کورونا وائرس ، مئی میں کیسز میں اضافے کاخدشہ ہے ، وزیراعظم
شیئر کریں
وزیراعظم عمران خان نے خبردار کیا ہے کہ 20 مئی تک ملک میں کورونا کیسز میں اضافے کا خدشہ ہے ، کورونا پر سیاست بند کردیں،ہم کورونا کیسز چھپائیں گے تو کیا کورونا ختم ہوجائے گا؟کیسز بڑھنے سے ہسپتالوں پر دبائو میں اضاف ہوگا ،اگلے مہینے تک ہم کورونا سے لڑنے کیلئے مزید تیاری کرلیں گے ،لوگ بھوک سے سڑکوں پر آگئے تو لاک ڈاؤن کا فائدہ نہیں ہوگا،اس وقت لاک ڈاؤن میں کمزور طبقے کی فکر ہورہی ہے ، سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مزدور رجسٹرڈ نہیں ،لوگوں کو بیروزگاری اور بھوک سے بچانے کیلئے تعمیراتی شعبہ کھولا، مجھے خطرہ کورونا سے نہیں ، خطرہ اس بات کا ہے کہ لاک ڈاؤن میں لوگوں کا کیا ہوگا؟پولیس عوام کو ڈنڈے مارنے کے بجائے لاک ڈاؤن سے متعلق سمجھائے ،کورونا وائرس سے بچنے کیلئے رمضان المبارک میں احتیاط کی ضرورت ہے ،ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی ، آرڈیننس کے ذریعے اسمگلرز کے خلاف بھی سخت کارروائی ہوگی۔ ہفتہ کو کورونا وائرس کے حوالے سے پریس بریفنگ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 25 اپریل تک کورونا کے کیسز 50 ہزار تک تجاوز ہونے کا تخمینہ لگایا گیا تھا تاہم اللہ کا شکر ہے کہ آج کے اندازوں کے مطابق ان کی تعداد 12 سے 15 ہزار کے درمیان رہنے کا امکان ہے ۔وزیراعظم نے کہاکہ کیسز کی اس تعداد کی حد تک ہمارے ہسپتالوں میں موجود سہولیات کافی ہیں تاہم جس طرح کیسز میں اضافہ ہورہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہورہا ہے کہ 15 مئی سے 25 مئی تک مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے اور اس دوران ہسپتالوں پر دباؤ پڑ سکتا ہے ۔وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے حالات مغربی ممالک سے بہت مختلف ہیں کچی آبادیوں میں بہت گنجان آبادی ہے ، جہاں ایک ایک کمرے میں 6 سے 8 افراد رہائش پزیر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ہمیشہ دیکھا کہ جو بھی پالیسی بنائی گئی اسے ایک خاص طبقے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بنایا گیا۔وزیراعظم نے کہا کہ 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں کے پاس اختیار تھا اور انہوں نے لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا اور اب بھی میں یہ کہتا ہوں کہ مجھے سب سے زیادہ خطرہ کمزور اور غریب طبقے کے حوالے سے ہے ۔بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مغربی ممالک میں تقریباً تمام مزدور حکومت کے پاس رجسٹرڈ ہیں جن کی درخواست پر حکومت ان کی مدد کررہی ہے تاہم ہمارے 75 سے 80 فیصد مزدور غیر دستاویزی طور پر کام کرتے ہیں۔انہیوں نے اعتراف کیا کہ رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ سے حکومت کیلئے ہر ایک تک پہنچنا ممکن نہیں اور خدشہ ہے کہ اگر لوگوں تک رسائی نہ ہوئی تو وہ سڑکوں پر آجائیں گے اور لاک ڈاؤن کا مقصد ختم ہوجائے گا اس لیے تعمیرات کا شعبہ کھولا گیا۔وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے تعمیرات کے شعبے میں شرکت کیلئے ہر ایک کو دعوت دی تا کہ لوگوں کو روزگار ملے ۔انہوںنے کہاکہ میں نے سوشل میڈیا پر ایسی چیزیں دیکھی ہیں کہ لاک ڈاؤن توڑنے والوں کو ڈنڈے مارے جارہے ہیں اس لیے میں پولیس سے کہنا چاہتا ہوں کہ ڈنڈے مارنے کے بجائے غریب لوگوں کو سمجھائیں کیوں کہ ڈنڈے سے صرف ایک دو ہفتے تک لاک ڈاؤن کامیاب ہوسکتا ہے ۔رمضان المبارک میں عبادات کے حوالے سے وزیراعظم نے کہا کہ میں مساجد کے آئمہ سے کہتا ہوں کہ کورونا وائرس کے حوالے سے طے شدہ چیزوں مثلاً سماجی فاصلے پر عمل کریں کیوں کہ اگر کورونا پھیلا تو مسجد ویران ہوجائیں گی۔وزیراعظم نے کہا کہ کورونا کے باعث لوگوں کی جانب سے ذخیرہ اندوزی کر کے پیسہ کمانے کی کوشش سب سے بڑا خطرہ ہے تاہم ہم اس پر بہت سختی کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں خبردار کررہا ہوں کہ جو لوگ ذخیرہ اندوزی میں ملوث ہوئے ان کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے گی اور مالکان کو پکڑا جائے گا۔وزیراعظم نے متنبہ کیا کہ ذخیرہ اندوزی اور اسمگلروں کے حوالے سے آرڈیننس تیار کرلیا گیا ہے اور اسمگلنگ کے خلاف بھی سخت ترین کارروائی کی جائے گی۔وزیراعظم نے کہا کہ جب کوئی قومی بحران ہو اور اس سے سب متاثر ہورہے ہیں خاص کر نچلا طبقہ، ایسی صورتحال میں سیاست نہیں ہونا چاہیے لہٰذا دو سے 3 ہفتوں سے جو سیاست چل رہی ہے اسے بند کیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ میرے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ ایک ایسا طبقہ ہے جو چاہتا ہے کہ ملک میں کورونا کے اثرات میں اضافہ ہو اور زیادہ لوگ مریں تاکہ وہ اپنی سیاست چمکائیں لیکن وہ اس وقت مایوس ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دیگر دنیا کے رہنماؤں میں بھی غلط فیصلے کیے لیکن ہم نے کچھ پہلے دن سے جو فیصلہ کیا وہ اللہ کا شکر سے ٹھیک ثابت ہورہا ہے اس کے باوجود اس سب کو زبردستی سیاسی رنگ دیا جارہا ہے ۔بطور خاص کراچی میں اموات کی تعداد میں اضافے کی رپورٹس کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ اس قسم کی خبروں سے لوگوں میں خوف اور افراتفری پھیلے گی اور وہ ایسی حرکتیں کریں گے کہ جس سے مزید نقصان پہنچے گا یہ بہت غیر ذمہ دارانہ حرکت ہے کہ آپ نے اس کا ذکر کرنے سے پہلے تصدیق ہی نہیں کی۔وزیر اعظم نے کہاکہ اس کا مطلب ہوا کہ حکومت کورونا سے ہونے والی اموات چھپا رہی ہے ، وہ کون سی بے وقوف حکومت ہوگی جو کورونا کیسز کو چھپائے گی؟انہوں نے کہا کہ ہم تو کوشش کررہے کہ کورونا کے مریضوں تک پہنچا جائے اور وہ اس وقت ممکن ہے جب اعداد و شمار درست آئیں گے اگر ڈیٹا درست نہیں ہوگا تو ہم فیصلے کس طرح کریں گے کہ کہاں لاک ڈاؤن کرنا ہے ؟وزیراعظم نے کہا کہ یہ ہمارے مفاد میں ہے کہ ہمیں درست اعداد و شمار ملیں اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر میں روزانہ کی بنیاد پر چاروں صوبوں، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے تعاون سے ڈیٹا مرتب کیا جارہا ہے اگر کسی کو شبہ ہے تو یہاں بنے سیٹ اپ کو چیک کرلیں۔انہوںنے کہاکہ جب تمام کام تعاون سے ہورہے ہیں تو کیا ضرورت ہے کہ جب سب اتفاق کرلیتے ہیں تو ان کی جماعت کے کوئی لیڈر کوئی اور بیان دے دیتے یہیں۔انہوں نے کہا کہ کورونا بحران بہت بڑھ سکتا تھا تاہم اللہ کے کرم سے اتنی تیزی سے نہیں پھیلا کیوں کہ اگر پھیلا تو پوری قوم کو نقصان ہوگا اس لیے میری درخواست ہے اس پر قوم متحد ہو یہ بحران ہے اس پر سیاست نہ کریں۔انہوں نے بتایا کہ جب کورونا کا بحران شروع ہوا تو ہر چیز کی جانب سے ہٹ کر توجہ کورونا کی جانب مبذول ہوگئی۔انہوں نے پولیو کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کورونا کے پیش نظر لاک ڈاؤن کی وجہ سے 2 پولیو مہم متاثر ہوئی ہیں اور ہم اس بات کو بھی دیکھ رہے کہ کورونا سے بچاتے بچاتے لوگ دیگر بیماریوں سے نہ مریں۔وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں احساس ہے جس طرح ایک دم لاک ڈاؤن ہوا اس سے سب سے زیادہ اثر بیرونِ ملک پاکستانیوں پر ہوا، اس میں جو بیرونِ ملک سیر کو گئے تھے وہ تو متاثر ہوئے ہیں لیکن سب سے زیادہ بیرون ملک موجود محنت کش طبقہ متاثر ہوا۔انہوں نے کہا کہ میں ان پاکستانیوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ اپنے ذہن سے یہ نکال دیں کہ ہم آپ کو بھول گئے یا آپ کی فکر نہیں کی بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ ابتدا میں جتنے کیسز تھے وہ بیرونِ ملک سے آئے تھے اور ہمارے پاس اتنی سہولیات نہیں تھی کہ ہم باہر سے آنے والے تمام افراد کی اسکریننگ کرسکتے ۔وزیراعظم نے کہاکہ چونکہ ہمیں ایک تجربہ ہوچکا تھا اس لیے تمام صوبوں نے بھی اس بات پر اتفاق کیا کہ ابھی ہمارے پاس اتنی تیاری نہیں کہ آنے والے تمام افراد کو اسکرین کیا جاسکے چنانچہ یہ وہ وجہ تھی جس کی وجہ سے بیرونِ ملک پاکستانیوں کی واپسی کو مؤخر کیا۔وزیراعظم نے کہا کہ کورونا وائرس کے خاتمے کے حوالے سے کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے 6 ماہ لگیں کہ 8 ماہ لیکن اگر یہاں غربت بڑھ گئی تو مطلب ہم جنگ ہار گئے ۔