میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
امریکا نے اپنے جرائم چھپانے کے لیے مسلمانوں کا قتل عام کیا

امریکا نے اپنے جرائم چھپانے کے لیے مسلمانوں کا قتل عام کیا

منتظم
جمعرات, ۱۹ اپریل ۲۰۱۸

شیئر کریں

شہزاد احمد
سابق افغان صدر حامد کرزئی نے کہا ہے کہ نہ برطانیہ اور نہ ہی امریکا ، صرف روس ہی افغانستان کی مدد کرسکتا ہے۔ امریکا نے سب کو دھوکا دیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف یہ کیسی جنگ ہے کہ طالبان کے پاس اس وقت پہلے سے زیادہ اسلحہ ہے۔

ایک روسی ٹی وی کو انٹرویو میں حامد کرزئی کا کہنا تھا کہ اگر روس پاکستان اور افغانستان کے ساتھ نئے تعلقات ہموار کرتا ہے تو اس صورت میں ماسکو افغانستان کی مدد کرسکتا ہے۔ برطانیہ ہماری مدد نہیں کرسکتا کیونکہ انہیں تو ہم پہلے ہی بہت بار شکست دے چکے ہیں جبکہ امریکا گزشتہ 17 برسوں سے ہمیں مارر رہا ہے۔روس ہی وہ واحد قوت ہے جس کی مدد سے ہم دہشت گردوں کو شکست دے سکتے ہیں۔سابق افغان صدر کا کہنا تھا کہ روس نے افغانستان میں اسکول اور ہسپتال بھی تعمیر کیے تھے۔ امریکا جھوٹ بولتا ہے کہ روسی حملہ کے نتیجے میں افغانستان میں القاعدہ کا قیام عمل میں آیا جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ امریکا نے جنگ کی آڑ میں القاعدہ کو پروان چڑھایا۔ اور پھر اس افغان جنگ کے نتیجے میں روس ٹوٹا تھا۔

شام کے ایک سیاسی محقق نے اس بات کیساتھ کہ شام اورعلاقے میں سرگرم مختلف دہشتگرد گروہوں کے پیچھے امریکا جیسی مغرور طاقتیں کھڑی ہیں کہاہے کہ داعش ،القاعدہ اورجبہت النصرہ کو پروان چڑھانے میں امریکا نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ روس ،شام اورایران مشرق وسطیٰ کی ارضی سالمیت کے محافظین کا کردارا داکررہے ہیں۔ ان تینوں ممالک نے مشرق وسطیٰ علاقے کے خلاف امریکا اوراسکے اتحادیوں کے خطرناک منصوبے کا کامیابی کیساتھ مقابلہ کیا ہے۔ امریکا علاقائی ممالک کو جس منصوبے کے تحت تقسیم کرنا چاہتا تھا وہ روس ،شام اورایران نے ناکام کردیا ہے اس لیے امریکا نے اپنی پوری توجہ عراقی کردستان پر مرکوز کی ہے۔

انہوں نے عراقی کردستان میں کیے جانے والے ریفرنڈم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ اگرعراقی کرد عراق میں ایک آزاد ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو اس صورت میں شمالی شام میں کرد علاقے بھی دمشق سے آزادی کی آواز اْٹھائیں گے۔ اس پیچیدہ مسئلے سے مشرق وسطیٰ علاقہ پوری طرح منقسم ہوگا اوریہ وہی چیز ہے جو امریکی سیاستدان چاہتے ہیں اس لیے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ امریکا نے مشرق وسطیٰ علاقے کے خلاف ابھی اپنے خطرناک منصوبے کو ترک کیا ہے۔

امریکی ماہرین اور انسانی حقوق گروپوں نے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کو خود ساختہ اور نام نہاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ نائن الیون کو ہونے والے اندرونی جرائم کو چھپانے کے لیے انسانوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے۔ امریکی انسانی حقوق کا رکن ڈاکٹر لانڈی شورٹ نے کہا کہ خود ساختہ جنگ نے انسانی حوق اور انسانیت کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔ امریکا القاعدہ کو امن کا سب سے بڑا دشمن قرار دے کر اس کے خلاف جنگ میں مصروف ہے۔ دوسری جانب لبنان اور لیبیا میں القاعدہ کی مدد بھی کررہا ہے جو معصوم لوگوں کا قتل عام کررہی ہے۔ کال ٹیک یونیورسٹی کے پروفیسر اور سائنسی علوم کے ماہر ڈاکٹر ڈاگٹ گریب نے امریکی حکومت اور خفیہ اداروں کا بھانڈا پھوڑتے ہوئے کہا کہ نائن الیون کے حملے اندرونی جرائم تھے جن پر پردہ پوشی کے لیے دنیا بھر میں آزادی اظہار رائے کو نہ صرف دبایا جارہاہے بلکہ قتل عام بھی کیا جارہا ہے ایک اور سائنسی ماہر الزبتھ وڈ ورتھ نے اس حوالے سے چند شواہد شائع کیے ہیں کہ امر یکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی اور ایسی ہی صلاحیتوں کے حامل دیگر اداروں نے نائن الیون حملوں کے شواہد کو چھپانے کے لیے انٹر نیٹ سسٹم جام کیا تاکہ کوئی ان تک رسائی حاصل نہ کرسکے۔

تجزیہ کاروں کااس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ سابق صدر جارج بش کی انتظامیہ نے گیارہ ستمبر کے دہشت گردانہ حملوں پر ضرورت سے زیادہ ردعمل ظاہر کیا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ اس وقت کی امریکی انتظامیہ میں حامیوں کے طور پر نئے قدامت پسندوں یعنی نیو کنزرویٹیوز کا اثر و رسوخ تھا جن میں نائب صدر ڈک چینی، پینٹاگون کے سربراہ ڈونلڈ رمزفیلڈ اور ان کے بیشتر ساتھی شامل تھے۔ ابھی لوئر مین ہٹن میں زمین بوس ہونے والی عمارتوں کی گرد بیٹھی بھی نہ تھی کہ نئے قدامت پسندوں نے صدر بش کی خارجہ پالیسی پر قبضہ جما لیا اور اسے ایک ایسی انتہاپسند راہ پر لے کر چل پڑے جس کا مقصد نہ صرف وسیع تر مشرق وسطٰی میں امریکی غلبے کو مستحکم کرنا تھا بلکہ عالمی طاقت بننے کا خواب دیکھنے والے ملکوں اور علاقائی حریف طاقتوں کو بھی ان کے عزائم سے باز رکھنا تھا۔

گیارہ ستمبر کے بعد اسامہ بن لادن اور القاعدہ کا ہوا کھڑا کیا گیا۔ القاعدہ کے دیگر رہنماؤں کو گرفتار کرنے اور افغانستان کی تعمیرنو کی بجائے بش انتظامیہ نے عراق کے خلاف جنگ کی تیاریاں شروع کر دیں۔ 2003ء میں عراق کے خلاف جنگ کو امریکی خارجہ پالیسی کا انتہائی تباہ کن فیصلہ تصور کیا جاتا ہے کیونکہ افغانستان میں القاعدہ کاوجود اور اس کی آڑ میں لاکھوں بے گناہ نہتے افغانیوں کے قتل کے بعد دنیا بھر کے کروڑوں مسلمانوں میں یہ احساس پیدا ہو گیا کہ امریکا کی جنگ اسلام کے خلاف ہے۔

خود امریکی تجزیہ نگار اس رائے کے حامی ہیں کہ القاعدہ جیسی شدت پسند تنظیم ایسے ممالک میں بنائی گئی جہاں جہادیوں کا نام و نشان تک نہیں ہوتا تھا اور اب داعش امریکا و برطانیہ کے ذہنی اختلاط سے پیدا ہوئی ہے۔ اس نئے عفریت کو امریکی صدر اوباما نے کینسر قرار د یا تھا۔ اوباما جنرل اسمبلی کو یہ بتاتے ہوئے کہ دنیا کو انتہائی مہلک اور نظریاتی طور پر خطرناک دہشت گردوں کا سامنا ہے، یہ بھول گئے تھے کہ مذہبی انتہا پسندی کے فروغ میں کوشاں شدت پسندوں کو جدید ہتھیاروں سے لیس کرکے عرب تحریکوں اور خطے کی سیکولر حکومتوں کو کمزور کرنے کے لیے تیار کیے گئے، انہی کی پیداوار ہیں۔ آج اگر بقول اوباما دنیا امن اور جنگ کے درمیان پھنسی نظر آتی ہے تو اس میں اصل قصور وار خود امریکی سامراج ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں