میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
تحریکِ انصاف میں ’’ٹارزن کی واپسی ‘‘

تحریکِ انصاف میں ’’ٹارزن کی واپسی ‘‘

ویب ڈیسک
منگل, ۱۹ مارچ ۲۰۱۹

شیئر کریں

تیرہ مارچ کی صبح وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی ملاقاتوں کے شیڈول میں اپنے ہمدمِ دیرینہ سیف اللہ خان نیازی سے ملاقات بھی شامل تھی ۔ ایوانِ اقتدار کے نئے ’’بیر بلوں ‘‘ میں اس ملاقات کے بارے میں غیر ضروری تجسس پایا جارہاتھا ۔ تاہم یہ طے تھا کہ آج وزیر اعظم کی جانب سے پارٹی کے حوالے سے کوئی اہم اقدام متوقع ہے ۔ سارا تجسس اور امکانات ایسے غیر ضروی بھی نہیں تھے ، کیونکہ شاعر کے ساتھ ساتھ داناؤں کا بھی یہی کہنا ہے کہ
اے ذوق کسی ہمدمِ دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقاتِ مسیحاو خضر سے
ملاقات کے اختتام پر پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کے دستخطوں سے جاری ہونے والے نوٹیفکیشن کے مطابق سیف نیازی چاروں صوبوں ، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان ، وفاقی دارلحکومت اور بیرونِ مُلک پارٹی کی تنظیم سازی ، پارٹی آئین کی ازسرِ نو تدوین کے ذمہ دار ہونے کے ساتھ ساتھ پارٹی کو آئندہ پارلیمانی اور بلدیاتی انتخابات کے لیے تیار کرنے کے ذمہ دار بھی قرار پائے۔ نوٹیفکیشن کے آخری پیراگراف میں عمران خان نے سیف نیازی کو پارٹی کا سب سے سینئر ممبر قرار دیتے ہوئے ان کی کامیابی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار بھی کیا ہے۔
چند گھنٹوں میں ہی نوٹیفکیشن سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا ۔ چاروں صوبوں ، آزاد کشمیر ، گلگت بلتستان ، اور بیرونِ مُلک پاکستانیوں میں یہ ’’ اعلامیہ ‘‘ بادِ بہار کے جھونکوں کی طرح عام ہوا ۔ ہر سو ایک دوسرے کو مبارکبادیں دی جانے لگیں ۔ پارٹی کے سینئر وائس چیئر مین شاہ محمود قریشی نے سیف اللہ نیازی کو مبارکباد کا پیغام دیا ۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے پی ٹی آئی کے کارکنوں کی کوئی دیرینہ دلی خواہش پوری ہو گئی ہو ۔پشاور سے پی ٹی آئی کے مشکل وقت کی ساتھی اور کوہساروں جیسا بُلند عزم رکھنے والی خیبر پختونخواہ کی آبرو مند بیٹی فرزانہ زین ، وزیر ستان سے عمران وزیر، محترمہ فلک ناز چترالی ، بلوچستان سے دوستوں کی بڑی تعداد نے پی ٹی آئی کے بہی خواہوں کو مبارکیں دینے کا سلسلہ شروع کر دیا ۔ جوش و خروش کی بازگشت صحافتی دنیا میں بھی سُنائی دینے لگی ۔ یقیناًاس مرحلے پر درویش صفت دوست اور مہربان ملک ادریس عزیز بھی شاداں ہوئے ہوں گے ۔
دفعتاً میری آنکھوں میں دوسال قبل سیف نیازی کی دعوتِ ولیمہ کے مناظر در آئے ۔ ایک منظم ہجوم سیف نیازی سے گلے مل مل کر بے حال ہو رہاتھا ۔ مُلک بھر سے آئے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں ، کارکنوں اور دوستوں میں اس انداز سے گھرے ہوئے تھے کہ عمران خان اُس وقت کے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ پرویز خٹک ، جہانگیر خان ترین، شاہ محمود قریشی اور دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پہنچے ۔ کافی دیر اس تقریب میں رہے۔ سیف نیازی انہیں خوش آمدید کہنے کے بعد مہمانوں کے سمندر میں ایسے گُم ہوئے کہ دوبارہ عمران خان تک نہ آسکے ۔ وہ منظر کسی کو نہیں بھولے گا جب عمران خان نے اُن سے موبائل فون کے ذریعے جانے کی اجازت طلب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ سیف شادی بھی مبارک ہو اور جلسہ بھی ‘‘۔۔۔۔۔۔۔
اپریل 1996 ء میں پاکستان تحریکِ انصاف کے قیام کے ساتھ ہی امریکا کو خیر باد کہہ کر سیف نیازی پاکستان آکر عمران خان کے ہو گئے تھے ۔ ایک جوانِ رعنا تھے اپنا سب کُچھ داؤ پر لگا کر عمران خان کے سیاسی وژن کو بروئے کار لانے کے لیے میدانِ عمل کا حصہ بنے ۔ دن رات اپنے کپتان کی جماعت کو منظم کرنے کے لیے مُلک بھر میں پھیلے ہوئے کارکنوں سے رابطوں میں رہنے لگے۔ دوست احباب حتیٰ کہ خاندان والے شادی کے لیے اِصرار کرتے تو سب کو یہی جواب ملتا تھا کہ جب تک عمران خان وزیر اعظم نہیں بنیں گے ، میں شادی نہیں کروں گا ۔
2013 ء کے عام انتخابات کے لیے ٹکٹوں کی تقسیم کے موقع پر پارلیمانی پارٹی کے تھکا دینے والے اجلاسوں میں عمران خان کے نظریئے کے مطابق سچے اور بے ریا ورکرز کے لیے لڑتے رہے۔ خیبر پختونخواہ میں پارٹی کے ایسے لیڈورں کے سامنے چٹان کی طرح کھڑے ہوئے جو عمران خان کے نظریئے کے بجائے اپنے گروپ کی سیاست کو پروان چڑھانا چاہتے تھے۔ 2018 ء کے عام انتخابات سے قبل مرکزی اور صوبائی پارلیمانی بورڈوں کے اجلاسوں میں اُن کی کمی کو شدت سے محسوس کیا گیا ۔ خیبر پختونخواہ میں ٹکٹوں کی تقسیم خاص کر صوبائی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی تقسیم میں پرویز خٹک ، اسد قیصر اور شاہ فرمان وغیرہ کی من مانیوں کی فتح بھی اسی لیے ممکن ہوئی کہ پارٹی میں کپتان کا روزِ اول کا یہ ساتھی موجود نہیں تھا ۔ ورنہ پارٹی کے دیرینہ کارکنوں کی اس انداز سے دل شکنی نہ ہوتی اور نہ ہی پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے نارتھ زون، ساؤتھ زون اور سینٹرل زون میں ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے اس طرح سے تحفظات کا شکار نظر آتے ۔
جولائی 2018 ء کے عام انتخابات کے بعد جب مرکز اور دو صوبوں میں پی ٹی آئی کی حکومتیں قائم ہوئیں تو پی ٹی آئی کے وہ کارکن جو منتخب نمائندوں سے ہٹ کر پارٹی کے نظریئے سے وابستہ تھے خود کو اس انداز سے تنہا محسوس کرنے لگے کہ مایوسی کے سائے گہرے ہو رہے تھے ۔ ارشد داد کو پارٹی کی جنرل سیکرٹری شپ ملی تو وہ وزراء اور ارکان اسمبلی کے قریب ہو گئے ۔ پارٹی کے تنظیمی اُمور کو انہوں نے ارکانِ پارلیمنٹ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ۔ مختلف وزارتوں ، ڈویژنوں اور اداروں کے صوابدیدی عہدوں پر تعیناتی کے لیے افراد کی تقرری کے لیے موصولہ سفارشات بھی شفافیت سے محروم نظر آئیں ۔ نچلی سطح پر اضلاع میں زکوۃ و عشر کمیٹیوں ، بیت المال کے چیئرمینوں ، مارکیٹ کمیٹیوں سمیت مختلف عہدوں پر تعیناتیوں کے لیے کارکنوں اور اہل افراد کی تقرری معدوم دکھائی دینے لگی تھی ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ آنے والے بلدیاتی انتخابات کا مرحلہ بھی درپیش ہے جس کے لیے پارٹی قائد کو اپنے منشور اور وژن کو بروئے کار لانے کے لیے ایک مضبوط ضمانت کی ضرورت ہے ۔ جو صرف اور صرف سیف اللہ نیازی کی صورت میں ہی ممکن تھی ۔ سیف نیازی کے لیے پارٹی میں اُن حلقوں کی مخالفت بھی موجود ہے جو اپنی روایتی سیاست کو دوام بخشنے کے لیے پارٹی کا حصہ بنے ہیں یا جن کی نظر ٹکٹ سے آگے دیکھنے کی بصری طاقت سے محروم ہے۔
سیف نیازی کو پارٹی کی کمان سونپنے کے کپتانی فیصلے اور اقدام کا بہت پُر جوش انداز میں خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔ وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کے معروف بلیو ایریا میں واقع پارٹی کے مرکزی دفتر میں مبارکباد دینے والوں کی بھیڑ ظاہر کرتی ہے کہ پارٹی کے حقیقی لوگوں میں سیف اللہ نیازی کلیدی مقام کے حامل ہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سیف نیازی کو کپتان کی طرف سے دیے گئے مینڈیٹ کے مطابق کام کرنے دیا جاتا ہے یا روایتی قوتیں ماضی کا کھیل دُہرانے کی کوشش کریں گی ۔دیکھتے ہیں کہ اُونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے !!


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں