اپنوں نے ایسا کیس بنایا جیسے میں ماسٹر مائنڈ مجرم ہوں،اہلیہ جسٹس فائز عیسیٰ
شیئر کریں
سپریم کورٹ آف پاکستان میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے عدالتی اجازت کے بعد ویڈیو لنک کے ذریعے اپنا بیان ریکارڈ کرادیا ہے جس پر عدالت عظمیٰ نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ ہمارے پاس مقدمہ میرٹ پر سننے کا حق نہیں ہے اس معاملے پر فیصلہ متعلقہ اتھارٹی نے کرنا ہے جبکہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے ججز نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ججز دوسرے پبلک آفس ہولڈرز سے زیادہ جوابدہ ہیں،عدالت اپنے اختیارات پر سمجھوتہ نہیں کرے گی، جج کیخلاف مس کنڈکٹ کی کارروائی کیلئے ٹھوس شواہد ہونے چاہئیں،سوال یہ ہے کہ کیسے پتہ چلا کہ لندن میں جائیدادیں ہیں، آؤ جائیدادیں ڈھونڈیں،آؤ جائیدادیں ڈھونڈیں کا اختیار کدھر سے حاصل کیا گیا؟ حکومت کو جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کا درست نام کیسے پتہ چلا؟ملک میں احتساب کے نام پر تباہی ہورہی ہے، اس پر بھی لکھیں گے، میں اپنی تفصیلات آرام سے نہیں لے سکتا تو ایک جج کی تفصیلات وحید ڈوگر کے پاس کیسے آئی،اثاثہ جات وصولی یونٹ وفاقی حکومت کیسے ہوگئی، اے آر یو نے ایف بی آر سے ٹیکس سے متعلق سوال کیسے کیا، یونٹ کسی شہری کو قانون کے بغیر کیسے چھو سکتا ہے؟قانون سے باہر کام میں حکومت کی بدنیتی نظر آئے گی۔ جمعرات کو عدالت عظمیٰ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کو چیلنج کرنے کیلئے دائر کی گئی درخواست پر سماعت کی، جہاں طویل سماعت کی ابتدا میں ہی عدالت نے جسٹس عیسیٰ کی گزشتہ روز کی پیشکش کو قبول کرلیا۔دور ان سماعت حکومت کی جانب سے خاص طور پر اس کیس میں نمائندگی کیلئے وزارت سے مستعفی ہونے والے سابق وزیر قانون فروغ نسیم پیش ہوئے جبکہ جسٹس عیسیٰ کی نمائندگی ان کی قانون ٹیم کے سینئر وکیل منیر اے ملک نے کی۔سماعت کے آغاز میں ہی جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ ہم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کے گھر پر ویڈیو لنک کے انتظامات کروا رہے، دوپہر کو ان کا بیان لیں گے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہماری درخواست ہے کہ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ مختصر بات کریں، ان کی اہلیہ ہمارے لیے قابل احترام ہیں۔انہوں نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ بیان دیتے وقت مناسب الفاظ کا استعمال کریں، اہلیہ عدالتی ڈیکورم کا خیال رکھیں۔سربراہ بینچ نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ ہمارے سامنے فریق نہیں ہیں۔خیال رہے کہ گزشتہ روز سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدالت میں کہا تھا کہ وہ اپنی اہلیہ کا اہم پیغام لائے ہیں کہ ان کی اہلیہ جائیدادوں کے ذرائع بتانا چاہتی ہیں، اہلیہ کے والد کو کینسر کا عارضہ لاحق ہے وہ ویڈیو لنک کے ذریعے جائیداد سے متعلق بتانا چاہتی ہیں، عدالت اہلیہ کو ویڈیو لنک پر مؤقف دینے کا موقع دے۔جمعرات کو دور ان سماعت حکومتی وکیل نے اپنے دلائل دئیے اور کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل فوجداری اور دیوانی حقوق کا فیصلہ نہیں کرتی، جوڈیشل کونسل فیکٹ فائنڈنگ فورم ہے جو اپنی سفارشات دیتی ہے، بدنیتی پر فائنڈنگ دینے پر کونسل کے سامنے کوئی چیز معنیٰ نہیں۔فروغ نسیم نے کہا کہ جوڈیشل کونسل بدنیتی کے ساتھ نیک نیتی کا بھی جائزہ لے سکتی ہے، جوڈیشل کونسل کے سامنے تمام فریقین ایک جیسے ہوتے ہیں، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال بولے کہ عدلیہ پر چیک موجود ہے، کسی جگہ بدنیتی ہو تو عدالت جائزہ لینے کے لیے بااختیار ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ عدالت اپنے اختیارات پر سمجھوتہ نہیں کرے گی۔اسی دوران عدالتی بینچ کے رکن جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کیا عدالت اور کونسل کے بدنیتی کے تعین کے نتائج ایک جیسے ہوں گے، جس پر فروغ نسیم نے یہ جواب دیا کہ کونسل بدنیتی پر آبزرویشن دے سکتی ہے، عدالت کو بدنیتی پر فائنڈنگ دینے کا اختیار ہے جس پر جسٹس مقبول باقر نے یہ سوال کیا کہ کیا کونسل صدر مملکت کے کنڈکٹ کا جائزہ لے سکتی ہے، اس پر حکومتی وکیل نے جواب دیا کہ کونسل کسی کے کنڈکٹ کا بھی جائزہ لے سکتی ہے، کونسل کے پاس ہر اتھارٹی ہے۔فروغ نسیم کی بات پر جسٹس سجاد علی شاہ نے یہ پوچھا کہ کیا عدالت عظمیٰ کے بدنیتی کے معاملے کا جائزہ لینے میں کوئی رکاوٹ ہے، جس پر انہیں جواب دیا گیا کہ عدالت عظمیٰ کے راستے میں بدنیتی کا جائزہ لینے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔دوران سماعت فروغ نسیم نے شوکاز نوٹس کے معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ شوکاز نوٹس میں 3 نکتے جوڈیشل کونسل نے شامل کیے، جوڈیشل کونسل نے ریفرنس کا جائزہ لے کر الزام کے تین نکات نکالے، عدلیہ کو شوکاز نوٹس کے مواد کو بھی دیکھنا ہوتا ہے تاہم فروغ نسیم کی بات پر عدالتی بینچ کے سربراہ جسٹس عمر نے کہا کہ اس دلیل کی حمایت میں آرمی چیف کیس کا حوالہ کیوں دیا، جس پر حکومتی وکیل نے کہا کہ آرمی چیف کا مقدمہ درخواست واپس لینے کی استدعا کے باوجود بھی چلا۔اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ یہ آرڈر 23 کا اصول ہے کہ درخواست عدالت کی اجازت کے بغیر نہیں لی جا سکتی۔انہوں نے یہ سوال کیا کہ کیا ریفرنس کالعدم ہو جائے تو پھر بھی اپنی جگہ زندہ رہے گا۔عدالت کے سوال پر فروغ نسیم نے کہا کہ میری بصیرت کے مطابق یہی دلیل ہے ریفرنس کے بعد بھی شو کاز نوٹس ختم نہیں ہوتا، سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کا حکم پاس نہیں کیا تاہم آرمی چیف کا مقدمہ چلا۔انہوںنے کہاکہ جوڈیشل کونسل تمام 28 سوالات پر آبزرویشن دینے کی مجاز ہے، جج نے تحریری جواب دے کر جوڈیشل کونسل کے سامنے سرنڈر کردیا۔ انہوں نے کہا کہ صدر مملکت کی رائے کا کونسل جائزہ لے سکتی ہے، صدر کی رائے کسی عدالت میں چیلنج نہیں ہوتی، اس پر جسٹس عمر عطا نے ریمارکس دیے کہ اعتراض یہ ہے کہ ریفرنس میں قانونی نقائص اور بدنیتی ہے۔اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ قانون کہتا ہے کہ کم معیار کے ساتھ بھی کام چلایا جا سکتا ہے، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کے مطابق عدالت عظمیٰ کے جج کے ساتھ کم معیار کے ساتھ کام چلایا جائے؟عدالتی بات پر حکومتی وکیل نے کہا کہ آرٹیکل 209 میں شاہد کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، اس پر سربراہ بینچ نے کہا کہ جج کو ہٹانے کی کارروائی میں شواہد کا معیار دیوانی مقدمات جیسا نہیں ہونا چاہیے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ جج کے خلاف مس کنڈکٹ کی کارروائی کیلئے ٹھوس شواہد ہونے چاہئیں، براہ کرم مثال دیتے ہوئے احتیاط کریں، عدالت یہاں آئینی معاملے کا جائزہ لے رہی ہے۔اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ کونسل نے بھی اپنے ذہن کا استعمال کرکے شوکاز نوٹس کیا، ریفرنس کے معاملے پر صدر کے بعد جوڈیشل کونسل اپنا ذہن استعمال کرتی ہے، کونسل شوکاز نوٹس کرنے سے پہلے اور بعد میں بھی ریفرنس کا جائزہ لیتی ہے۔انہوں نے کہا کہ جج کے خلاف کارروائی کے لیے شواہد کا معیار کیا ہو یہ کونسل پر چھوڑ دینا چاہیے، جس کے جواب میں جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ ریفرنس میں محض دستاویزات لف نہیں ہونی چاہیے، ریفرنس کے ساتھ الزام ثابت کرنے کے ٹھوس شواہد بھی ہوں۔جس پر فروغ نسیم ن ے کہاکہ شواہد اگر تسلیم شدہ ہوں تو حقائق کا مسئلہ نہیں ہوتا، کسی مقدمے میں شواہد تسلیم نہ کیے جائیں تو بات اور ہے، کسی دباؤ کے تحت کوئی مواد لیا جائے تو عدالت قبول نہیں کرتی۔