ابن عربی کے خواب
شیئر کریں
تصوف کے پیروکاروں میں الشیخ اکبر کے نام سے مشہور حضرت محی الدین ابن عربی کو پوری دنیا میںانہیں ایک کامل روحانی شخصیت سمجھا جاتا ہے وہ اپنے خوابوں کے حوالے سے بھی بہت مشہورہیں ان کا کہناہے کہ خواب بھی رہنمائی کا ذریعہ ہیں حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام اوردیگر کئی انبیاء کرام کے خواب اس کی بہترین مثالیں ہیں کہاجاتاہے کہ ابن ِ عربی نے ایک معروف شخصیت سے محض اس لیے ناراض ہوکر ملناجلنا حتی ٰ کہ بول چال بندکردی کہ وہ ان کے شیخ (مرشد) پر تنقیدکرتارہتاہے ایک دن ابن ِ عربی ؒ کو خواب میں نبی آخرالزماں ﷺ کی زیارت ہوئی آپ ﷺ بہت خفا تھے ابن ِ عربی نے آگے بڑھ کرآپ ﷺ کے ہاتھوںکا بوسہ لینا چاہا تو آپ نے فرمایاتمہارے شیخ پرتنقید کب سے دین ہوگیاجو تم نے اس سے ناراض ہوگئے ہو یہ خواب دیکھ کر ابن ِ عربی ؒ کی آنکھ کھل گئی وہ پسینے میں شرابور تھے وہ اسی وقت اٹھے اوراپنے مرشدکے خلاف تنقید کرنے والے کے آستانے پر پہنچے اور اس کے آگے ہاتھ جوڑ کر معافی کے درخواستگارہوئے اور بغلگیرہوگئے یہی ابن ِ عربی اندلس کے نامورمسلم اسکالر ، صوفی ، شاعر ، اور فلسفی ، انتہائی بااثر اسلامی فکر کی حامل روحانی شخصیت تھے ۔ شیخ اکبر محی الدین محمد ابن العربی الحاتمی الطائی الاندلسی ایک صوفی صوفیانہ ، شاعر ، اور طائی قبیلے سے تعلق رکھنے والے فلسفی تھے انہوںنے مختلف موضوعات پر 850 کتابیں تحریرکیں جن میں 700 انتہائی معتبراورمستند سمجھی جاتی ہیں جبکہ 400 سے زائد اب بھی موجود ہیں ان کی کائناتی علمی تعلیمات مسلم دنیا کے بہت سے حصوں میں غالب عالمی نظریہ بن گئیں۔
الشیخ اکبر ابن عربیؒ 28 جولائی 1165 طائفہ آف مرسیا میں پیداہوئے آج مرسیا کا علاقہ ، اسپین میں ہے شیخ اکبر محی ؒالدین ابن عربی اپنے خوابوںکی باعث بھی بہت مشہورہیں کیونکہ وہ خوابوںکی حقانیت کے قائل ہیں ان کے اکثر خواب سچے ہوتے تھے۔مسلمانوں کے تمام مسالک اور فرقے شیخ اکبر محیؒ الدین ابن عربی کے مرتبہ و مقام کے قائل ہیں اور ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن امام ابن ِ تیمیہؒ نے انہیں گمراہ شخص قراردیاہے مگر شیخ سرہند امام مجدد الف ثانیؒ کوبھی ان سے بہت عقیدت تھی بلاشبہ حضرت محی الدین ابن ِؒعربی غیر معمولی صلاحیتیں اور خوبیاں رکھتے تھے۔ وہ اپنے زمانے کے بہت بڑے عالم اور کیفیت ظاہری و باطنی کے حامل تھے۔ شیخ کے طرز تحریر سے واقف نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں میں غلط فہمیاں ہیں اس کے باوجودوقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ان کے علمی مرتبے اور روحانی عظمت میں برابر اضافہ ہوتاچلاجارہاہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ پوری مسلم دنیا میں صرف حضرت محی الدین محمد ابن العربی الحاتمی الطائی الاندلسی کوہی شیح الاکبرکا لقب دیاگیا اس مقام و مرتبہ تک کوئی اور شخصیت نہیں پہنچ سکی بعض نادان یورپ زدہ ابن عربی کے فلسفے یا حکمت کو افلاطون کا فلسفہ سمجھتے ہیں مگر ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ تمام کتب جنید البغدادیؒ، بایزید بسطامیؒ، سہیل ،تشتری اور بزرگان اسلام کے اقوال، آیات قرآن مجید اور احادیث شریف کے حوالوں کے ساتھ لکھی گئی ہیں۔ ابن عربی کی کتب میں مغربی فلسفہ کا کہیں ذکرنہیں ہے۔ حضرت ابن عربیؒ تاریخ اسلام میں ایک ایسے منفرد مصنف ہیں جن کی مخالفت اور موافقت میں بڑے بڑے لوگوں نے صدیوں سے حصہ لیا اور آج بھی ان کی تصنیفات معرض بحث ہیں۔ شیخ نے اپنی زندگی میں کبھی کسی کی مخالفت کی پرواہ کی اور نہ ہی کسی سے مناظرہ کیا بلکہ خاموشی اور متانت سے لوگوں کی باتوں کو سنا اور اپنا علمی کام جاری رکھا۔عام خیال یہ ہے کہ تصوف اسلام میں وحدت الوجود کا تصور سب سے پہلے انھوں نے ہی پیش کیا۔
ابن حزم کے موجودہ نسخے پر ابن عربی نے نقل کیا ہے ، ابن عربی اس کا تعارف جہاں وہ اپنے ایک خواب کو بیان کر تے ہوئے لکھتے ہیں”میں نے اپنے آپ کو سیول کے قریب شراف گاؤں میں دیکھا وہاں میں نے ایک میدان دیکھا جس پر بلندی بلند ہوئی۔ اس بلندی پر نبی stood کھڑے ہوئے ، اور ایک آدمی جسے میں نہیں جانتا تھا ، اس کے قریب آیا۔ انہوں نے ایک دوسرے کو اس قدر پرتشدد طریقے سے گلے لگایا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑتے اور ایک شخص بن جاتے ہیں۔ بڑی چمک نے انہیں لوگوں کی نظروں سے چھپایا۔ ‘میں جاننا چاہوں گا ،’ میں نے سوچا ، ‘یہ عجیب آدمی کون ہے؟’ پھر میں نے کسی کو یہ کہتے سنا: یہ روایت پسند علی ابن حزم ہے۔ میں نے پہلے کبھی ابن حزم کا نام نہیں سنا تھا۔ میرے ایک شیخ ، جس سے میں نے سوال کیا ، نے مجھے بتایا کہ یہ شخص حدیث کی سائنس کے میدان میں ایک اتھارٹی ہے۔ابن عربی نے قونیہ میں بھی قیام کیا۔ سلجوق سلطان علاؤ الدین ابن عربی کا معتقد تھا۔ اسی دور میں انا طولیہ کی سرزمین پر ترکوں کے ایک قبیلے کائی کا سردار ارطغرل (جس کے تیسرے بیٹے عثمان نے خلافت عثمانیہ قائم کی) اپنے قبیلے کے لیے ایک محفوظ اور معاشی لحاظ سے فائدہ مند مقام پر مستقل قیام کے لیے جدوجہد میں مصروف تھا۔ ابن عربی کا سال وفات 1240 اور عثمان کے والد ارطغرل کا سال وفات 1280 ہے۔ تاریخی لحاظ سے اس بنیادپر کہ ابن عربی اور ارطغرل کے درمیان ملاقاتیں رہیں اور اطغرل نے ابن ِعربیؒ سے رہنمائی اور ان کی دعائیں لیں 1210 کے بعد کا یہ وہ زمانہ ہے جس میں شیخ ابن عربی قونیہ اور ایشیاء کوچک میں تصوف کی فکر وفلسفہ کو عام کررہے تھے۔ اس دوران شیخ ابن عربی کا دمشق ،حلب ، موصل، بغداد ، مکہ اور یروشلم مستقل آنا جانا لگا ہوا تھا۔ شیخ ِ اکبرؒ نے اپنے خوابوں کے ذریعے متعدد بار ارطغرل غازی کی مدد کی اور انہیں مشکلات سے نکالا۔ ابن عربی جس زمانے میں ایشیائے کوچک و قونیہ میں محو سفر تھے اسی زمانے میں اناطولیہ کی سرزمین پر قائی قبیلہ کا سردار ارطغرل بھی صلیبیوں اور منگولوں سے لڑرہاتھا اس دوران آپ کے تعلقات صلاح الدین ایوبی کے بیٹے الملک الظاہر کے ساتھ ، جو حلب کا حاکم تھا ، دوستانہ تھے۔ ایک واقعہ سے ، جس میں آپ اسے ایک شخص کی سزائے موت کو معاف کرنے کی سفارش کرتے ہیں، پتہ چلتا ہے کہ حلب کا حاکم ابن عربی کی کس قدر عزت کرتا تھا۔
620ھ میں آپ نے دمشق کو اپنا وطن بنایا۔ دمشق کے قاضی القفاۃ شمس الدین احمد بھی ابن عربی کی شخصیت پر پروانہ وار جانثار تھے۔ انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی ابن عربی سے کردی تھی۔ قیام دمشق کے دوران ابن عربی درس و تدریش اور تصنیف میں مصروف رہتے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق وہ روزانہ ایک سو صفحات لکھتے تھے۔ ابن عربی کی تصنیف کردہ کئی کتابیں حوادث کی نذر ہوگئیں۔ مندرجہ ذیل کتابیں کتب خانوں میں مل سکتی ہیں۔ فتوحات مکہ چار جلدیں، نصوص الحکم، شجرۃ الکون، مطالع انوار الہیہ، مشاہدہ اسرار، حلیہ ابدال، افاد مطالعہ جعفر، تفسیر صغیر، کتاب الاخلاق، محاضرٔ الابرار، الجلاہ امر محکم، مواقع الجنوم، المعارف الیہ عقدہ محضر، کتاب الازل، مراتب وجود، نقش القصوص، کتاب الہود، تاج الرسائل، عنقا العقرب اور کئی ایک کتب وغیرہ۔ فتوحات مکیہ اور نصوص الحکم یہ دونوں کتابیں ہر دور میں اولیاء اللہ و صوفیائے کرام کے درس و تدریس میں رہی ہیں۔ابن عربی ، عربی نظم و نثر پر یکساں دسترس رکھتے تھے۔ جو بات نثر میں بھی لکھنا محال ہو اس کو نظم میں بے تکلف بیان کردیتے تھے۔ شعر کہنے کا ملکہ فطری تھا اور اکثر و بیشتر فی
البدیہہ اشعار کہتے تھے۔ عربی کی لغت اور محاورہ پر ان کو غیر معمولی قدرت حاصل تھی۔ آپ کے پانچ شعری مجموعے ‘‘دیوان’’ بھی ہیں۔مشہور عرب مورخ ابن ذہبی لکھتے ہیں کہ ابن عربی کی جسارت، قدرت اور ذہانت کا کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ جب حمد و ثناء میں مشغول ہوتے تو ایسا معلوم ہوتا جیسے ان کو اپنا بھی ہوش نہیں ہے۔
عشق الٰہی میں سرشار تھے۔ ان میں کئی اچھی صفات موجود تھیں۔ ان کی روحانی تجلیوں اور کیفیت کا کوئی ٹھکانا نہ تھا۔ فکر کی گہرائی کا اندازہ لگانا مشکل تھا۔ انہیں بچپن سے ہی سچے خواب نظر آتے تھے۔ شیخ اکبر المعروف ابن ِ عربی نہ صرف سچے خواب دیکھتے تھے بلکہ خوابوں کی حقیقت اور افادیت کے بھی قائل تھے۔ ان کا قول ہے کہ انسان جیسا ہوتا ہے، ویسے ہی اس کو خواب آتے ہیں۔ اگر کوئی خواب میں بھی حاضر دماغ رہنا سیکھ لے تو اس میں بے پناہ قوت پیدا ہوجاتی ہے شیخِ اکبر کی وفات کے تقریباً نصف صدی بعد ان کی تصانیف مشرقی ممالک میں گردش کرنے لگ گئی تھیں، عبدالوہاب شعرانی جیسے جید عالم نے ابن عربی پر ابتدا ئی کام کر کے بہت شہرت کمائی۔ابن عربی نے دمشق میں 22 ربیع الثانی 638ھ مطابق 1240ء کو وفات پائی۔ آپ کا مقبرہ دمشق، ملک شام کے شمال میں جبل قاسیون کے پہلو محلہ صالحیہ میں ہے۔ اس جگہ کو اب محلہ ابن عربی بھی کہا جاتا ہے۔آپ نے علم کی اخلاقی و عملی جہات پر زور دیا ابنِ عربی کے لیے علم لامحدود وسعت کا مالک ہے- آپ کے خیال میں کوئی انسان علم کی آخری منزل تک نہیں پہنچ سکتا اور بہتری کی گنجائش ہمیشہ باقی رہتی ہے-ابن عربی کا قول ہے کہ انسان علم کا حصول بنیادی طور پر دو طریقوں سے کرتا ہے- ایک اپنے وجدان سے اور دوسرا حواسِ خمسہ یا غوروفکر سے-بلاشبہ ابنِ عربی اسلامی فکر کا عظیم سرمایہ ہیں،اْن کی علمی وراثت کی حفاظت اور تصنیفی قدروقیمت کا تعین کرنے کے لیے انفرادی اور اجتماعی سطح پر بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔