
معلومات تک رسائی ممکن یا ناممکن!
شیئر کریں
میری بات/روہیل اکبر
معلومات تک رسائی یہ ایسا قانون ہے جس کی بدولت ایک عام شہری درخواست دے کر اپنی مطلوبہ معلومات حاصل کرسکتا ہے لیکن اس قانون پر کتنا عمل ہو رہا ہے، اس حوالے سے ٹی ڈی ای اے اور فافن نے پاکستان میں اطلاعات تک رسائی کے متعلق( آر ٹی آئی ) پر پوزیشن پیپر جاری کردیا ہے، ان کی یہ رپورٹ بھی فارم47کی طرح کمال کی رپورٹ ہے۔ ایسی ایسی ہوشربا اور قابل اعتبار کہانیاں پڑھ کر عام شہری کی بھی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں ۔جب سے پیکا آیا ہے تب سے ہر کوئی دبے پائوں ہی کوئی نہ کوئی بات کررہا ہے۔ کیونکہ کھل کر بات کہنے اور کرنے کا وقت اب گزر چکا ہے ، کرپشن اور چور بازاری ویسے بھی احتیاط اور بغیر ثبوت کے ہی کی جاتی ہے جس نے لوٹ مار کرنی ہو وہ لکھ پڑھ کرتو کرتا نہیں لیکن اس کے بڑھتے ہوئے اثاثوں سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ مال مفت کافی تعداد میں ملنا شروع ہو چکا ہے لیکن ثبوت کوئی نہیں۔اس لیے اس پر بات بھی کوئی نہیں اور جو لوگ معلومات تک آسان رسائی کے قانون سے واقف ہیں ،وہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ یہ کتنی آسان ہے جو جواب دنیا تو درکنار ان درخواستوں پر نظر ڈالنا بھی گوارا نہیں کرتے ۔ان سے جواب لینا کتنا مشکل ہے اور تو اور یہاں پر تو اراکین اسمبلی کو جواب نہیں ملتا۔ اگر کئی سالوں بعد خوش قسمتی سے جواب آبھی جائے تو اس سے مذکورہ رکن اسمبلی مطمئن نہیں ہوتا ۔ہمارے ہاں تعلیم کی بھی شدید کمی ہے جس کی وجہ سے عام شہری اداروں کے چکر بھی نہیں سمجھ پاتا اور جو اپنے آپ کو پڑھے لکھے تصور کرتے ہیں وہ بھی کسی کام کے نہیں۔ ہمارے بے شمار پی ایچ ڈی ڈاکٹرز ہیں ان سے کہیں بڑھ کر پروفیسرز اورا سکالرز ہیں جو صرف اور صرف سرکار سے تنخواہیں اور مراعات لے رہے ہیں ۔ان کی قوم یا ملک کے لیے خدمات مجھے تو سمجھ میں نہیں آتی اگر فافن اس حوالہ سے بھی ایک رپورٹ تیار کردے کہ ہسپتالوں میں پروفیسر ڈاکٹرز اور باقی اداروں بالخصوص تعلیمی اور تحقیقی اداروں میں بیٹھے ہوئے پی ایچ ڈی ڈاکٹرز کیا کیا مراعات لے رہے ہیں، ان کے ذمہ کام کیا ہے اور ان پر حکومت کا کتنا خرچہ آتا ہے، انہیں ڈاکٹر یا پروفیسر بنانے تک اور پھر جب وہ پروفیسر یا ڈاکٹر بن کر اداروں میں بیٹھتے ہیں تو عام لوگوں کے ساتھ انکا رویہ کیسا ہوتا ہے، ویسے تو ہمارے ہر ادارے کے ہر ملازم پر تحقیق ہونی چاہیے کہ جو کام ان کے ذمہ ہے وہ کس حد تک اس پر عمل کرتے ہیں اور ہمارے ہاں تعلیم کا حصول کیا ہے نوکری کے لیے یا علم میں اضافہ کے لیے ویسے ہمارے ہاں اکثر پڑھے لکھے جاہل جیسے الفاظ بھی سننے کو ملتے ہیں، یہ کن کے بارے میں کہے جاتے ہیں اس بارے میں بھی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں تعلیم کا حصول کتنا مشکل اور ناممکن ہے یہ تو سبھی جانتے ہیں اور جو اس مشکل اور ناممکن کام کو مکمل کرکے نوکریوں پر لگ چکے ہیں،وہ مزید کسی مشکل میں پڑنے کی بجائے اسی شوق اور لگن سے کام میں مصروف ہو جاتے ہیں، جس طرح ان سے پہلے والے لوگ کرنے میں مصروف تھے دفتروں میں بیٹھ کر چائے کے کپ میں طوفان لانے والے ایک عام انسان کی زندگی میں آنے والے طوفان سے بے فکر ہوکر گپیں لگانے میں مصروف ہوتے ہیں تاکہ وقت پورا ہو اور وہ وہاں سے نکلیں دنیا میں ترقی اور عروج حاصل کرنے کا واحد راستہ تعلیم کا حصول ہے، تاریخ بتاتی ہیں کہ صرف وہی قومیں بام عروج تک پہنچتی ہیں جو علم و ہنر کو اپنا ہتھیار بناتی ہیں ہماری حکومتیں تعلیم کو ترجیح اول بنائیں معاشی ترقی اور عروج کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور علم کا حصول ناگزیر ہے جو قومیں تعلیم کو ترجیح نہیں بناتی وہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتی ہیں ،ہمارا المیہ ہے کہ برصغیر میں تاج محل جیسی عمارتیں بن رہی تھیں یورپ میں آکسفورڈ اور ہارورڈ جیسی یونیورسٹیاں قائم ہو رہی تھی۔ آج یورپ ترقی کے کمال پر ہے اور ہم پیچھے رہ گئے ہیں ،پیچھے بھی اتنا کہ اب ہمارا مقابلہ دنیا کے پسماندہ ترین ممالک کے ساتھ کیا جاتا ہے ،جہاں زبان پر تالے اور کانوں میں روئی ٹھونس رکھی ہے ۔ان سخت ترین حالات میں حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرنا کوئی معمولی کام نہیں اور میں فافن کی جرأت و بہادری پر ان کے تمام کارکنوں کو سلام پیش کرتا ہوں کہ نہ جانے انہیں معلومات تک رسائی کے حصول میںکیا کیا مشکلات درپیش آتی ہونگیں، لیکن اسکے باوجود وہ ڈٹے ہوئے ہیں، اس بار معلومات تک رسائی کے حوالہ سے جو انہوں نے رپورٹ جاری کی ہے وہ بھی بہت اہم ہے، اس رپورٹ کے مطابق موثر جمہوریت کا انحصار فیصلہ سازوں کو قابل احتساب بنانے والے باخبر شہریوں پر ہوتا ہے ، باخبر شہری ہی گورننس کے عمل میں عوام کی بامقصد شمولیت کا باعث بنتے ہیں ،شہریوں کو باخبر بنانے میں آر ٹی آئی مثالی ہے ، یہ ریاست و معاشرے میں رابطہ بناتا ہے، آر ٹی آئی سے جمہوری اداروں پر اعتماد بھی فروغ پاتا ہے، دنیا بھر میں ایسے حق کا ارتقاء ، جدید گورننس میں اس کی بڑھتی اہمیت کا عکاس ہے، آج دنیا کے 120 سے زائد ممالک میں یہ حق موجود ہے، پاکستان میں اسکی ابتداء 2002ء میں ایف او آئی آرڈیننس کے اجراء سے ہوئی، معلومات تک رسائی کے حق کو سال 2010ء میں دستور پاکستان میں بنیادی حق قرار دیا گیا۔
آئینی تقاضے کی بنیاد پر پہلے خیبر پختونخوا اور پنجاب نے 2013ء میں قانون سازی کی پارلیمنٹ نے 2017ء میں اسے وفاقی قانون کے طور پر نافذ کیا۔ سندھ نے 2017 اور بلوچستان نے 2021 میں اس کا نفاذ ہوا، معلومات تک رسائی کے حق کو آج بھی کئی چیلنجز درپیش ہیں، ان چیلنجز میں وسیع استثنیٰ ، بیوروکریسی کی جانب سے تاخیر اور سیاسی مداخلت شامل ہیں، یہ چیلنجز ان ممالک میں بھی ہیں، جہاں موثر باعمل قانونی فریم ورک موجود ہے۔ آر ٹی آئی قانون کی پریکٹس میں پاکستان دنیا کے زیادہ پروگریسو ممالک میں شامل ہے، اس کے باوجود پاکستان میں اس قانون پر عملدرآمد کمزور حالت میں ہے۔ فافن کے حالیہ جائزہ میں معلوم ہوا ہے کہ وفاقی ادارے اس قانون پر 42 فیصد عمل کررہے ہیں۔ پوزیشن پیپر میں آر ٹی آئی کے وفاقی قانون میں ترامیم و اصلاحات کی تجاویز بھی شامل ہیں، جس کے مطابق خامی اور غیر واضح ٹائم لائن کی وجہ سے معلومات کا فعال اجراء محدود ہے۔ قانون کے سیکشنز 5 اور 6 میں بہتری لائی جائے جبکہ قانون میں سرکاری اداروں کی محدود تعریف کی وجہ سے سپریم کورٹ ، آڈیٹر جنرل ، مشترکہ مفادات کونسل جیسے آئینی اداروں کو استثنی ملا ہوا ہے۔ انفارمیشن کمیشن کے کردار کو بھی بڑھا کر اپیلٹ فورم کی حیثیت ملنی چاہیے ،قانون کی سیکشن 5 اور 7 میں عدم موافقت کی وجہ سے معلومات کا اجراء محدود رہتا ہے۔ سیکشن 7 میں دئے گئے وسیع البنیاد استثنیٰ سے اس کے غلط استعمال کا اندیشہ بھی موجود ہے، سیکشن 7 میں وزارتوں کو بھی صوابدیدی اختیار دیدئے گئے ہیں اورانفارمیشن کمیشن پر حکومت کا کنٹرول اس کمیشن کی خود مختاری پر سوالیہ نشانہ ہے۔ فافن اورٹی ڈی ای اے نے آر ٹی آئی کے لیگل فریم ورک میں بہتری کیلئے 6 نکاتی اصلاحات تجویز دی ہیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اصلاحات کی تجاویز میں انفارمیشن کمیشن سے متعلق بھی مزید اقدامات تجویز کئے گئے ہیں۔ تجاویز میں آر ٹی آئی قانون سے متعلق وفاق اور صوبوں کی سطح پر یگانگت اقدامات بھی شامل ہیں ۔