میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ٹریفک پولس کی 90 چوکیاں ماہانہ 3 کروڑ کمائی کا ذریعہ

ٹریفک پولس کی 90 چوکیاں ماہانہ 3 کروڑ کمائی کا ذریعہ

ویب ڈیسک
پیر, ۱۹ فروری ۲۰۲۴

شیئر کریں

شہر میں غیر قانونی پارکنگ کے پس پردہ نظام کا پتہ لگا ہے ،شہر کے تمام ایس او ٹریفک پولیس کے ہیڈ کوارٹر آفس میں ماہانہ لاکھوں روپے کما کر دیتے ہیں ، شہر میں غیر قانونی پارکنگ میں بڑا ہاتھ بڑے افسران کا ہوتا ہے ۔ تفصیلات کے مطابق شہر میں غیر قانونی پارکنگ کے ذمہ دار ایس او نہیں بلکہ ڈی آئی جی کراچی ٹریفک پولیس انتظامیہ ہے جو ایس او لگنے والے امیدوار سے سیٹ حاصل کرنے کی خاطر تین سے پانچ لاکھ روپے کی رقوم نقدی کی صورت میں حاصل کرتے ہیں اور ڈی آئی جی کے نام پر ماہانہ کم از کم دو لاکھ روپے وصول کرتے ہیں۔ شہر میں ٹریفک سیکشن کی 90 ٹریفک چوکیاں موجود ہیں ،جہاں سے ڈی آئی جی ٹریفک کے آفس کو غیر قانونی پارکنگ سے ماہانہ تین کروڑ روپے سے زائد کی رقوم حاصل ہونے کا انکشاف ہوا ہے ،ایس او خاک غیر قانونی پارکنگ کا خاتمہ کروائیں گے چونکہ ان کو تو ماہانہ لاکھوں روپے دینے ہیں نہ دینے کی صورت میں اگلے ہی روز وہ ایس او نہیں رہتا ، گزشتہ ماہ تین لاکھ روپے دے کر ایس او پاکستان بازار لگنے والا نواز سیال ماہانہ دو لاکھ روپے بھی دینے کا پابند ہے ، جس کی حدود نیشنل بینک والی گلی میں ٹرپل لائن پارکنگ ،آئی آئی چندریگر روڈ کی فٹ پاتھوں پر غیر قانونی پارکنگ مافیا کا قبضہ ، ممتاز حسین روڈ غیر قانونی پارکنگ سے بھرے ہوئے ہیں ، کیا ان غیر قانونی پارکنگ کا خاتمہ ایس او کے ہاتھوں ممکن نہیں ہو سکتا ، شہر میں غیر قانونی پارکنگ کروانا ٹریفک سیکشن افیسر کی مجبوری ہے چونکہ اسے اپنی سیٹ بچانے کے لیے ماہانہ لاکھوں روپے دینے ہیں ، اسی طرح شہر کی نوے چوکیوں کے ایس اوز کو ماہانہ لے کر ٹریفک پولیس کے ہیڈ آفس میں حاضری کو یقینی بنانا ہوتا ہے ، شہر کیاہم شاہراہوں کے اطراف غیر قانونی پارکنگ اور ٹھیلے پتھارے لگوانا، سیکشن افیسرز مجبوریاں دیکھائی دینے لگے ، پریڈی سیکشن کے افیسر نے جرآت کو بتایا کہ ماہانہ لاکھوں روپے دینے ہوتے ہیں غیر قانونی پارکنگ نہیں کروائیں تو کیا کریں غیر قانونی پارکنگ کے خاتمے کا واحد حل رشوت سے پاک نظام ہے، جیکسن ٹریفک سیکشن کے زمے دار نے کہا کہ اگر ہمیں لاکھوں روپے نہ دینے پڑیں تو سڑکوں پر ٹریفک پانی کی طرح دوڑے، ٹریفک پولیس کے درجنوں افسران نے خود انکشاف کیا ہے کہ ہمیں ہیڈ آفس میں ماہانہ دو سے تین لاکھ روپے دینے ہوتے ہیں تو پھر ٹریفک سیکشن افیسرز ہی قصور وار کیوں ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں