میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
دُرونِ خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا؟

دُرونِ خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا؟

ویب ڈیسک
پیر, ۱۹ فروری ۲۰۲۴

شیئر کریں

مولانا فضل الرحمان کی پریس کانفرنس سے بارودی دھماکوں کا شور تھما نہ تھا کہ کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ کے انکشافات نے ایک محشر اُٹھا دیا ۔منصوبے خاک ہو رہے ہیں۔ فارسی ضرب المثل کے بمصداق ”مادر چہ خیالم و فلک در چہ خیال”۔ (ہم کس خیال میں ہیں اور آسمان کس خیال میں)۔ کمشنر راولپنڈی نے جو فرمایا قوم پہلے سے جانتی تھی۔ دھاندلی عوام کا اپنا مشاہدہ ہے۔ 2024 ء کے بارہویں قومی انتخابات عوام کے حق نمائندگی پر سب سے بڑی ڈکیتی ثابت ہوئے۔ اس پر زرق برق ورق چڑھانے سے اب کچھ نہ ہوگا؟
ملک بھر میں حقیقی اور جعلی نتائج کے درمیان ایک کشمکش شروع ہے۔ پاکستان کی دلدوز تاریخ میں آج تک جو نہ ہوا، ہو رہا ہے۔ طاقت کے مراکز پہلی دفعہ اپنا وقار و اعتبار کھو رہے ہیں۔ عوام، اشرافیہ کے خلاف غصے سے بھرے ہیں۔ کل تک دانشوروں کی ذہنی مشقت میں زیر بحث موضوعات اب ٹک ٹاک ، فیس بک اور ایکس ہینڈل پر لطائف کے ذریعے عامیوں میں پزیرائی پا رہے ہیں۔ یہ بائیس کروڑ عوام کے مسئلے ہیں، جنہیں چھ کروڑ نوجوان ووٹرز نے اپنی رائے سے آواز دے دی۔ سیاسی جماعتیں غیر متعلق ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ طاقت کے مراکز چھ دہائیوں سے دھوکے کی کامیاب بساط پر اپنی گرفت کو ڈھیلی پڑتے محسوس کر رہے ہیں۔ یہ سنبھلنے کا وقت ہے۔ مگر اشرافیہ تیار نہیں۔
8 فروری کو کیا ہوا؟ حقیقی نتائج میں پاکستان تحریک انصاف 175 نشستوں کے ساتھ سرفہرست رہی۔ ایم کیو ایم نے کراچی کے تمام حلقوں سے بدترین شکست کا سامنا کیا، یہاں تک کہ کسی بھی حلقے سے وہ ایک نشست بھی حاصل نہ کر سکی۔ اندرون سندھ میں انتظامیہ کی مدد سے خرید وفروخت کے ذریعے انتخابات جیتنے کی پرانی چال موثر نہیں رہی۔ تحریک انصاف کی آواز یہاں بھی پہنچ گئی۔ جی ڈی اے کے امیداوار اپنے پرانے حلقے واپس لینے میں کامیاب رہے، اکثر صوبائی نشستیں پیپلزپارٹی سے چھن گئیں۔ اوچھے پن کے ساتھ کراچی پر قبضے کی مہم میں غلطاں مصطفی کمال سمیت کوئی ایک امیدوار بھی دس ہزار ووٹ نہ لے سکا۔ بلوچستان میں انتخابات خریدے جانے کے باوجود زرداری کے کھیل کو شکست ہوئی۔ پنجاب میں نون لیگ کا سورج غروب ہوگیا۔ خیبر پختونخواہ میں کوئی ایک جماعت بھی اس قابل نہ تھی کہ تحریک انصاف کے مقابل اپنے وجود کا احساس تک دلا پاتی۔ خود کو مضحکہ خیز کردار میں ڈھال لینے والے پرویز خٹک کا تحریک انصاف کو توڑنے کا دعویٰ اُن کی شکست کے بعد اپنی تخلیق کردہ نئی جماعت سے استعفے پر منتج ہوا۔ ہمالیہ سے بلند دکھائی دینے والے بت ٹوٹ گئے۔ نوازشریف، شہباز شریف، مریم نواز، خواجہ آصف، عطا تارڑ، جہانگیر ترین، علیم خان اور عون چودھری بدترین شکست سے دوچار ہوئے۔ پورا ملک حقیقی انتخابی نتائج کی گونج میں بیداری کی کروٹیں لے رہا ہے۔
جعلی نتائج میں کیا ہوا؟ پاکستان کے قومی شعور کو روندنے کی مہم جاری رہی۔ تحریک انصاف کی 175 سے زائد نشستوں کو ایک سو سے نیچے رکھنے کے لیے ایسے کھیل کھیلے گئے کہ چہرہ چھپ رہا ہے نہ دھاندلی۔ تیس ہزار لاشوں اور چار نسلوں کی تباہی کی وارث ایم کیو ایم کو 17 نشستوں کے ساتھ کراچی پر دوبارہ مسلط کردیا گیا۔ کسی سطح پر اس مجرمانہ شراکت داری پر کوئی ٹیس اُٹھی نہ شرمندگی کا سایہ پڑا۔ سندھ کی طرح بلوچستان کے انتخابی نتائج کو چُرا لیا گیا۔ پنجاب میں نون لیگ کو سہارا دینے کے لیے خفیہ ہاتھ سیاہ رات حرکت میں آیا۔ نوازشریف کا بھانڈا پھوٹنے سے لاہور میں بچا لیا گیا۔ عطا تارڑ کی زبان لعن طعن اگلے سیاسی معرکے کی ضرورت تھی، اُسے بھی بچایا گیا۔ شہبازشریف، مریم نواز، خواجہ آصف کو ہیر پھیر سے فتح دلائی گئی۔ عون چودھری کو بچانے کی کوشش نے ہاتھ جلا دیے مگر کشمکش جاری ہے۔ خیبر پختونخواہ میں جہاں بس چلا، اِ کا دُکا پنکچر لگائے جاتے رہے۔ یہاں پورے ملک کو مایوسی کی دلدل میں دھکیلنے کی وہی پرانی کوشش جاری ہے۔
ان دو حالتوں میں ایک کشمکش بپا ہے، جس کے مظاہر احتجاج، دھرنے، شٹر ڈاؤن ہڑتال اور مظاہروں کی صورت میں نمایاں ہیں۔ اس کشمکش کو اڈیالہ جیل کے قیدی عمران خان نے ذہنی آزادی و غلامی کا مسئلہ بنا دیا ہے۔ افسوس اشرافیہ دیکھ نہیں پا رہی۔ نوجوانوں، ریڑھی والوں، دُکانداروں، مزدوروں، کسانوں، یہاں تک کہ چوکیداروں کی زبانوں پر بھی صرف و محض عمران خان کا نام نامی ہے۔ عمران خان کی شخصیت پاکستان کا ایک ”حقیقی سیاسی آرڈر” بن چکی ہے۔ جیل میں عزیمت اور استقامت کے ساتھ حالات کا غیر مبہم سامنا کرنے سے وہ بے پناہ عوامی پزیرائی پا چکے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ پورے ملک میں انتظامی سطح پرتمام درجاتِ زندگی کے اہم ترین لوگوں کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو چکے کہ وہ ماضی کے کسی سیاست دان کی طرح نہیں جو کٹھن حالات میں سپرانداز ہوتے رہے۔ وہ دستبردار نہیں ہوں گے۔ یہ یقین اب عمران خان کے حامیوں کو نہیں، اُن کے مخالفین کو بھی ہو چکا ہے۔ عمران خان سیاسی طور پر اتنی بڑی حقیقت بن چکے ہیں کہ اُن کے ساتھ مٹی مل کر پارس بن جاتی ہے۔ اُن کے مقابل پارس ، ریت بن کر ہوا میں تحلیل ہے۔ یہ احساس اب مخالف سیاست دانوں کو بہت تیزی سے ہو رہا ہے۔ اس کا اندازا انتخابات کے بعد مخالف سیاست دانوں کے رویے سے لگایا جا سکتا ہے۔ مولانا فضل الرحمان کی پریس کانفرنس حقیقت کے ادراک کی پہلی بڑی مثال ہے۔ مولانا سیاسی حقیقتوں کا ادراک کرنے کی صلاحیت کسی بھی دوسرے سیاست دان سے زیادہ رکھتے ہیں۔ وہ جھکاؤ اور کھچاؤ کی اپنی نفسیات رکھتے ہیں۔ مگر اُنہوں نے انتخابی نتائج میں موجود عمران خان کی حمایت کے دباؤ کو محسوس کر لیا ہے جو تمام سیاسی جماعتوں، قومی اداروں اورطاقت ور حلقوں کی شرمناک مثلث کے اکٹھ کے باوجود غالب رہا۔ عمران خان کے خلاف عوامی حمایت کا مغالطہ پیدا کرنے کے لیے اُن کے حلقۂ فکر کے مخصوص حلقے کی افرادی قوت سب سے زیادہ کام آئی تھی۔ مگر اقتدار کی بندر بانٹ میں وہ فراموش ہو رہے تھے۔ وہ کیسے نہ ہوتے۔ اقتدار کا کمبل عمران خان سے جتنا چھینا جا سکا ، وہ ہر فریق کی لامحدود حرصِ اقتدار کے سامنے پہلے ہی چھوٹا پڑ رہا ہے۔ آصف علی زرداری کی جیبیں ہی بڑی نہیں۔ مطالبے بھی بڑے ہیں، نون لیگی حلقے جسے”بلیک میلنگ” قرار دے رہے ہیں۔ نوازشریف کے منصوبے کے مطابق اُنہیں ایک ایسی حکومت ملنی تھی، جس میں پیپلزپارٹی کو شریک اقتدار کرنے کی مجبوری باقی نہ رہتی۔ سہیل ورائچ کا 8 فروری کو شائع مضمون پڑھ لیجیے۔ وہ تجزیہ نہیں، مکروہ منصوبہ تھا۔ جس میں پیپلزپارٹی کے لیے اپوزیشن میں بیٹھنے کے عمل کو جمہوری فضیلت کا لبادہ اوڑھایا تھا اور کوئی”چوں چاں” کرنے کی صورت میں تحریک انصاف سمیت اپوزیشن کی ہر جماعت کو بنگلہ دیش ماڈل پر مشکیں کسنے کا ڈراوا دیا گیا تھا۔ سب کچھ خلاف توقع ہوا۔ اب ایک بھان متی کا کنبہ تیار کرنے کی کوشش ہے، جس کے لیے کہیں سے اینٹ اور کہیں سے روڑا جمع کیا جا رہا ہے۔ مگر یہ کوشش بھی کامیاب نہیں ہو رہی۔ کیونکہ اس کھیل کے تمام کردار ایک ایک کرکے خود کو الگ کر رہے ہیں، مولانا فضل الرحمان نے تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے سیاسی کھیل میں جنرل باجوہ کی فنکارانہ سرپرستی کو بے نقاب کر دیا ہے۔ ابھی یہ بارود پوری طرح نہیں پھٹا، مگر تابکے؟ دوسری طرف کمشنر راولپنڈی کے انکشافات نے ”چشم یزداں” میں ”فرشتوں ” کی آبرو پر سوال اُٹھا دیے ہیں۔ ہر طرف ہاہا کار ہے۔ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کو سیاست دانوں کی طرح بیان جاری کرنا پڑا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر ذرائع ابلاغ کو اپنی چَھب نہیں دکھلا رہے۔ متعدد شخصیات، اس مکروہ بندوبست کے بھانڈے سنبھالے ہوئے ہیں جو کسی بھی وقت دھماکوں سے پھوڑے جا سکتے ہیں۔ کمشنر راولپنڈی کے انکشافات کو ابتدائے عشق قرار دیتے ہوئے سرگوشیاں ہیں کہ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟علامہ نے کہا تھا
دُرونِ خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا
چراغِ رہ گزر کو کیا خبر ہے !


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں