ٹرمپ کے لیے مشکلات میں اضافہ‘ مائیکل فلن کی بے وفائی،ایڈمرل ہارورڈ کا عہدہ لینے سے انکار
شیئر کریں
ہارورڈ اور ٹرمپ انتظامیہ کے درمیان وجہ¿ تنازع یہ بات بنی کہ وہ اس عہدے کے ماتحت کام کرنے کیلئے اپنی ٹیم لانا چاہتے تھے،کوئی تیسرا مشیر بھی تاحال نہ مل سکا
کیا فلن معاملے پر ٹرمپ نے معلومات ہونے کے باوجود دروغ گوئی کی ؟کیا وائٹ ہاﺅس امریکی مفادات کے تحفظ سے بے پروا ہوچکا،شہری ابہام کا شکار
ابن عماد بن عزیز
نیویارک ٹائمز نے گزشتہ روز اپنے ادارئیے میں لکھا ہے کہ اگر امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے مشیر خاص مائیکل فلن کی رخصتی سے روس کے ساتھ ان کی انتظامیہ کے قریبی روابط کے حوالے سے تنازعات کاخاتمہ ہوجائے گا تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔اس تنازع سے یہ بات سامنے آگئی ہے اور لوگوں کے ذہن میں یہ سوال گردش کرنے لگے ہیں کہ اب وائٹ ہاﺅس امریکی قوم کا دفاع کرنے ،ان کے مفادات کے تحفظ کے حوالے سے کتنا لاپروا ہے۔
ادھر تازہ خبر یہ ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے قومی سلامتی مشیر کے لیے منتخب کیے گئے ریٹائرڈ وائس ایڈمرل روبرٹ ہارورڈ نے یہ عہدہ سنبھالنے سے انکار کر دیا ہے۔
وائٹ ہاو¿س کے سینئر اہلکار کا کہنا ہے کہ مائیکل فلن کے استعفے کے بعد روبرٹ ہارورڈ کو قومی سلامتی مشیر کے عہدے کی پیش کش کی گئی ،لیکن ایڈ مرل ہارورڈ نے ذاتی وجوہات کی بنا پر اس عہدے سے انکار کردیا ہے۔یہ بھی اطلاعات ہیں کہ ہارورڈ اور ٹرمپ انتظامیہ کے درمیان وجہ ¿ تنازع یہ بات بنی کہ وہ اس عہدے کے ماتحت کام کرنے کے لیے اپنی ٹیم لانا چاہتے تھے۔واضح رہے کہ کچھ روز قبل روس سے تعلقات کا بھانڈا پھوٹنے پر ٹرمپ کے مشیر ِ قومی سلامتی امور مائیکل فلن اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے۔
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ مائیکل فلن کو اپنا عہدہ چھوڑنے پر اس وقت مجبور ہونا پڑا جب واشنگٹن پوسٹ نے اپنی خبر میں یہ انکشاف کیاکہ امریکا کے محکمہ انصاف نے جنوری ہی میں وائٹ ہاﺅس کو بتادیاتھا کہ مائیکل فلن نے روس کے سفیر کے ساتھ فون پر اپنی بات چیت کے بارے میں سینئر افسروں کو اندھیرے میں رکھاہے اور انھیں حقائق سے آگاہ نہیں کیاہے۔محکمہ انصاف نے بتادیاتھا کہ مائیکل فلن کے دعوے کے برعکس انھوں نے روسی سفیر سے امریکا کی جانب سے روس پر لگائی جانے والی پابندیوں کے حوالے سے بات چیت کی تھی۔
تنازع اس بات کا تھا کہ مائیکل فلن کاروسی سفیر کے ساتھ بات چیت کے حوالے سے بیان کچھ اور تھا اور امریکی اور روسی انٹیلی جنس کی اس حوالے سے رپورٹیں بالکل مختلف تھیں اور اسی سے یہ ظاہر ہوتاتھا کہ مائیکل فلن روس کی جانب سے بلیک میل کاشکار ہیں اور اس حوالے سے روس کے دباﺅ میں ہیں۔ وائٹ ہاﺅس نے ان اطلاعات پر فوری کارروائی کرنے کے بجائے معاملے کو عوام سے چھپانے کی کوشش کی۔
گزشتہ منگل کو وائٹ ہاﺅس نے اعتراف کیاتھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو 2 ہفتے قبل ہی مائیکل فلن کے جھوٹ سے آگاہ کردیاگیاتھا لیکن اس کے باوجود ڈونلڈٹرمپ نے گزشتہ جمعہ کو صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس حوالے سے خبروں سے لاعلم ہیں اور اس حوالے سے کچھ نہیں جانتے۔
جہاں تک مائیکل فلن کا تعلق ہے تو یہ بات واضح ہے کہ مائیکل فلن بہت گرم مزاج واقع ہوئے ہیں اور ایک خاص نظریہ رکھتے ہیں جس کی وجہ سے وہ قومی سلامتی کے مشیر جیسے اہم اور حساس عہدے کیلئے قطعی ناموزوں تھے، کیونکہ اس عہدے کی حساسیت کا تقاضہ ہے کہ اس عہدے پر فائز شخص انتہائی ٹھنڈے دل ودماغ سے اورکسی نظریئے کے بجائے صرف قوم کی سلامتی اورتحفظ کے حوالے سے سوچ اور فیصلے کرسکے۔گزشتہ پیر تک مائیکل فلن سیکورٹی سے متعلق امورپر بریفنگ میں موجود تھے اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ تک ان کی رسائی تھی۔
مائیکل فلن نے اپنے استعفے میں لکھا ہے کہ انھوں نے سینئر افسران کو روسی سفیر کے ساتھ فون پر ہونے والی بات چیت کے بارے میں ادھوری معلومات فراہم کی تھیں۔ایف بی آئی کے افسران نے ان کا عہدہ سنبھالنے کے کئی دن بعد اسی حوالے سے بات چیت کی تھی۔ امریکی اخبار ٹائمز نے گزشتہ جمعہ کو لکھاتھا کہ اگر انھوں نے ایف بی آئی کے افسران کے ساتھ جھوٹ بولاتھا تو ان پر حقائق کوچھپانے کا الزام عایدکیاجاسکتاہے۔
امریکا کے سابق صدر بارک اوباما کی جانب سے روس پر پابندیاں عاید کرنے کے اعلان کے بعد سے ہی مائیکل فلن اور امریکا میں روس کے سفیر سرگی کسلیاک کے درمیان رابطے تھے اورپوری صدارتی انتخابی مہم کے دوران ان دونوں کے درمیان رابطہ قائم رہا۔انٹیلی جنس رپورٹوں میں اس بات پر اصرار کیاگیاہے کہ روس کی جانب سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو فائدہ پہنچانے کیلئے ڈیموکریٹس کے کمپیوٹر ہیک کئے گئے تھے۔ایف بی آئی نے اس دوران روسی سفیرکے رابطوں کے بارے میں جو مانیٹرنگ کی اس سے مائیکل فلن اور روسی سفیر کے درمیان رابطوں کی تصدیق ہوتی ہے۔
12 جنوری کو جب مائیکل فلن اور روسی سفیر کے درمیان ٹیلی فون پرہونے والی بات چیت کی خبروں کاانکشاف ہواتو ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھیوں نے اس بات کی تردید کی تھی کہ اس بات چیت میں روس پرامریکا کی جانب سے لگائی جانے والی پابندیوں کے بارے میں کوئی بات چیت ہوئی تھی۔وائٹ ہاﺅس کے ترجمان سین اسپائسر نے 13 جنوری کووہی باتیں کہیں جو15 جنوری کو نائب صدر مائک پنس نے کہی تھیں۔ڈونلڈ ٹرمپ کے اپنے عہدے کاحلف اٹھانے کے بعد 23 جنوری کو مائک پنس نے ایک دفعہ پھر یہ کہا کہ مائیکل فلن نے انھیں ایک دفعہ پھر یہ یقین دلایاہے کہ انھوں نے روسی سفیر سے پابندیوں کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی ہے۔اس کے فوری بعد امریکا کی اٹارنی جنرل سیلی ییٹس نے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر جنرل جیمز کونی کی رپورٹوں سے اتفاق کرتے ہوئے وائٹ ہاﺅس کے وکیل ڈونلڈ مک گھن کو بتایا کہ اصل میں ہوا کیاہے۔
اس حوالے سے اب بہت سے سوالات اٹھتے ہیں۔ اول یہ کہ وائٹ ہاﺅس نے مائکل فلن کو ان رابطوں کی اجازت دی تھی۔اگر ایسا نہیں تھا تو ڈونلڈ ٹرمپ نے ان کے استعفے کے بعد بھی ان کے اس عمل کی مذمت کیوں نہیں کی؟ان تمام حقائق کی وجہ سے اب کانگریس پر اس حوالے سے کارروائی کیلئے دباﺅ بڑھتاجارہاہے ،اگرچہ بعض ری پبلکن ارکان کانگریس نے اس حوالے سے تفصیلی چھان بین کا وعدہ کیاہے لیکن اس پوری صورت حال پر بحیثیت پارٹی ری پبلکن پارٹی کاردعمل غیرذمہ دارانہ اور مایوس کن ہے۔ اس حوالے سے ارکان کانگریس کا رویہ بھی انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے اور وہ کانگریسی ارکان جو ہلیری کلنٹن کے ای میلز کے مسئلے پر دوسال تک ان کے پیچھے لگے رہے، وہ قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے والے مائیکل فلن کے اس عمل کی پردہ پوشی کیلئے سرگرم نظر آرہے ہیں۔دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ مائیکل فلن کے استعفے کے بعد اب تک قومی سلامتی کے مشیر جیسے اہم منصب کیلئے کسی موزوں شخصیت کاانتخاب نہیں کرسکے ہیں جس کی وجہ سے یہ اہم عہدہ ابھی تک خالی پڑا ہے۔معلوم یہ ہوتا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کواپنے دوست مائکل فلن کی واپسی کی امید اب بھی باقی ہے جبکہ ایسا کرنا امریکا کی سلامتی کیلئے ہی نہیں بلکہ خود ڈونلڈ ٹرمپ کیلئے بھی ہلاکت خیز نتائج کاحامل ثابت ہوسکتاہے۔جبکہ یہ عہدہ طویل عرصے تک خالی رکھنا بھی امریکا کی قومی سلامتی کے مفاد میں نہیں ہے ۔اگر ڈونلڈ ٹرمپ یہ سمجھتے ہیں کہ مائکل فلن کی رخصتی سے قومی سلامتی کے حوالے سے ان کی مشکلات میں کچھ کمی آجائے گی تو یہ ان کی خام خیالی ہے ، مائیکل فلن کی رخصتی سے ان کی مشکلات کم نہیں ہوں گی اور اس حوالے سے مواخذے کی تلوار ان کے سرپر بدستور لٹکتی رہے گی۔