اسٹیل مل بندپڑی ہے توملازمین کوترقی کس بات کی دی جائے،سپریم کورٹ
شیئر کریں
سپریم کورٹ نے اسٹیل مل کے ملازمین کی اگلے گریڈ میں ترقی کی درخواست مسترد کردی ہے۔جمعہ کوسپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں پاکستان اسٹیل مل کے ملازمین کی اگلے گریڈ میں ترقی سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی۔عدالت نے انجینئرسمیع میمن و دیگر کی ترقیوں سے متعلق درخواستیں مسترد کردی۔دوران سماعت چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ آپ کو کیوں ترقی دی جائے؟ آپ لوگ تو کام ہی نہیں کررہے ہیں۔جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ پاکستان اسٹیل مل 2015 سے بند پڑی ہے اس لئے ملازمین کو کس بات پر ترقی دی جائے۔یہاں کے ملازمین کوبیٹھے بیٹھے تنخواہیں مل رہی تھیں اور اسٹیل مل چلانے کے لیے پیسے تک نہیں ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ لگتا ہے کہ یہ ملازمین نوکریاں بھی کہیں اور کرتے ہوں گے۔درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ ہم تکلیف میں ہیں ہمیں ترقی دی جائے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو کس بات کی تکلیف ہے، 2015 سے بیٹھے بیٹھے تنخواہ لے رہے۔ جب اسٹیل مل کی پیداوار ہی بند تو آپ کو کس بات کا پروموشن دیں۔ ملازمین نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ اسٹیل مل کا آپریشنل بند ہے مگر سروس فراہم کر رہے تھے۔ اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اسٹیل مل بند ہوگئی تب آپ لوگ کون سی سروس دے رہے تھے۔ملازمین نے موقف اختیار کیا کہ سال 2011 سے ترقی درکار ہے اور ہائی کورٹ نے بھی ترقی کے لیے درخواست مسترد کردی ہے۔چیف جسٹس نے واضح کیا کہ سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے میں کوئی خامی نہیں ہے۔درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ اسٹل مل کی پیداوار بند ہے مگر باقی تمام سیکشن چل رہے ہیں۔ دو ہزار گیارہ سے ہمارے پروموشن نہیں ہوئے کورٹ میں کیس کے باوجود اسٹیل مل نے ہمیں ملازمت سے ہی نکال دیا ہے۔