لاس اینجلس میں کووڈ کی تباہ کاریاں
شیئر کریں
ایرن آبری کیپلان
کورونا وائرس کے نمودار ہونے کے بعد گزشتہ مارچ میں لگنے والے پہلے لاک ڈائون پر میں نے اپنے ہاتھ سے سے لان کے لیے ایک سائن بورڈ بنایا تھا جس پر لکھا تھا ’’ہم اسے شکست دے سکتے ہیں‘‘۔ نیلے بیک گرائونڈ میں سیاہ حروف سے لکھے ہوئے اس سائن بورڈ نے اس بحران پر جرات مندانہ رد عمل دکھایا جو متواتر بڑھتا جا رہا تھا مگر مجھے پور ی امید تھی کہ یہ سنگین شکل اختیار کرنے کے بعد بالآخر ایک شدید زلزلے کی طرح ختم ہو جائے گا۔ یہ سائن بورڈ اپنی جگہ قائم رہا اور میں کورونا وائرس میں اضافے کے باوجود اسے ایک نیک شگون سمجھتی رہی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بات بالکل واضح ہو چکی تھی کہ یہ بحران اتنی جلدی ختم نہیں ہو گا۔ موسم خزاں آنے تک یہ سائن بورڈ اپنی جگہ برقرار رہا لیکن پھر یہ میری توجہ سے محروم ہو گیا؛ تاہم یہ میری ایک چھٹی کی یادگار ضرور محسوس ہوتا تھا۔ بالکل ایسے جس طرح 25 دسمبر گزرنے کے بعد بھی کرسمس لائٹس روشن رہتی ہیں مگر گزشتہ ہفتے یہ بورڈ پھٹ گیا۔ اس کا شوخ نیلا کارڈ بورڈ اکھڑ گیا اور اس پر لکھا ہوا میسج بھی دھندلا پڑ گیا۔
سچی بات یہ ہے کہ لاس اینجلس وہ شہر ہے جہاں کووڈ کی سب سے زیادہ تباہ کاریاں دیکھنے میں آئی ہیں۔ لاس اینجلس ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق لاس اینجلس کائونٹی میں گیارہ لاکھ سے زائد مصدقہ کووڈ کیسز دیکھنے کو ملے جن میں سے صرف لاس اینجلس شہر میں چا رلاکھ چونسٹھ ہزار کیسز منظر عام پر آئے۔ یہاںویکسین لگانے کی صورت حال بھی سنگین شکل اختیار کر گئی ہے۔ ہم نے جلد یہاں ایک اچھی مثال قائم کر دی۔ کیلیفورنیا پہلی ریاست تھی جہاں شٹ ڈائون ہوا تھا۔ ہمارے ہیرو جیسے گورنر گیون نیوسم ہمیں کووڈ کے بارے میں روزانہ اپ ڈیٹس دیتے رہے مگر ہالی ووڈ مووی جیسا اختتام یہاں کبھی دیکھنے کو نہ مل سکا۔ کیلیفورنیا اور لاس اینجلس کائونٹی میں خاص طور پر شٹ ڈائون کا ایک سلسلہ چل پڑا جہاں پہلے تو کووڈ سے اموا ت کی شرح کم رہی مگر پھر اس میں اضافہ ہونے لگا۔ (ہم نے اب گھروں سے باہر کھانا کھانا شروع کیا ہے۔ صرف اکٹھے رہنے والے لو گ ہی مل کر کھانا کھا سکتے ہیں۔ کسی بار میں ٹی وی رکھنے کی اجازت نہیں ہے)
میرے خیال میں لاس اینجلس کے شہری تمام تر تباہ کاریوں کے باوجود مسلسل یہ استثنا رکھتے ہیں کہ ہم اس تباہی سے بچ نکلے ہیں۔ مگر افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ لا س اینجلس کو ایسا کوئی استثنا حاصل نہیں ہے کیونکہ کووڈ کا انجام کبھی خوشگوار نہیں ہو سکتا۔ ابتدائی پابندیاں‘ جنہوں نے شرح اموات کو کم رکھا تھا‘ جیسے ہی ان میں قدرے نرمی کی گئی تو انفیکشن کیسز اور شرح اموات میں اضافہ ہونے لگا۔ یہاں پائی جانے والی نسلی اور معاشی ناہمواری‘ جو باہر سے آنے والوں کو نظر نہیں آتی مگر پچھلے ایک سال میں اچانک بڑی نمایاں ہو کرسامنے آئی ہے۔ ہمارے مہنگے ترین گھر جو صرف دو یا تین افراد کے رہنے کے لیے ہوتے ہیں مگر سیاہ فام اور لاطینی نسل کے چھ سے زائد افراد کا اکٹھے مل کر رہنا عام سی بات ہے۔ اس طرح کی پْرہجوم رہائش اس بات کی بڑی وجہ ہے کہ کون وائرس سے متاثر ہوتا ہے اور کہاں سے ہوتا ہے۔
کووڈ نے صرف لاس اینجلس کی گپ شپ کی روایت کو ہی متاثر نہیں کیا بلکہ ہماری بے ساختگی بھی وہ نہیں رہی جو ہماری بڑی پہچان سمجھی جاتی تھی۔ جب کووڈ شروع ہوا تو میں پہلے سے ہی گھر پر رہ کر کام کر رہی تھی۔ مگر ایک ایسا شہر جہاں ہر روز ایک نئی بات دیکھنے کو ملتی ہو‘ اب گھر ہی تمام باتوں کا مرکز بن کر رہ گیا ہے۔ پہلے میں یہ فیصلہ کرتی تھی کہ میں نے آج شام میں کسی سے ملاقات کرنی ہے، کوریا ٹائون کے قریب اپنی بہن کے ساتھ ڈنر کرنا ہے یا اس ’’قریبی‘‘ ریستوران سے اپنا پسندیدہ پیزا آرڈر کرنا ہے جو حقیقت میں میرے قریب واقع نہیں ہوتا۔ ممکن ہے میری یہ تمام باتیں ایک گھٹیا سی شکوہ شکایت لگیں مگر اب یہ سب کچھ ہنسی مذاق باقی نہیں بچا۔ گزشتہ مارچ میں لگنے والا لاک ڈائون بہت تھرلنگ تھا۔ ہمارا شہر اچانک ہالی ووڈ فلموں جیسی تباہی کا منظر پیش کر رہا تھا۔ حکام بالا کی طرف سے جاری ہونے والے حکم نامے کے بعد فیس ماسک ہمارے کاسٹیوم کا حصہ بن گیا تھا۔ اس ہدایت نامے کے بعد ایک دوسرے سے اور پبلک مقامات سے دور رہنا اور لاس اینجلس کے شہری کے طور پر زندگی گزارنا اکثر ہمیں اداکاری کی طرح محسوس ہونے لگا۔
مگر اداکاری کا وہ سنسنی خیز دور اب گزر گیا ہے۔ اب ہم ایک ایسے وقفے سے گزر رہے ہیں جو کبھی ختم ہوتا نظر نہیں آتا اور اس کی وجہ سے کئی باتوں کا سحر دم توڑ چکا ہے۔ میرا ایک قریبی دوست جو پیشے کے اعتبار سے ا سکرین رائٹر ہے‘ کہتا ہے کہ لاس اینجلس اپنے طور پر ایک ناکامی سے دوچار ہو چکا ہے۔ کورونا جیسا شدید بحران بھی لاس اینجلس کے شہریو ں کو ایک دوسرے کے قریب نہ لا سکا تاکہ وہ یہ کہہ سکیں کہ ’’ہم اسے شکست دے سکتے ہیں‘‘۔ اب کہانی مایوسی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ میری ایک دوست تو اس قدر مایوس ہے کہ شہر چھوڑنے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔ مگر میں ان چیزوں کو اس طرح نہیں دیکھتی۔ میرے خیال میں ہمارا دھیما پن ہی ہماری اصل طاقت ہے۔ ہمیں شکست نہیں دی جا سکتی کیونکہ ہمارے پاس ہارنے کے لیے کچھ ہے ہی نہیں۔ مگر میری دوست کی بات بھی ٹھیک ہے۔ ہمار ا تھوڑا بہت باہمی رابطہ جو ہمیں اب تک جوڑے ہوئے ہے کووڈ کی وجہ سے دم توڑ رہا ہے۔ جب ہم سب کو یہ جاننے کی ضرورت ہوتی ہے کہ کیا کوئی شخص کووڈ انفیکشن کا شکار ہے تو یہ جاننے کی سب وجوہات دم توڑ دیتی ہیں۔ یہ بات اجنبیوں کے لیے زیادہ پْراسرار نہیں رہی کہ ہمارے درمیان پایا جانے والا مسلسل تجسس ہی باقی بچا ہے جو ہمیں اب تک ایک دوسرے کے ساتھ جوڑے ہوئے ہے۔
میں اپنے اردگرد موجود رہنے والے کئی لوگوں کو غائب پاتی ہوں مثلاً میری ہمسائی کرسٹینا‘ جس کی عمر چالیس سال ہے‘ وہ بنیادی طور پر رہوڈز ا?ئی لینڈ کی رہنے والی ہے مگر اب پوری طرح لاس اینجلس کے رنگ میں رنگ چکی ہے۔ کسی ٹیک کمپنی میں کام کرتی ہے، فارغ وقت میں لکھتی ہے اور ایک امیدوں سے بھرپور خاتون ہے۔ اسے اکتوبر میں کورونا ہو گیا تھا۔ حال ہی میں ا س نے مجھے ڈرائیو وے میں بارہ فٹ کے فاصلے پر کھڑے ہوکر بتایا کہ مجھے اپنی پوری زندگی میں کبھی ایسی تھکاوٹ محسوس نہیں ہوئی اور اب تو میں اپنا سیل فون بھی اپنے ہاتھ میں نہیں تھام سکتی۔ اب اس کی صحت پہلے سے کافی بہتر ہو گئی ہے مگر ابھی سو فیصد درست نہیں ہوئی۔ اس نے بڑے سکون مگر قدرے مایوسی سے مجھے کہا کہ میں نہیں سمجھتی کہ اب میں پہلے کی طرح صحت مند ہو سکوں گی۔ اس شہر کی طرح اس کا بھی ایک اپنا مزاج ہے مگر اب تو وہ محض ایک سایہ سا بن کر رہ گئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔