
وقف ترمیمی بل کے تحت مدرسہ منہدم
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
بھارت میں منظورشدہ نئے وقف قانون کے تحت ریاست مدھیہ پردیش میں 30سال پرانے مدرسے کو منہدم کر دیا گیا۔ضلع پنہ کی بی ڈی کالونی میں مدرسے کی انتظامیہ کو نوٹس جاری کرکے الزام لگایا کہ مدرسہ منظوری کے بغیر سرکاری اراضی پر تعمیر کیاگیا۔مدرسہ کے انہدام کو وقف ترمیمی قانون کے تحت پہلی کارروائی سمجھا جاتا ہے۔ بھارتی ریاست آسام کے ضلع کاچھر میں پولیس نے وقف ترمیمی قانون کیخلاف ریلی پر لاٹھی چارج کیا جس سے مظاہرین اور پولیس میں جھڑپیں ہوئیں۔کے ایم ایس کے مطابق سلچر قصبے کے علاقے برینگا میں ہزاروں افراد احتجاج کے لئے سڑکوں پر نکل آئے۔ریاست کرناٹک کے اقلیتی بہبود کے وزیر بی زیڈ ضمیر خان نے اعلان کیا ہے کہ بھارتی پارلیمنٹ میں منظور ہونے کے باوجود متنازع وقف قانون کو کرناٹک میں لاگو نہیں کیا جائے گا۔ مغربی بنگال ، تامل ناڈو ، کیرالہ اور کرناٹک کی حکومتوں نے فیصلہ کیا ہے کہ یہ ہمیں قانون قبول نہیں۔بھارتی وزیر اعظم مودی نے بھارتی مسلمانوں کی کمزور معاشی حالت کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا ہے کہ اگر وقف کی جائیداد کا صحیح استعمال ہوا ہوتا تو مسلم نوجوانوں کو پنکچر نہیں بنانا پڑتا۔
مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ترجمان اور احتجاج کے آرگنائزر ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے ایک بیان میں کہا کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ اور متعدد مسلم تنظیموں اور عام مسلمانوں نے مختلف طریقوں سے مرکزی حکومت، اس کی حلیف جماعتوں اور بطور خاص مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پوری قوت سے اپنا یہ موقف پیش کیاکہ حکومت کی طرف سے پیش کردہ بل وقف املاک کو ہڑپنے اور تباہ کرنے کی ایک گھنائونی سازش ہے اور اسے فوری طور پر واپس لیا جائے، لیکن اس کے باوجود حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ مسلم پرسنل لا بورڈ اور تمام مسلم تنظیموں نے وقف ترمیمی بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی حکومت کو وقف املاک سے کھلواڑ کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔ حکومت مسلمانوں کے صبر کا امتحان نہ لے اور ملک کوجمہوریت کے بجائے تانا شاہی کی طرف نہ لے کرجائے۔مسلم رہنمائوں نے مودی حکومت پر زوردیا کہ وہ اس ترمیمی بل کو فورا واپس لے بصورت دیگر مسلمان ملک گیراحتجاج کرنے پر مجبور ہو ں گے۔آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور دیگر دینی و ملی تنظیموں نے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی طرف سے وقف ترمیمی بل کی منظوری اور اتراکھنڈ میں سول کوڈ کے نفاذ کی شدید مذمت کی ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈکے رہنمائوں نے ایک بیان میں کہا کہ جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی نے وقف ترمیمی بل منظور کر کے تمام جمہوری و اخلاقی اقدار اور مسلمانوں کوبھارتی آئین کے تحت حاصل حقوق کو پامال کیا ہے۔ کمیٹی نے کروڑوں کی تعداد میں دی گئی مسلمانوں کی آرا، ان کے جذبات و احساسات کو نظر انداز اور اپوزیشن ممبران کی تجاویز کو مسترد کرتے ہوئے متنازع بل کو منظور کیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ بل کی منظوری انتہائی نا مناسب، غیر جمہوری اور مسلمانوں کے حقوق پرڈاکے کے مترادف ہے۔ ریاست اتراکھنڈ میں یکساں سول کوڈ کا نفاذ غیر جمہوری، غیر دستوری اور شہریوں کے بنیادی حقوق پرایک حملہ ہے۔انہوں نے کہاکہ یہ قانون مسلمانوں کیلئے ہرگز قابل قبول نہیں۔
بھارت کے آئین میں مسلمانوں سمیت تمام شہریوں کو اپنا مذہبی عقیدہ رکھنے اور مذہبی تعلیمات پر عمل کر نے کی آزادی دی گئی ہے۔ مسلم پرسنل لا دین اسلام کا جزو لا ینفک ہے، جسے شریعت اپلیکیشن ایکٹ 1937کے تحت بھی تحفظ ہے۔مسلم رہنمائوں نے دعویٰ کیا کہ کسی ریاست کو یونیفارم سول کوڈ بنانے کا ہرگز اختیار نہیں ہے، یہ ریاستی حدود سے مجرمانہ تجاوز ہے۔بھار ت میں متنازع وقف ترمیمی بل کی منظوری کے بعد پورا بھارت احتجاج کی لپیٹ میں آ گیا ۔ بل کی منظوری کے صرف چند گھنٹوں بعد کولکتہ، رانچی، احمد آباد، منی پور، جمئی اور دیگر شہروں میں عوام سڑکوں پر نکل آئے اور حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ احمد آباد میں بڑی تعداد میں لوگوں نے بل کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کیا، جہاں پولیس نے مظاہرین پر تشدد کرتے ہوئے 50 سے زائد افراد کو گرفتار کر لیا۔ کولکتہ میں بھی زبردست مظاہرے ہوئے جہاں مظاہرین نے وقف بل واپس لو کے نعرے لگائے۔رانچی میں ایکرا مسجد کے باہر احتجاجی مظاہرین نے بینرز اٹھا رکھے تھے اور مطالبہ کر رہے تھے کہ بل میں کی گئی ترامیم ان کے مذہبی اور قانونی حقوق کو متاثر کر رہی ہیں۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ حکومت اقلیتوں کے وقفی املاک پر قابض ہونے کی کوشش کر رہی ہے، جو ناقابل قبول ہے۔
سب سے بڑا احتجاج شمال مشرقی ریاست منی پور میں ہوا، جہاں عوام نے متنازع بل کو مسترد کرتے ہوئے مودی حکومت پر کڑی تنقید کی۔ منی پور مودی حکومت کی مسلم دشمن پالیسیوں کے باعث بداعتمادی کا گڑھ بن چکا ہے۔بہار کے ضلع جمئی میں واقع رضا نگر گوثیہ مسجد کے باہر بھی سینکڑوں افراد نے احتجاج کیا۔ مظاہرین نے وزیراعلی نتیش کمار اور دیگر بی جے پی رہنماں کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور آئندہ انتخابات میں بی جے پی کے خلاف ووٹ دینے اور بائیکاٹ کا اعلان کیا۔اترپردیش میں احتجاج کے خدشے کے پیش نظر پولیس ہائی الرٹ پر ہے، جبکہ بھارتی سپریم کورٹ اور مختلف ہائی کورٹس میں وقف ترمیمی بل کے خلاف درخواستیں دائر کر دی گئی ہیں۔
اپوزیشن، مسلم تنظیموں اور انسانی حقوق کے اداروں نے بل کو اقلیتوں کے خلاف اقدام قرار دیا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ اس قانون کا مقصد مسلمانوں کے وقفی اداروں کو کمزور کرنا اور ان کی جائیدادوں پر قبضہ جمانا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کی مسلم دشمن پالیسی بھارت کے سیکولر تشخص کے لیے سنگین خطرہ بنتی جا رہی ہے، اور وقف بل اس کی تازہ ترین مثال ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔