میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سندھ کپتان کا میدان

سندھ کپتان کا میدان

منتظم
پیر, ۱۹ مارچ ۲۰۱۸

شیئر کریں

آصف علی زرداری اور سندھ میں صوبائی حکومتوں کے تسلسل نے اندورنِ سندھ اینٹی زرداری قوتوں کو طاقت فراہم کی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان تحریک انصاف ٹکٹوں کی تقسیم کے مراحل خوش اُسلوبی سے طے کر لیتی ہے اور عام انتخابات کا دن اس منظم اندازسے گزارتی ہے کہ اُس کے کارکن ہلہ گُلہ میں مصروف رہنے کی بجائے اپنے ووٹرز کو پولنگ اسٹیشن پر لانے میں کامیابی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ بیلٹ بکس کی حفاظت بھی کر پاتے ہیں تو پھر کسی کو بھی 2013 ء کے عام انتخابات کی تاریخ دُہرانے کی جرأت نہیں ہوگی ۔

شہری علاقوں میں آج کی ایم کیو ایم کی ’’سانجھے کی ہنڈیا ‘‘ اب شاید ہی دوبارہ چولہے پر چڑھ سکے ۔ اُس کا ووٹر پریشان ہی نہیں مایوسی کی حدوں سے بھی گزرنے والا ہے۔ دوسری جانب ایسا لگتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے آئندہ انتخابات کے حوالے سے کچھ زیادہ اُمیدیں باندھنے کے اشارے بھی نہیں دیے ہیں ۔ بلاول بھٹو زرداری کو عام انتخابات میں پنجاب سے کسی محفوظ حلقے کی تلاش میں ابھی تک کامیابی نہیں ہوئی ۔ اس صوبے میں مقابلہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان تقریباً طے پا چُکا ہے ۔ ایم ایم اے سمیت دیگر جماعتوں کی انتخابی مہم کے خدوخال ابھی تک واضح نہیں ہو پائے ۔

خیبر پختونخواہ میں کپتان مطمئن ہے ۔ ساری مہم پرویز خٹک کے حوالے کی ہوئی ہے ۔ پرویز خٹک اگر عمران خان کے حکم کے مطابق سینٹ انتخابات میں ووٹ کی قیمت وصول کرنے والے ایم پی ایز کے خلاف کارروائی کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پختونخواہ میں ’’ سونامی ‘‘ کے آگے بند باندھنا ناممکن ہوجائے گا۔ لہذا ضروری ہے کہ عمران خان اپنے احکامات پر عملدرآمد کے لیے پرویز خٹک پر سخت چیک رکھیں ۔

اپنے سابقہ دورہ کراچی کے موقع پر عمران خان نے شہر قائد سے الیکشن لڑنے کاجو اعلان کیا تھا وہ سیاسی اور عوامی حلقوں میں دلچسپی کے ساتھ زیر بحث ہے۔ اس حوالے سے تجزیہ نگاروں اور شہریوں کی اکثریت کی جانب سے پاکستان تحریک ِ انصاف کے لیے اُمید کے در کھلے ہوئے اور وسیع قرار دیے جا رہے ہیں ۔ امکان کی روشنی اگر کسی وجہ سے معدوم ہوتی نظر آتی ہے تو وہ کراچی میں پی ٹی آئی کی مقامی قیادت ہے۔ بلا شبہ ان میں سے اکثریت گزشتہ بیس سالوں سے عمران خان کی جدوجہد کی ساتھی ہے ۔ ان کی عمران خان سے وابستگی میں کوئی کلام نہیں لیکن یہ اُن امکانات سے فائدہ اُٹھانے میں ناکام نظر آتے ہیں جو عمران خان کی شخصیت کے سحر اور کراچی کے شہری علاقوں میں ان کے لیڈر کے لیے لوگوں کے دلوں میں موجود محبت کی وجہ سے سامنے ہیں ۔ متمول حضرات کے اس گروپ نے نہ تو صحیح اور درست طریقے سے عوام سے رابطہ رکھا ہے اور نہ ہی یہ حضرات سندھ کی سیاست کے اسٹیک ہولڈرز سے اپنے مضبوط روابط استوار کر پائے ہیں۔

پیپلز پارٹی کی جڑیں اندرون سندھ گہری ضرور ہیں لیکن ’’ شاہ ِمفاہمت ‘‘ سے اختلاف کا عنصر اپنے بھر پور تاثر کے ساتھ مضبوط ہے ۔ اندرون ِ سندھ میں غوث بخش مہر خاندان، سابق وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا ور سابق اسپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا،شکار پور سے تعلق رکھنے والے آغا تیمور سمیت سابق نگران وزیر اعظم غلام مصطفی جتوئی کا خانوادہ اور جی ڈی اے ایسی قوتیں ہیں جن سے پاکستان تحریک انصاف کو مناسب تعاون مل سکتا ہے ۔ ممتاز بھٹو جو لاڑکانہ کے جلسے کی وجہ سے ناراض ہیں ان کی تالیف ِ قلب زیادہ مشکل نہیں ہے۔ اب تک سندھ کے اندرونی معاملات میں عمران خان نے اپنے وائس چیئر مین شاہ محمود قریشی پر انحصار کیاہے ۔ مخدوم زادے کی سیاسی بصیرت ، دائرہ کار اور روابط کی وسعت سے انکارنہیں کیا جا سکتا ۔ لیکن شاہ صاحب دوسروں کو اپنی گرفت میں رکھنے کے لیے کسی زیادہ تردد کے قائل نہیں ہیں ۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کسی دوسرے کو ناراض ہونے کا موقع دینے سے پہلے خود یہ Chance Avail کر لیتے ہیں ۔

پاکستان تحریک انصاف میں عمران خان وہ واحد ہیں جنہوں نے اپنے اُصولوں کو سختی سے سینے سے لگایا ہوا ہے۔ انہیں خود سمیت کسی دوسرے کے ٹکٹ کا کوئی لالچ نہیں ہے۔ لیکن پارٹی کے زیادہ تر لیڈر اپنے پاؤں میں مختلف زنجیریں رکھتے ہیں کسی کو اپنے بیٹے اور حلقے کی فکر کھائے جا رہی ہے کوئی اپنا گروپ فعال کرنا چاہتا ہے تو کوئی اپنی ذات اور انا کا اسیر ہے ۔ اس قسم کے معاملات عمران خان کے آبائی علاقے میں بھی درپیش ہیں ۔ نارتھ پنجاب کی قیادت نے ضمنی انتخابات کے لیے جتنے بھی ٹکٹ جاری کیے تھے ۔ شکست ان کا مقدر ٹھہری ۔ کسی ایک ٹکٹ کا بھی تجزیہ کیا جائے تو ؑElectable کے لحاف میں مختلف کہانیاں ملفوف نظر آتی ہیں ۔ عمران خان کو ہر بار دھاندلی کی ایک نئی کہانی سُنا کر بظاہر مطمئن کر لیا جاتا ہے،لیکن کپتان سے واقف جانتے ہیں کہ کپتان کسی کو خود دھوکا نہیں دیتا اور اگر کوئی اُسے دھوکا دینے کی کوشش کرے تو اُس کے دماغ میں ایک ’’ الرٹ ‘‘ خود بخود محسوس ہو جاتا ہے ۔ اُس کی ایک سب سے بڑی خوبی یہ کہ وہ پاکستان کے تمام سیاستدانوں میں واحد ایسا ہے جس کے رابطے اپنے کارکنوں اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ بہت گہرے ہیں ۔ پارٹی کی کور کمیٹی ہو یا مختلف زونوں کی قیادت کے اجلاس ان میں سب سے زیادہ باخبر شخصیت عمران خان ہی ہوتے ہیں ۔

عام انتخابات کے نزدیک ہونے کی وجہ سے اُمیدواروں کی لمبی لائنیں ہیں جو شرف باریابی کی منتظر ہیں ۔ نئے آنے والوں کا سب سے بڑا مقصد انتخابی ٹکٹ کا حصول ہے ۔ ٹکٹ کے بہت سے اُمیدوار ایسے بھی ہیں جو عمران خان تک رسائی رکھنے والوں کو ترغیبات اور لالچ بھی دے رہے ہیں ۔ ہماری قومی سیاست میں عمران خان ہمیشہ سے انمول رہا ہے اب تک کوئی اُس کی قیمت نہیں لگا سکا ۔ سابقہ انتخابات میں اُس کو اندھیرے میں رکھ کر پارٹی ٹکٹ فروخت کیے گئے تھے ۔ ایسا کرنے والے کون تھے اور انہوں نے کہاںکہاں ٹکٹ فروخت کیے اس کی تمام کہانی عمران خان کو معلوم ہے بالکل اِسی طرح جس طرح سینیٹ کے حالیہ انتخابات میں پارٹی اعتماد کے خائنوں کی کہانی سُن کر انہوں نے ملوث ارکان کے خلاف فوجداری کارروائی کرنے کا حکم دیتے ہوئے آئندہ ٹکٹ نہ دینے کا اعلان کیا ہے۔

پاناما کیس سے کچھ فرصت ملنے اور سینٹ کے انتخابات سے فراغت کے بعد پارٹی قیادت اور عمران خان انتخابی مہم کا آغاز کرنے والے ہیں ۔ ٹکٹوں کی تقسیم کا کٹھن مرحلہ درپیش ہے۔ عمران خان نے میرٹ پر ٹکٹ دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس اعلان کا ان کی پارٹی کے ملک بھر میں پھیلے ہوئے کارکنوں کی اکثریت نے خیر مقدم کیا ہے ۔ عمران خان کے عزم اور ارادے ہر قسم کے شک و شُبہ سے بالاتر ہیں ۔ اب پارٹی کے پارلیمانی بورڈ اور مختلف صوبائی اور زونز کی قیادت پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی خواہشات اور ترجیحات میںپارٹی کا مفاد سر فہرست رکھیں ۔ اپنی اپنی اولادوں ، دوستوں اور بزنس کلب کی کامیابی کے لیے عمران خان کی مقبولیت کا سہارا لینے کی بجائے پارٹی ٹکٹوں کی میرٹ پر تقسیم کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کریں ۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں عمران خان کو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا بلکہ ان کا اپنا مستقبل تاریک ہوجائے گا ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں