میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
زرداری نواز جنگ۔۔ایک سیاسی تماشہ

زرداری نواز جنگ۔۔ایک سیاسی تماشہ

ویب ڈیسک
بدھ, ۱۹ اپریل ۲۰۱۷

شیئر کریں

جب ہم کچھ نہیں کہتے تو پھر لوگ پوچھتے ہیں کہ خاموش کیوں ہو! اگرچہ لکھنے اور بولنے میں ہم خاموش تو نہیں رہ سکتے لیکن یہ محسوس کرتے ہیں کہ جس طرح بھینس کے آگے بین نہیں بجائی سکتی اور بنجر زمین میں بیج نہیں بوئے جاسکتے، بالکل اسی طرح ہمیں بھی کچھ بولنے اور لکھنے میں پریشانی اور مایوسی ہوتی ہے کہ ہماری سیاسی دنیا ان اندھیر راستوں پر آچکی ہے کہ سیاسی مسافروں کو خود بھی پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کدھر جارہے ہیں اور ان کے سیاسی سفر کی حقیقی منزل کس طرف ہے۔ اور ہمارا یہ کہنا درست اور سچ ہے کہ سیاست میں ہماری عقل اور بصیرت کام نہیں کرتی بلکہ ہماری زبان قینچی کی طرح چلتی ہے اور ہمارے سیاستدانوں کا یہ المیہ ہے کہ وہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ عوام وہ سب کچھ دیکھ رہے ہوتے ہےں جو وہ طرفہ تماشہ دکھارہے ہوتے ہیں اور یہ بھی نہیں سمجھتے کہ جن کی آشیر باد، محنت اور ضمیر کی آواز یعنی ووٹ سے اقتدار کی بلندیوں کو چھوتے ہیں وہ اُن کے خادم نہیں ہوتے اور نہ ہی مزارع کہ محکومیت کی زندگی بسر کریں، یہ حقیقت بھی اپنی سچائی تسلیم کراچکی ہے کہ جب ماضی کے سیاسی بچونگڑے مستقبل کے ہاتھی بن جاتے ہیں تو وہ آپس کی سیاسی جنگوں میں الجھ کر اپنے حقیقی مقاصد کو دفن کردیتے ہیں۔ اور اس میں بھی شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ عوام جو آج ان کے سیاسی کردار کا تماشہ دیکھ رہے ہوتے ہےں وہ کل پھر ان کو افلاطون کا مقام دے کر اُنہیں ایوانوں میں بھیجنے کی پرزور مشقت کرتے ہیں۔ بہر حال….
میاں نواز شریف وقت کے وزیر اعظم ہیں اور مسلم لیگ (ن) کے سربراہ بھی لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ وہ بھی ہمیشہ مصلحتوں کا شکار رہتے ہوئے وہ کچھ کر گزرتے ہیں جس کو نہیں کرنا چاہیے اور وہ کچھ نہیں کرتے جس کو کرنا چاہیے۔ آصف علی زرداری اگر میاں نواز شریف کی شفقت کے ہتھے نہ چڑھتے تو وہ کبھی صدارت کے منصب جلیلہ پر نہ آتے، اور یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اگر محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہادت نہ ملتی تو وہ شاید آج تک اقتدار میں ہی رہتیں اور زرداری لذت اقتدار سے آشنا بھی نہ ہوتے۔ دوسری جانب میاں نواز شریف سیاسی پریشانیوں کے سمندر میں غوطے کھارہے ہیں اور اگر پاناما کے فیصلے پر انہیں فاصلہ مل جاتا ہے تو پھر ان کے لیے اقتدا رکی رخصتی کی وہ خلیج ملے گی جس کو عبور کرنا ہمیں مشکل نظر آتا ہے اور یہ ہمیں نظر آرہا ہے کہ عمران خان کے سیاسی مقدر کو اقتدار کی پذیرائی ملے گی اور اگر عمران خان ایوان اقتدار میں گئے بھی تو شاید قدرت ان سے وہ کام لے ہی لے جس کی ضرورت یہ قوم طویل عرصہ سے محسوس کررہی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ قوم سیاسی، سماجی، معاشی اور خوشحالی کے جذبات سے محروم ہے اور کرپشن کے بازار میں عوام لٹ چکے ہےں اور اب ہمیں یہ کسی کے بس میں دکھائی نہیں دیتا کہ وہ حالات کی تبدیلی ایک دن میں کرپائے گا ،کوئی شہد کے کنویں نہیں کھدوائے گا اور نہ ہی دودھ کی نہریں بہائے گا ۔یہ راگ پھر الاپا جائے گا کہ کرپشن کے گند کو ایک دن میں صاف نہیں کیا جاسکتا۔ یہ وعدے کہ مسائل حل کرکے قوم کو نیا پاکستان دیں گے، دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ آصف علی زرداری میاں نواز شریف کو للکار رہے ہیں اور میاں نواز شریف شاید خود خاموش لیکن اپنے وزیروں سے وہ کام لے رہے جو کرائے کے لوگوں سے لیا جاتا ہے، اس کے باوجود ہم عوام کی اس رائے سے 100 فیصد اتفاق کرتے ہیں کہ قومی مقاصد کے تمام اصول اور قواعد ختم ہوچکے ہیں۔ یہ جو کچھ بھی ہورہا ہے یہ طرفہ تماشہ کے لیے دھینگا مشتی اور نوراکشتی کی جارہی ہے، یہ عوام کو دھوکا دیا جارہا ہے اور ماضی کے تمام تماشوں کو دھویا جارہا ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں