منی پور کو نہ بھولیں!
شیئر کریں
ڈاکٹر سلیم خان
ْ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
3 مئی کو منی پور میں تصادم پھوٹ پڑا کیونکہ درج فہرست قبائل (ST) کا درجہ دینے کیلئے میتی برادری کی مانگ کے خلاف احتجاج کرنے کی خاطردس پہاڑی ضلعوںمیں ایک قبائلی یکجہتی جلوس کا اہتمام کیا گیا تھا۔ یہ جلوس منی پور ہائی کورٹ کے فیصلے کی مخالفت میں نکالا گیا تھا کیونکہ اس نے ریاستی سرکار کو درج فہرست قبائل کی فہرست میں اکثریتیی ہندوقبیلے میتی کوشامل کرنے سے متعلق مرکز کو سفارش بھیجنے کی تلقین کی تھی۔ جلوس کا اہتمام دیگر قبائل کا حق تھا مگر ان کی آواز دبانے کے لیے فسطائی قوتوں نے دھرم یدھ چھیڑ دیا اور خاک و خون کی ہولی کھیلنے لگے لیکن مرکزی وزیرداخلہ اپنے فرض منصبی سے بے نیاز کرناٹک کی انتخابی مہم میں مصروف رہے ۔ اس سے فارغ ہونے کے بعد ہی انہیں کو منی پور کا خیال آیا اور انہوں نے فرمایا صورتحال قابو میں ہے ایک سفید جھوٹ ہے کیونکہ اس وقت تک کرفیو جاری تھا اور آج بھی خوراک کی تنگی کے سبب لوگ تقریباً فاقہ کشی کے دہانے پر ہیں۔ امپھال میں تاجروں کے پاس اناج، دال، خوردنی تیل، آلو وغیرہ کا ذخیرہ نہیں ہے ۔ خوراک اور پٹرولیم مصنوعات کے زیادہ تر ٹرک کانگ پوکپی ضلع میں لوٹ لیے گئے اور گاڑیاں جلا دی گئیں اس لیے ٹرک والے لوٹ گئے ۔ ڈبل انجن سرکارمیں دیگر اشیاء کے علاوہ ادویات کے غائب ہونے سے لوگ پریشان ہیں اور انٹرنیٹ بند ہونے کے سبب میڈیا ہاؤسز سمیت طلبہ کو بھی پریشانی ہے کیونکہ تعلیمی سرگرمیاں، داخلہ کا عمل نہ ہوسکا۔
امیت شاہ نے کہا تھاکہ منی پور حکومت میتی برادری کو درج فہرست قبائل کا درجہ دینے کا فیصلہ کرنے سے قبل تمام متعلقہ فریقوں سے تبادلہ خیال اور صلاح و مشورے کے بعد عدالتی حکم پر مناسب فیصلہ کرے گی۔عدالت نے فیصلہ کرنے سے قبل جب ریاستی حکومت سے استفسار کیا تھا تو اس وقت یہی جواب دیا جاتا اور ہاں کہنے میں جلدبازی نہیں کی جاتی تو یہ تشدد نہیں پھوٹتا لیکن بی جے پی کی گاڑی ہمیشہ آگے اور گھوڑا پیچھے ہوتا ہے ۔ ان لوگوں کو جب تک ترتیب سمجھ میں آئے بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے ۔ وزیر داخلہ نے بعد میں یقین دلایا کہ کسی بھی شخص یا گروہ کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن چونکہ ان پر عوام کا اعتماد ختم ہوچکا ہے اس لیے اس پر کوئی بھروسہ نہیں کرتا۔ اس کے ساتھ شاہ نے عوام سے امن برقرار رکھنے کی اپیل بھی کی مگر تشدد کا شکار ہونے والے مظلومین کے لیے ہمدردی کا ایک لفظ ان کی زبان سے نہیں پھوٹا۔ انہوں نے نہ تو مرنے والوں کے تئیں اظہار تعزیت کیا اور نہ بے گھر ہونے والوں کی بازآبادکاری سے متعلق کوئی یقین دہانی کرائی ۔ ہزاروں کی تعداد میں کیمپوں کے اندر نہایت خراب حالت میں زندگی گزارنے والے سوال کررہے ہیں کہ ہم اپنے گھر میں کیسے جائیں جبکہ وہ جل چکے ہیں اور ایسے لوگوں کے درمیان کیسے آباد ہوں جنھوں نے ہمارے گھر جلائے ہیں؟ وزیر داخلہ نے یہ بیان مغربی بنگال میں جاکر دیا مگر منی پور جانے کی ہمت نہیں کی ۔ یہ سنگھ پریوار کی بزدلی اور سفاکی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے ۔
منی پور کی بابت ذرائع ابلاغ میں یہ بتایا جاتا ہے کہ وہاں میتی اور کوکی قبائل آپس میں لڑ رہے ہیں لیکن اس تشدد کو کون ہوا دے رہا ہے اس کا اندازہ لگانے کے لیے عبادتگاہوں پر حملے پر ایک نظر ڈال لینا کافی ہے ۔ وہاں پر پہلے دو دنوں میں پچاس سے زیادہ گرجا گھروں کو نقصان پہنچایا گیا۔ اب یہ تو نہیں ہوسکتا ہے کہ عیسائی کوکی خود اپنی عبادتگاہوں کو جلائیں۔ یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہا اور اس سے کئی گنا زیادہ گرجا گھروں کو نشانہ بنایا گیا جن کی فہرست ذرائع ابلاغ میں آچکی ہے ۔ اس سے قبل میتی قبائل کی ایسی ہمت کبھی نہیں ہوئی تھی ۔ اس سے ظاہر ہے کہ حکومت کی سرپرستی میں تشدد کو ہوا دی گئی۔ منی پور اور گجرات میں زبردست مشابہت پائی جاتی ہے ۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بی جے پی اقتدار میں آنے کے بعد اسے مستحکم کرنے کی خاطر یہی حربہ استعمال کرتی ہے ۔ وہ فرقہ وارانہ فسادات کرواکر اس کی آگ پر اپنی سیاسی روٹیاں سینکتی ہے ۔ اس کا نشانہ کبھی مسلمان بنتے ہیں تو کبھی عیسائی یا سکھ ہوتے ہیں مگر فائدہ فسطائی طاقتوں کا ہی ہوتا ہے ۔ منی پور میں یہ لوگ عیسائی اوریہودیوں میں بھی فرق نہیں کرسکے اور انہوں نے یہودیوں کی دو عبادتگاہوں کو جلا ڈالا ۔ ایک اسرائیلی ربی شلومو عمار نے سن 2005 میں کوکی کے بنی میناشے قبیلہ سے تعلق رکھنے کی تصدیق کی تھی۔ اس قبیلے کے تقریباً 5000 افراد حالیہ برسوں میں اسرائیل ہجرت کرچکے ہیں جب کہ مزید تقریباً 5000 اب بھی ہندستان میں موجود ہیں۔
میتی آبادی ہندو اور دیگر قبائل عیسائی ہیں اس لیے آبادی کے تناسب میں بھی کھلواڑکیا جارہا ہے ۔ 2011میں مردم شماری ہوئی اس کے مطابق میتی 42 فیصد ہیں ۔ اس کے باوجود انڈین ایکسپریس نے دعویٰ کردیا کہ وہ 52فیصد اور للن ٹاپ نے اس کو 62 فیصد تک پہنچا دیا ۔ سوال یہ ہے کہ یہ اعداوشمار آخر آئے کہاں سے ؟ منی پور میں وسائل کی تقسیم کو آبادی کی بنیاد پر اہمیت دینے والے زمین کے علاوہ دیگر اشیاء پر گفتگو کیوں نہیں کرتے ؟ وہ لوگ ملک بھر میں ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کی مخالفت کیوں کرتے ہیں؟ اس کی وجہ مختلف طبقات کے درمیان تفاوت کو چھپانا نہیں تو اور کیا ہے ؟ صوبے میں پہاڑوں کا رقبہ نوے فیصد ہونا اس بات کا ثبوت کیسے ہوگیا کہ وہ پورا قبائلی آبادی کے قبضے میں ۔ اس لحاظ سے اگر ہمالیہ کو نیپال میں شامل کردیا جائے تو اس کا رقبہ کئی گنا بڑھ جائے گا۔قبائلی ہر لحاظ سے پسماندہ ہیں اس حقیقت کو چھپایا کر میتیوں کے مظالم کو جواز فراہم کیا جارہا ہے ۔ سرکار کی سرپرستی میں میتیوں کے قتل و غارتگری اور گرجاگھروں کی پامالی پر اکسانا نہیں تو اور کیا ہے ؟ یہ گجرات کے طرز پر منی پور میں اپنا اقتدار مستحکم کرنے کی گھٹیا کوشش ہے جس نے ہزاروں لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کردیا اور 54 لوگوں کی موت کا سبب بن گیا ۔
منی پور کی حالت فی الحال سوڈان جیسی ہوگئی ہے ۔ ایک چھوٹے سے صوبے میں 32 ہزار سے زیادہ لوگ کا گھر بار چھوڑ کر فوجی کیمپوں میں پناہ لینا کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔ تشدد والے علاقوں سے لوگوں کو نکال کر محفوظ مقامات تک پہنچانے کا عمل جاری ہے ۔ جس طرح حکومت ہند نے عراق یا سوڈان سے اپنے لوگوں کو بخیر و عافیت نکالنے کی کوشش کی تھی اسی طرح مہاراشٹر اور آندھر پردیش کی سرکاروں نے بھی کرفیو کے کھلتے ہی اپنے لوگوں وہاں سے نکالنے کی خاطر خصوصی پروازوں کا اہتمام کیا ہے ۔ اس کے علاوہ راجستھان، اترپردیش ، تلنگانہ ، ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ اور ہریانہ نے بھی اپنے لوگوں کو نکالنے کی کوشش کی۔ خود اپنے ہی ملک میں شہریوں کا غیر محفوظ ہوجانا شرمناک ہے ۔دور دراز کے علاوہ قریب کے میگھالیہ اور تریپورہ و آسام کے طلباء بھی جان بچاکر بھاگ رہے ہیں ۔ راجستھان اپنے 125 طلباء کو نکالنے کے لیے چارٹر جہاز کا بندو بست کررہا ہے ۔ اسے دیکھ کر یوکرین کے جنگ زدہ علاقوں سے بھاگنے والے ہندوستانی طلباء کی یاد آتی ہے ۔ بی جے پی کی ریاستی حکومت کو اس ناکامی پر برخواست کردینا چاہیے لیکن اس کے لیے جو شرم و حیا درکار ہے اس سے یہ فسطائی جماعت عاری ہے ۔
آزمائش کی اس گھڑی میں قومی مفاد میں آگے آنے بجائے ہوائی کمپنیوں نے موقع کا فائدہ اٹھا کر امپھال سے نکلنے کے لیے کرایہ 30,000 روپیہ تک پہنچا دیا اور یہ رجحان بھی سنگھ پریوار کے قوم پرستی کی نفی ہے جس میں لوگ اپنے ہی عوام کو کھلے عام لوٹ رہے ہیں اور سرکار اس معاملہ میں بالکل بے بس ہے ۔منی پور معاملے میں ایک دلچسپ موڑ بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن اسمبلی ڈنگانگ لونگ گنگمی کا منی پور ہائی کورٹ کے اس حکم کو چیلنج کرنے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرنا ہے ۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ بی جے پی ہائی کورٹ کے ذریعہ میتیی کمیونٹی کو درج فہرست قبائل کے درجہ میں شامل کرکے کی جانے والی غلطی کا احساس ہوا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے عدالتِ عالیہ سے استفسار کے بعد ریاستی سرکار نے وہ جواب کیوں دیا جس کے بعد عدالت کو وہ حکم دینا پڑا۔ گنگمی کی طرف سے دائر شدہ عرضی میں ریاستی حکومت کو شیڈول ٹرائب (ایس ٹی) فہرست کے لیے ایک قبائل کی سفارش کرنے کے حوالے سے ہدایت دینے کی مانگ کی گئی تھی، جو صرف ریاست کے دائرہ اختیار میں آتا ہے نہ کہ ہائی کورٹ کے ۔
بی جے پی رکن اسمبلی نے اپنا پلہّ جھاڑنے کے لیے منی پور ہائی کورٹ کے حکم کو ریاست میں بدامنی پھیلانے کا سزاوار ٹھہرایا ہے ۔ اپنی دائر کردہ درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ اس حکم کی وجہ سے دونوں برادریوں کے درمیان تناؤ پیدا ہوگیا ہے اور ریاست بھر میں پرتشدد جھڑپیں ہوئیں۔ اس درخواست میں قبائلی لوگوں کی ہلاکت کا اعتراف نیز مزید لوگوں کی جان کو خطرے کے اندیشے کا اظہار کیا گیا ہے ۔ منی پور جیسے حساس صوبے کا کام کاج ڈاکٹر راجیش کمار جیسے چیف سیکریٹری سے چلانا بھی شرمناک ہے کیونکہ وہ اپنی مدت کار ختم کرچکے تھے ۔ سرکار کی نااہلی کے سبب ریاست میں تشدد پھیلا تو اس کا ٹھیکرا چیف سیکریٹری پر پھوڑ کر انہیں ڈاکٹر ونیت وشی سے بدل دیا گیا ۔وہ منی پور کیڈر سے 1992 بیچ میں انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس میں آئے اور فی الحال مرکزی ڈیپوٹیشن پر وزارت تعلیم کے محکمہ ہائر ایجوکیشن کے ایڈیشنل سکریٹری تھے ۔ یہ اچھا فیصلہ ہے مگر بہت دیر سے کیا گیا۔ وزیر داخلہ کی توجہ اگر کرناٹک الیکشن کے بجائے اپنے فرض منصبی پر ہوتی تو بہت پہلے یہ فیصلہ ہوگیا ہوتا اور آج یہ حالت نہ ہوتی لیکن پہلے سنگھیوں کو بھیج کر فساد کی بھڑکانا اور پھر اسے بجھا کر سیاست چمکانا بی جے پی کا آزمودہ سیاسی نسخہ ہے جسے پہلے گجرات میں آزمایا گیا اور اب منی پور میں دُہرایا گیا ہے ۔
٭٭٭