میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اسرائیل فلسطین امن سمجھوتا‘ٹرمپ انتظامیہ نے وزن اسرائیل کے پلڑے میں ڈال دیا

اسرائیل فلسطین امن سمجھوتا‘ٹرمپ انتظامیہ نے وزن اسرائیل کے پلڑے میں ڈال دیا

ویب ڈیسک
اتوار, ۱۹ فروری ۲۰۱۷

شیئر کریں

فلسطینیوں کے درمیان امن لانے کیلئے تیار ہیں، لیکن بالآخر سمجھوتے تک پہنچنا خود فریق پر منحصر ہوگا،ٹرمپ نے نئی امریکی پالیسی دے دی
”اپنی مرضی“کی آزادی دینے پر اسرائیل لازماًفلسطین پر دھونس کے ذریعے مذاکرات میں غلبے کی کوشش کرے گا ،امریکا کا ثالثی سے مکرنا غیر اخلاقی عمل ہے،ناقدین
جمال احمد
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے گزشتہ روزکہا ہے کہ” ہو سکتا ہے کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن سمجھوتا آزاد فلسطینی ریاست پر مشتمل نہ ہو“۔اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ وہ ا±س کے حق میں ہوں گے جو سمجھوتا دونوں فریق کے درمیان ہونے والے براہِ راست مذاکرات کے نتیجے میں سامنے آئے گا۔ٹرمپ کے بقول ”میں دو ریاست یا ایک ریاست کو دیکھ رہا ہوں۔ میں ا±سی بات پر خوش ہوں گا جسے وہ پسند کریں گے“۔ٹرمپ نے اسرائیل پر بھی زور دیا کہ نئی اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کے معاملے کو ”روکیں“ اور کہا کہ فلسطینیوں کو چاہیے کہ وہ اسرائیل کے خلاف نفرت آمیز تعلیم دینے کا عمل بند کریں۔
قبل ازیں وائٹ ہاو¿س کے ایک اعلیٰ اہل کار نے اخباری نمائندوں کے ساتھ گفتگو میں اسرائیل فلسطین تنازعے کے بارے میں امریکی پالیسی میں تبدیلی کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان ضروری نہیں کہ امن دو ریاستی حل کے ذریعے آئے، اور یہ کہ اس کا فیصلہ دونوں فریق ہی کریں گے۔اہل کار نے کہا کہ امریکا ”اپنی مرضی مسلط نہیں کرے گا کہ امن کی شرائط کیا ہونی چاہئیں“۔ بقول اعلیٰ عہدیدار ”ایسادو ریاستی حل جس سے امن نہ آئے ،ہمارا یہ ہدف نہیں ہونا چاہیے ۔ امن ہی ہدف ہے چاہے وہ دو ریاستی حل کی بنیاد پر ہو۔دیکھنا ہے کہ فریق یہی چاہتے ہیںیا پھر کچھ اور، اگر فریق یہ چاہیں، تو ہم ا±ن کی مدد کریں گے“۔واضح رہے کہ طویل مدت سے امریکا کا سرکاری مو¿قف یہ رہا ہے کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کو ایک ایسے سمجھوتے کے لیے مذاکرات کرنے چاہئیں جس سے دو علیحدہ ریاستیں وجود میں آئیں، جس میں ممکنہ طور پر فلسطینی غزہ کا کنٹرول سنبھالیں، مغربی کنارے کا سارا یا کچھ حصہ ا±ن کے پاس ہو، اور ا±ن کا مستقبل کا دارالحکومت مشرقی یروشلم میں ہو۔ اقوام متحدہ بھی دو ریاستی حل کا حامی ہے۔
ناقدین کا خیال یہ ہے کہ ”اپنی مرضی“کی آزادی دینے پر اسرائیل لازماًفلسطین پر دھونس کے ذریعے مذاکرات میں غلبے کی کوشش کرے گا ، امریکا کادوریاستی حل کی پالیسی سے متعلق ثالثی سے مکرنا غیر اخلاقی عمل ہے۔
چوٹی کے ایک فلسطینی اہل کارصائب عریقات نے کسی ایسی تجویز کو مسترد کیا ہے جس میں دو ریاستی حل کو ترک کیا جائے۔ یہ کہتے ہوئے کہ اس سے ہٹنے کا مطلب یہ ہوگا کہ ”نسلی امتیاز“ کو جوں کا توں رہنے دیا جائے۔امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن لانے کے کام کے لیے تیار ہیں، لیکن بالآخر سمجھوتے تک پہنچنا خود فریق پر منحصر ہوگا۔ٹرمپ نے کہا کہ ”امریکا امن کی حوصلہ افزائی کرے گا، جو یقینی طور پر ایک بہترین امن سمجھوتا ہوگا“۔ٹرمپ کے بقول، ”ہم اس پر بہت ہی، بہت ہی یکسوئی سے کام کریں گے۔ لیکن یہ خود فریق پر منحصر ہے، جنھیں سمجھوتے کیلئے براہِ راست مذاکرات کرنے ہوں گے“۔
دوسری جانب ا سرائیل فلسطین کے دیرینہ تنازع پر سلامتی کونسل کے اجلاس میں پہلی بار شرکت کرنے کے بعد امریکی سفیر نکی ہیلی نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ہم "دو ریاستی حل کی حمایت کرتے ہیں۔”اقوام متحدہ میں امریکا کی سفیر نے کہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ مکمل طور پر اسرائیل فلسطین تنازع کے2 ریاستی حل کی حمایت کرتی ہے۔کوئی بھی جو یہ کہنا چاہتا ہے کہ امریکا دو ریاستی حل کی حمایت نہیں کرتا، یہ (کہنا) ایک غلطی ہے۔فلسطین اسرائیل کی صورت حال کے بارے میں سلامتی کونسل کا معمول کا ماہانہ اجلاس، اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی واشنگٹن میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کے ایک روز بعد ہوا۔مشترکہ نیوز کانفرنس میں صدر ٹرمپ نے بظاہر ایسا تاثر دیا کہ انہیں، "(اسرائیل فلسطین) تنازع کا ایک یا دو ریاستی حل قبول ہو سکتا ہے۔ "اس سے بظاہر امریکا کی دو دہائیوں سے جاری امریکا کی پالیسی میں تبدیلی کا تاثر ملتا ہے۔بین الاقوامی برادری کئی سال سے اسرائیل اور فلسطین تنازع کے دو ریاستی حل کی حامی رہی ہے۔نکی ہیلی نے یہ بات کئی بار دہرائی کہ "ہم مکمل طور پر دو ریاستی حل کی حمایت کرتے ہیں۔””تاہم ہم اس کو ایک نئے زاویہ سے بھی دیکھ رہے ہیں جس سے ان دو فریقوں کو مذاکرات کی میز پر لایا جا سکے، جو کچھ ہم کریں ہمیں انہیں اس پر رضامند کرنا ہو گا۔”انہوں نے کہا کہ بالآخر کوئی بھی حتمی حل اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے آنا ہو گا اور "امریکا صرف اس عمل کی حمایت کر سکتا ہے۔”مشرق وسطیٰ کے امن عمل کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی رابطہ کار نکولے ملاڈینوو نے کہا کہ "دونوں عوام کی جائز قومی امنگوں کے حصول کے لیے دو ریاستی حل ہی واحد راستہ ہے۔”یروشلم سے وڈیو لنک کے ذریعے ملاڈینوو نے سلامتی کونسل کے ارکان کو بتایا کہ ہر فریق خیر سگالی کے جذبہ کا اظہار کر سکتا ہے، اسرائیلی بستیوں کی تعمیر اور توسیع کو روک کر اور فلسطینی تشدد اور اس پر اکسانے والی صورت حال سے نمٹ کر۔ انہوں نے کہا ایسے اقدام سے ایک فضا قائم ہو سکتی ہے جو کسی حتمی حل کے لیے دو طرفہ مذاکرات کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔دوسری طرف اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے قاہرہ کے دورے کے دوران نامہ نگاروں کو بتایا کہ دو ریاستی حل ہی ایک راستہ ہے اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔اقوام متحدہ میں فلسطینی مندوب ریاض منصور نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ "صدر (محمود) عباس نے گزشتہ روز کہا کہ وہ دو ریاستی حل بشمول سلامتی کونسل کی قرار داد 2334 پر عمل درآمد کے عزم پر قائم ہیں۔”
وائٹ ہاو¿س کے ترجمان شان سپائسر نے کہا کہ اگرچہ ٹرمپ انتظامیہ یہ خیال نہیں کرتی کہ بستیوں کی موجودگی امن کی راہ میں رکاوٹ ہے لیکن نئی بستیوں کی تعمیر کے بارے میں ابھی کوئی سرکاری موقف اختیار نہیں کیا ہے۔ دوسری طرف اسرائیل کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کی طرف سے اسرائیلی ریاست کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے بات چیت آگے نہیں بڑھ رہی ہے۔واضح رہے کہ اسرائیل کی سیکورٹی فورسز مغربی کنارے میں تعمیر کی گئی ایک غیر قانونی بستی میں موجود لوگوں کو وہاں سے نکال رہی ہیں۔ امونا میں باقی رہ جانے زیادہ تر لوگوں نے ایک یہودی عبادت گاہ میں پناہ لی ہوئی ہے۔اسرائیلی پولیس نے گزشتہ روزجب اس بستی کو صاف کرنے کا کام شروع کیا، تو انہیں یہاں کے سیکڑوں مکینوں کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جنہوں نے رکاوٹیں کھڑی کر کے پولیس پر پتھراﺅکیا۔مظاہرین نے پولیس پر آوازیں کستے ہوئے کہا کہ”یہودی یہودیوں کو بے دخل نہیں کرتے۔” اس واقعہ میں تقریباً 20 پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔اسرائیل کی سپریم کورٹ نے 2014 میں فیصلہ دیا تھا کہ امونا کی بستی ایک نجی فلسطینی زمین پر تعمیر کی گئی تھی اور اسے گرا دیا جائے۔ دوسری طرف قدامت پسند اسرائیلی عہدیدار اس فیصلے کو تبدیل کروانے کیلئے کوشاں رہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجامن نیتن یاہو نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسرائیل میں امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کیا جانا چاہیے، جس کا اپنی انتخابی مہم کے دوران امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے وعدہ کیا تھا۔نیتن یاہو کا اپنی کابینہ کے ہفتہ وار اجلاس میں یہ بیان بظاہر ا±ن خبروں کو مسترد کرتا ہے جن میں کہا گیا تھا کہ ایسے کسی اقدام سے پیدا ہونے والے نتائج پر اسرائیل میں تشویش پائی جاتی ہے، جس کی فلسطینی شدید مخالفت کرتے ہیں اور جس کے نتیجے میں تشدد کی نئی لہر پیدا ہوگئی ہے۔اِس سے ایک ہی روز قبل نیتن یاہو نے میکسیکو کی سرحد کے ساتھ دیوار تعمیر کرنے کے ٹرمپ کے مطالبے کی یکطرفہ تائید کی تھی، یہ کہتے ہوئے کہ اسی طرح کی ایک مثال یہ ملتی ہے کہ اسرائیل نے مصر کی سرحد کے ساتھ دیوار کھڑی کی تھی، جس کے کامیاب نتائج برآمد ہوئے ہیں۔نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ ہماراہمیشہ سے ہی یہ موقف رہا ہے، اور اب بھی یہی موقف ہے کہ امریکا کا سفارت خانہ بیت ا لمقدس ہی میں ہونا چاہیے۔
ٹرمپ کے اقتدار میں آنے سے اسرائیل کے قوم پرستوں کو تقویت ملی ہے۔ ا±ن کی انتخابی مہم کے دوران فلسطینی ریاست کا کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا، جو کہ خطے میں2 دہائیوں سے جاری بین الاقوامی سفارت کاری کا مرکزی نقطہ رہا ہے، اور ا±نھوں نے عندیہ دیا ہے کہ وہ اسرائیل کی جانب سے بستیوں کی تعمیر کے معاملے پر اپنے پیش روﺅں کے برعکس زیادہ برداشت کا مظاہرہ کریں گے۔ اسرائیل کے لیے ا±ن کے نامزد سفیرڈیوڈ فرائڈمن اور ا±ن کے دامادجریڈ ک±شنرجو اب مشرق وسطیٰ کے ایلچی اور ا±ن کے چوٹی کے مشیر ہیں، ا±ن کے نو آبادکاری کی تحریک سے گہرے مراسم ہیں۔ فرائڈمن اور ک±شنر کی خاندانی تنظیم ‘بیت اللہ کی بستی کی تعمیر کیلئے دل کھول کر چندہ دیتے رہے ہیں، جب کہ ٹرمپ کی حلف برداری کی تقریب میں آباد کاروں کے نمائندوں پر مشتمل ایک وفد کو مدعو کیا گیا تھا ۔ فلسطینی مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس کو اپنے مستقبل کی ریاست کا حصہ گردانتے ہیں، جن پر 1967 کی مشرق وسطیٰ کی لڑائی کے دوران اسرائیل نے قبضہ کر لیا تھا۔ باقی بین الاقوامی برادری کی طرح سابق صدر بارک اوباما بستیوں کی تعمیر کو امن کی راہ میں رکاوٹ خیال کرتے تھے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں