میں ہی ہو جائیں۔ زرداری اپنی ہی اتحادی حکومت کو ایک ماہ کا عرصہ بھی کیوں نہیں دینا چاہ رہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کے پیچھے پنجاب سمیت اگلے انتخابات میں پیپلزپارٹی کی حکومت بنانے کی خواہش سمیت، وزیراعظم اور صدر مملکت تک کے عہدے کو ہتھیانے کی حکمت عملی، خرید وفروخت اور منصوبہ بندی شامل ہے۔ مذکورہ منصوبہ بندی کے تحت آصف علی زرداری نے جولائی میں اتحادی حکومت سے نکلنے کا فیصلہ کر لیا ہے ، جس کے باعث پی ڈی ایم حکومت اگست میں نگراں حکومت لانے پرمجبور ہو جائے گی اور انتخابات پی ڈی ایم جماعتوں کی خواہش کے مطابق نومبر کے بجائے اکتوبر میں ہی اپنے وقت پر ممکن ہو جائیں گے۔ تفصیلات کے مطابق آصف علی زرداری نے اگلی وفاقی حکومت میں اپنے صاحبزادے اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو کو وزیر اعظم بنانے کے لیے وسیع پیمانے پر جوڑتوڑ اور خرید وفروخت کاعمل شروع کردیا ہے، جس سے نون لیگ سخت ناراض ہے یہاں تک کہ نوازشریف نے اپنے خاص حلقے اور بااعتماد ساتھیوں کو اب یہ اشارہ بھی کردیا ہے کہ وہ پیپلزپارٹی کے پنجاب سمیت وفاقی حکومت کو ہتھیانے والے کھیل کے خلاف اپنی حکمت عملی پر کام شروع کردیں۔ واضح رہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون میں تنازع اس وقت پیدا ہوا جب پی ٹی آئی کو چھوڑنے والے ارکان اسمبلی کو لوٹ کا مال سمجھتے ہوئے آصف علی زرداری نے خرید وفروخت کی ایک منڈی پنجاب میںسجا لی۔ اطلاعات کے مطابق تمام ’’متعلقہ حلقوں‘‘ میں یہ طے ہوا تھا کہ جہانگیر ترین کے گروپ کو کوئی جماعت نہیں چھیڑے گی۔ اس گروپ کے ارکان کا فیصلہ بعد ازانتخابات کیا جانا تھا۔ مگر آصف علی زرداری نے پنجاب میں بیٹھ کر 9؍مئی کے جبر پر مجبور کیے جانے والے پی ٹی آئی رہنماؤں کے لیے ’’بہاروں پھول برساؤ میرا محبوب آیا ہے‘‘ گنگنانا شروع کردیا۔ زرداری کی جانب سے پرکشش پیشکشوں کا اثر ساؤتھ پنجاب کے کچھ رہنماؤں پر پڑنا شروع ہوا تو نون لیگ کو فوراً جاگنا پڑا۔ یہی وہ مرحلہ تھا جب جہانگیر ترین کا حصہ بننے والے ارکان کے لیے ایمرجنسی میں ایک جماعت بنانے کا فیصلہ ہوا۔ ابتدا میں اسے کسی جماعت کی شکل دینے کے بجائے ایک گروپ کے طور پر ہی رکھنے کا فیصلہ ہوا تھا۔ مگر آصف علی زرداری کی للچائی نظروں نے نون لیگ کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے طاقت ور کھلاڑیوں کو بھی مجبور کردیا کہ وہ اِسے ایک جماعت کی شکل دے دیں ۔ باخبر حلقے آگاہ ہیں کہ استحکام پاکستان پارٹی میں استحکام کا معاملہ دراصل خود اس گروپ کو زرداری کے چیلنج سے بچانے کے لیے درپیش تھا۔ اس دوران میں آصف علی زرداری نے مزید حد پار کرتے ہوئے فیصل آباد اور سینٹرل پنجاب میں مزید آٹھ سے نو ارکان اسمبلی کو رابطے میں لیا جن کا تعلق نون لیگ سے تھا۔ یہ وہ ارکان تھے جو 9؍مئی سے قبل نون لیگ کی دگرگوں صورتِ حال کو بھانپتے ہوئے آزاد الیکشن لڑنے پر غور کررہے تھے۔ آصف علی زرداری نے اُنہیں سب سے پہلے تو پیپلزپارٹی میں آنے کی پیشکش کی اُن کی جانب سے اس معاملے میں تردد دیکھتے ہوئے پھر اُنہیں سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر آمادہ کرنا چاہا۔یہی وہ کھیل تھا جس میں آصف علی زرداری نے یہ بیان ان ارکان کو رجھانے کے لیے داغا تھا کہ انتخابات حکومت نہیں میں چاہوں گا تب ہوں گے۔ اس پر نون لیگ ، پیپلزپارٹی اور آصف علی زرداری سے مکمل ناراض ہوگئی۔ انتہائی ذمہ دار ذرائع کے مطابق پیپلزپارٹی اور نون لیگ نے اپنے اپنے طور پر اپنی اپنی حکومتوں کے قیام کے اعداد وشمار مرتب کرنا شروع کردیے ہیں۔ آصف علی زرداری نے طاقت ور حلقوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ مرکز میں حکومت بنانے کے قابل ہو گئے ہیں اور ان کے پاس 140 کے قریب نشستیں موجود ہیں۔ پیپلزپارٹی کے جوڑ توڑ کے حسابی عمل کے مطابق وہ اس قابل ہے کہ کراچی سے آٹھ قومی اسمبلی کی نشستیں بٹور لے گی۔ جبکہ پنجاب سے بیس سے بائیس نشستیں حاصل کر لیں گی۔وہ سندھ سے اپنے دیگر پینتالیس ارکان قومی اسمبلی کو بھی برقرار رکھنے کی دعوے دار ہے۔ اس کے علاوہ بلوچستان کی بی اے پی (باپ)بھی پیپلزپارٹی کے پاس پناہ گیر ہوگی۔ زرداری اس اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ استحکام پاکستان پارٹی کی (جس کے متعلق دعویٰ کیا جارہا ہے کہ وہ دس سے بارہ نشستیں حاصل کر سکے گی) حمایت بھی بآلاخر حاصل کر لے گی۔ یہی نہیں آصف علی زرداری مضحکہ خیز طور پر یہ دعویٰ بھی کر رہے ہیں کہ پی ٹی آئی( جسے چند نشستوں پر محدود کیا جائے گا) کی بچی کھچی نشستیں بھی اُن کی جھولی میں آ گریںگی۔ دوسری طرف نون لیگ کے قائد نوازشریف کسی بھی وقت جہانگیر ترین سے ملاقات کرنے والے ہیں۔ یوں استحکام پاکستان پارٹی واضح طور پر نون -لیگ کی جانب اپنا جھکاؤ ظاہر کر رہی ہے۔ نون لیگ اپنی حکمت عملی کے مطابق پیپلزپارٹی اور اے این پی کے بغیر مرکز میں حکومت بنانے کی تیاری کررہی ہے۔ اگرچہ پیپلزپارٹی یہ دعویٰ کررہی ہے کہ وہ مرکز کے علاوہ پنجاب میں حکومت بنانے کے قابل ہے۔ مگر محسن نقوی کی نگراں حکومت ان دنوں لاہور میں جہاں کہیںپیپلزپارٹی اپنا بینر لگاتی ہے، وہ اُسے فوراً اتروا دیتی ہے۔ واضح رہے کہ یہ وہی محسن نقوی ہیں جسے زرداری صاحب اپنا بچہ یا بغل بچہ قرار دیتی تھی۔