میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مساجد پر حملے، مسئلہ کیا ہے؟

مساجد پر حملے، مسئلہ کیا ہے؟

ویب ڈیسک
منگل, ۱۹ مارچ ۲۰۱۹

شیئر کریں

اگر غور نہ کیا گیا تو کرائسٹ چرچ میں دو مساجد پر حملے میں شہید ہونے والے مسلمانوں کا خون بھی رائیگاں جائے گا۔ پچاس سے زائد شہداء کا خون چہرۂ مغرب کے غازے کو دھوتا ہے مگر ہماری آنکھیں دیکھتی نہیں۔ اور کچھ نہیں مسلم امہ فکرِ صحیح سے محرومی کے عذاب میں مبتلا ہے۔ مغرب میں اسلامو فوبیا ایک مسئلہ ہے مگر زیادہ بڑا مسئلہ نہیں۔ او آئی سی کا اجلاس مسئلے کے درست تعین کی کوشش کرے تو مغرب کے خلاف ایک زبردست مقدمہ قائم ہو سکتا ہے۔سفاک دہشت گرد بریٹن ہیری سن ٹیرنٹ نے جو کچھ کیا وہ مغربی تہذیب کی نمائندہ اقدار کی حقیقی پیداوار ہے۔ آئیے اس تہہ دار موضوع کے مختلف سروں کر پکڑتے ہیں ۔
مسئلہ کی غلط لِم پکڑنے کا بحران ہر جگہ پر ہے۔ نیوزی لینڈ میں مسلمانوں کے خلاف کھلی دہشت گردی میں شہید ہونے والے مسلمانوں کی یاد میں ایک تعزیتی تقریب نیویارک یونیورسٹی میں منعقد کی گئی جس میں چیلسی کلنٹن نے شرکت کی۔جہاں ایک طالبہ نے اُنہیں کہا کہ نیوزی لینڈ میں پچاس افراد کی موت کے ذمہ دار اُن جیسے لوگ ہیں جو تشدد پر اُکسا رہے ہیں۔ نیویارک یونیورسٹی کے طلباء دراصل رکنِ کانگریس الہان عمر پر کلنٹن کی تنقید سے خفا تھے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ چیلسی پر طلباء کی تنقید کے بعد امریکی صدر کے بیٹے ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر میدان میں کود ے اور اُنہوں نے کہاکہ ’’جو لوگ چیلسی کی بات نہیں سمجھ رہے وہ مسئلے کی وجوہات میں سے ایک ہیں‘‘۔ یہ بتانے کی ضروت نہیں کہ چیلسی اور ٹرمپ جونیئر دو مختلف جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ٹرمپ کے بیٹے نے جو فقرہ کہا اُ س کی تفہیم کے لیے خود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک ٹوئٹ سے رجوع کرنا پڑے گا جو اُنہوں نے بعد میں حذف (ڈیلیٹ) کیا۔دنیا کے سب سے طاقت ورامریکی صدر نے مساجد پر دہشت گردی کے فوراً بعد ٹوئٹ کیا جس میں مسلمانوں پر ٹوٹنے والی اس قیامت کے حوالے سے کوئی تعزیت یا اظہار افسوس نہیں کیا گیا بلکہ محض ایک ربط(لنک) بانٹا(شیئر) گیا جو دراصل اس دہشت گردی کو بالواسطہ ایک جواز مہیا کرتا تھا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے مذکورہ ربط کو حذف کرنے کے باوجودنیوزی لینڈ سے اظہارِ یکجہتی اور اس دہشت گردی کی مذمت میں دس گھنٹے کی تاخیر کی۔ یہ تاخیر بلاوجہ نہیں تھی۔ اس تاخیر کے باوجود جب صدر ٹرمپ سے ایک سوال پوچھا گیا تواُنہوں نے دہشت گردوں کو ایک مرتبہ پھر کسی جواز کی چھتری میں لینے کی کوشش کرتے ہوئے جواب دیا کہ ’’یہ چند لوگوں کا ایک گروپ ہے جسے سنجیدہ مسائل درپیش ہیں‘‘۔حیرت انگیز امر یہ ہے کہ نیوزی لینڈ کی مساجد میں پچاس مسلمانوں کا بہتا خون اُنہیں کوئی سنجیدہ مسئلہ نہ لگا ، مگر دہشت گرد کے مسائل اُنہیں معلوم تھے۔ کیونکہ یہ اُس دہشت گرد کے نہیں کل مغرب کے ’’مسائل‘‘ ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ اسی بنیاد پر صدر منتخب ہوئے۔اس کی وضاحت آگے کریں گے۔
نیویارک یونیورسٹی کے طلباء کے ردِ عمل کی طرف واپس پلٹیں!چیلسی کو طلباء نے اپنے شعور کی آخری حد کے بلاشبہ اخلاص سے پکارا کہ تم جیسے لوگ تشدد پر اُکساتے ہیں۔ یہیں ٹہر کر ہمارے ایک انتہائی محترم دوست اور ابلاغیات کے استاد سلیم مغل صاحب کی سماجی ذرائع ابلاغ کی دیوار کا نوشتہ پڑھتے ہیں:
’’جو لوگ کمپیوٹرپہ اینیمیٹڈ شوٹنگ گیمز دیکھتے ہیں، وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ چند سال قبل اسا مہ بن لادن اور دیگر
مسلمانوں کے خلاف جو جارحانہ گیمز اپ لوڈ کیے گئے تھے، ان پر بہت کچھ لکھا گیا۔ خود میں نے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی
اسلام آباد کے ایک سیمینار میں اس موضوع کو اپنے مقالے کا حصہ بھی بنایا۔یہ محض گیمز نہ تھے بلکہ زہریلے پروپیگنڈے کی
منظم اور مربوط کوشش تھی۔ جب کوئی غیر مسلم بچہ اپنے مسلمان دشمن کو اسکرین پہ اپنی گن سے مارتا ہے تو دراصل اس لمحے وہ
اپنے ذہن میں مسلم دشمنی یا مسلم نفرت کو مستحکم کرلیتا ہے۔ نیوزی لینڈ کا سانحہ بھی مجھے ایسا ہی سانحہ لگتا ہے جس کے ڈانڈے کسی
ڈیجیٹل گیم سے جڑے نظر آتے ہیں۔کیمرہ پلیسنگ، بھاگنے کا انداز ، فریم ان شوٹنگ گن، شوٹنگ کا انداز، ایڈونچر ازم ۔۔ اس
ویڈیو کا ایک ایک فریم ڈیجیٹل گیم کی طرح لگتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس سفاک قاتل نے بنیادی تحریک کہیں سے بھی لی ہو،
ایڈونچر کا انداز کسی گیم ہی سے اخذ کیا ہے۔ مجھے اپنے دوستوں خصوصاً قلم کاروں سے کہنا ہے کہ وہ کم ازکم اتنا تو کریں کہ بچوں
اور نوجوانوں کی سائیٹس سے تشدد پر مبنی مواد ہٹانے کے لیے ضرور کچھ نہ کچھ لکھتے رہیں۔ سانحہ کرائسٹ چرچ پر ہمارا ردِ عمل
دنیا بھر کے بچوں کی اصلاح تو ہوسکتا ہے مگر نفرت کا اظہار ہر گز نہیں ہوسکتا‘‘۔
نیویارک یونیورسٹی کے طلباء بھی یہی سمجھ رہے ہیں کہ یہ کارروائی کسی اُکساہٹ کا نتیجہ ہے۔ جبکہ سلیم مغل صاحب نے بھی ایک نئے اور انتہائی مربوط پہلو کے ساتھ اسی نکتے کو اجا گرکیا ہے۔مگر مغرب کی دہشت گردی کی آب وہوا کے حقیقی محرکات ویڈیو گیمز اور سیاسی رہنماوؤں کے بیانات سے کہیں زیادہ گہرے اور خطرناک ہیں۔یہ پہلو اس نفسیات کو تقویت ضرور دیتے ہیں مگر حقیقی اور حتمی بنیاد کی حیثیت نہیں رکھتے۔ مغرب کی دہشت گردی کے پیچھے منظم قومی، تاریخی، مذہبی ، نسلی ،سیاسی ، معاشی اور نفسیاتی محرکات ہیں۔ جنہیں اس موقع پر اچھی طرح تولنے، ٹٹولنے، کھولنے اور کھنگالنے کی ضرورت ہے۔
درحقیقت مغرب ایک برترنسلی تفاخر کے ساتھ دنیا پر اپنا تسلط رکھتا ہے۔ مغرب ایک مذہب ہے، جس کے عقائد’’ آزادی‘‘ اور ’’ انسانی حقوق‘‘ ہیں ۔ اس مذہب کے پیروکار’’ ترقی ‘‘کو حقیقی کامیابی اور مساوات کو اس کی روحانیت باورکراتے ہیں۔ یہ سب جدید دھوکے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ مسلمانوں کو اپنی علمیات سے’’ آزادی‘‘،’’ انسانی حقوق‘‘، ’’ترقی‘‘ اور ’’مساوات‘‘ کے تصورات کا درست سیاق وسباق میں محاکمہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بجائے تمام مسلم دنیا کے علماء وفقہا اپنی اپنی قومی ریاستوں کی تحویل میں جاکر اسلام کے جہانی اور آفاقی تصور سے دستبردار ہو گئے ہیں اور عملاً مغرب کے ان تصورات کے یر غمال بن کر اس میں اسلامی پیوند کاری کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ سمجھے بغیر کہ یہ تصور ات اپنی علمی نہاد میں دراصل کیا اور کتنے بہیمانہ ہیں؟ ایک اوپرے اوپرے تصور کی سطحی تعبیرات میں دلائل کی لذت کے ساتھ بروئے کار آنے والا متجددیدینِ اسلام کا علمی طبقہ مکمل طور پر خود کو مغرب کے چنگل میں پھنس چکا ہے اور اسلام کی حقیقی تعلیمات میں گہرائی پیدا کرنے کے بنیادی کام کو مدتوں سے ترک کرتا جارہا ہے۔ ترقی کا منتر ہی ایسا ہوتا ہے کہ یہ آدمی کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو سلب کرلیتا ہے اور اُس سے ایسے دلائل ایجاد کرواتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
اس بات کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مغرب اپنے ہاں آنے والے تمام دوسرے نسلی گروہوں کو (جن میں مسلمان بڑے پیمانے پر شامل ہیں) دراصل ’’درانداز‘‘ سمجھتا ہے۔ مگر صنعتی انقلاب کی مجبوریوں اور اپنی معاشرتی کمزوریوں سے انہیں’’گوارا‘‘کرتا ہے۔ اب یہ نسل بشمول مسلمان اگلی تین چار دہائیوں میں مغرب کا توازن بدلنے کی صلاحیت حاصل کرتے جارہے ہیں۔ اس کے باوجود کہ اس نسل نے اسلام کی حقیقی تفہیم حاصل نہیں کی ،مگر پھر بھی مغرب اُنہیں اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ یہ خطرہ کچھ اس نوع کا نہیں کہ یہ مغرب کے وسائل پر قابض ہو جائیں گے، یا پھر یہ سیاسی قوت حاصل کرلیں گے۔ یہ اس سے زیادہ گہرے خطرے کے طور پر اُنہیں دیکھتے ہیں۔ مغرب اس خطرے کو کیسے دیکھتا ہے؟ یہ سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ مغرب اپنے آپ کو کیا سمجھتا ہے؟ اور یہ کہ آج کا مغرب دراصل کیا ہے؟(جاری ہے)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں