الطاف حسین نے عمران فاروق کو قتل کرایا، عدالتی فیصلہ آگیا
شیئر کریں
اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے متحدہ قومی مومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی رکن عمران فاروق کے قتل کیس میں خالد شمیم، معظم علی اور محسن علی سید کو عمر قید کی سزا سنا د ی جبکہ بانی متحدہ الطاف حسین سمیت افتخار حسین، اشتہاری ملزمان محمد انور اور کاشف کامران کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کردیے گئے۔ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کی سماعت انسداد دہشت گردی عدالت کے جج شاہ رخ ارجمند نے کی اور فریقین کے وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد 21 مئی کو محفوظ کیا گیا تھا جو جمعرا ت کو فیصلہ سنادیا۔عدالت نے ملزمان کو قتل کی سازش، معاونت اور سہولت کاری کیس پر عمر قید کی سزا دینے کے ساتھ ہی عمران فاروق کے ورثا کو 10، 10 لاکھ روپے (مجموعی طور پر 30 لاکھ روپے) کی ادائیگی کا بھی حکم دیا۔ بانی متحدہ الطاف حسین سمیت افتخار حسین، اشتہاری ملزمان محمد انور اور کاشف کامران کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کردیے گئے۔یاد رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010 کو لندن کے علاقے ایج ویئر کی گرین لین میں ان کے گھر کے باہر قتل کیا گیا تھا۔عمران فاروق قتل کیس میں 3 ملزمان خالد شمیم، محسن علی اور معظم علی گرفتار ہیں جبکہ 4 ملزمان بانی ایم کیو ایم لندن الطاف حسین، محمد انور، افتخار حسین اور کاشف کامران کو اشتہاری قرار دیا گیا تھا، کاشف کامران کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا انتقال ہوچکا ہے۔مقدمے میں نامزد تمام ملزمان پر قتل سمیت قتل کی سازش کرنے، معاونت اور سہولت کاری کے الزامات ہیں جس کا مقدمہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے 5 دسمبر 2015 کو درج کیا تھا۔2 ملزمان نے 7 جنوری 2016 کو مجسٹریٹ کے روبرو اعترافی بیان ریکارڈ کرایا تھا اور گرفتار ملزمان پر 2 مئی 2018 کو فرد جرم عائد کی گئی تھی۔کیس کی سماعت کے دوران استغاثہ کے 29 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے گئے اور برطانیہ نے شواہد فراہم کیے جبکہ برطانوی گواہوں کے بیانات بھی ریکارڈ کیے گئے تھے۔برطانیہ میں کیس کے چیف انویسٹی گیٹر نے بھی عدالت میں بیان دیا تھا جبکہ مقتول کی اہلیہ سمیت دیگر برطانوی گواہوں نے وڈیو لنک پر بیانات ریکارڈ کروائے تھے۔پاکستان میں مقدمہ چلانے کی صورت میں برطانوی حکومت کو سزائے موت پر اعتراض تھا جس پر پاکستان نے برطانوی حکومت کو یقین دلایا تھا کہ جرم ثابت ہونے کی صورت میں ملزمان کو سزائے موت نہیں دی جائے گی۔چنانچہ حکومت برطانیہ نے پاکستانی حکومت کی اسی یقین دہانی پر شواہد فراہم کیے اور کیس میں تعاون کیا تھا۔کیس میں ملزمان کی ٹریول ہسٹری، موبائل فون ڈیٹا، فنگر پرنٹس رپورٹ، مقتول کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ اور پوسٹ مارٹم رپورٹ بطور شواہد ریکارڈ کا حصہ بنایا گیا۔یہاں یہ بات مدِ نظر رہے کہ قتل کی واردات لندن میں ہوئی تھی لیکن چونکہ ملزمان کا تعلق پاکستان سے تھا اس لیے مقدمہ پاکستان کی عدالت میں چلایا گیا۔