میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
تیس سال پہلے کیا ہوا؟ بھولیں نہیں!

تیس سال پہلے کیا ہوا؟ بھولیں نہیں!

ویب ڈیسک
منگل, ۱۹ جنوری ۲۰۲۱

شیئر کریں

تیس سال قبل سال 1991ء اور ماہ جنوری کی 17 تاریخ کو ہم کیسے فراموش کرسکتے ہیں؟
دو دریاؤں کی زمین پہ یہ ایک بھونچال کا دن تھا۔ دریائے دجلہ اور فرات کے درمیان واقع عراق کی سرزمین نئے امریکی ایجنڈے کا تختہئ مشق بنی تھی۔ آُپریشن صحرائے طوفان (Desert Storm) دراصل ”نیو ورلڈ آرڈر“ کا دیباچہ تھا۔ یہ آنجہانی سوویت یونین کے ساتھ سرد جنگ کے بعد جنوں خیز جنگوں کے نئے سلسلے کی ایک ابتدا تھی۔ آج کا مشرقِ وسطیٰ، اسرائیلی غلبہ، مسلمان ملکوں کی خود سپردگی اور مزاحمت کے لیے غیر ریاستی مزاج کی تشکیل کے تمام محرکات اسی جنگ سے برآمد ہوئے تھے۔

طالب علم نے تب جرمن زبان کا ایک فقرہ سنا تھا ”Tor auf“۔ یعنی دروازہ کھولو۔ یہ فقرہ دیوار برلن کے دونوں طرف سے بلند ہوا۔ پھر 9/ نومبر 1989 کو دیوارِبرلن ٹوٹ گئی۔ معاہدہ وارسا اور سوویت یونین کے تحلیل ہونے کے دن شروع ہوگئے تھے۔ دنیا نئی جغرافیائی تشکیل اور کشمکش سے دوچار ہونے والی تھی۔ امریکا نے اپنا نیا کھیل ذرا پہلے عراق پر یلغار سے شروع کردیا۔ اس میں سب کچھ تھا۔ مسلم ملکوں کی اندرونی پوپلی، کھوکھلی اور دوغلی صورتحال، امریکا پر حد سے زیادہ انحصار، امریکا کے خلاف مسلم عوامی جذبات کے استعمال کی حکمرانوں کی مصنوعی جھلکیاں، مسلمان ملکوں کے علمی معیارات کی تنزلی، عربوں کا اپنی دولت کا غلط استعمال، عام مسلمانوں کے مذہبی جذبے کو غلط سمت موڑنے کی مکارانہ کوششوں کی سرپرستی اور نہ جانے کیا کیا کچھ۔
امریکا نے 1980ء کی دہائی میں خمینی کے ایران کے خلاف جنگ میں صدام حسین کے عراق کی حمایت کی تھی۔ اس جنگ کے 1988 ء میں خاتمے کے بعد عراق کے پرکترنے کی تیاری کرلی۔ مسلم ممالک میں یہ شعور ی سطح کا نقص اور عملی سطح کا گمراہ کن سقم ہے کہ وہ امریکی کردار کے درست سیاق وسباق کو کبھی متعین کرنا ہی نہیں چاہتے۔ اس کے ساتھ ایک لاچاری یہ بھی ہے کہ مسلم ممالک کو جمہوریت سمیت کسی بھی نظم حکمرانی میں جائز حکمران اکثر حالات میں میسر نہیں آتے۔ پاکستان سے عراق تک یہ ماجرا مختلف نہیں۔ امریکا نے عالمی حالات کے مخصوص ماحول میں اسلام کو ایک نئے خطرے کے طور پر اُبھار کر نئے عالمی فرمان کی تشکیل شروع کی تو عالمِ اسلام کے اکثر حکمران مخالف وموافق دونوں صفوں میں رہ کر امریکی مقاصد کی تکمیل کررہے تھے۔ امریکا نے اپنی آزمودہ پالیسی ’تقسیم کرو اور حکومت کرو“ کو زیادہ بہیمانہ انداز میں نافذ کیا۔ اُس نے ایک طرف کویت پر زور دیا کہ وہ دونوں ممالک کے علاقوں میں پھیلی آئل فیلڈز کے استحصال اور نقصان پہنچانے پر عراق سے فوری ہرجانہ طلب کرے، دوسری طرف بغداد کو یہ جھوٹا یقین دلایا کہ وہ اس تنازع میں غیر جانب دار رہے گا۔ یہاں تک کہ ایک موقع پر عراق میں متعین امریکی سفیر نے صدام حسین کو کویت پر حملے کے لیے بھی اُکسایا۔ یہ سارا کھیل امریکا کی ایک خفیہ حکمت عملی ”آپریشن ڈیزرٹ شیلڈ“ کے تحت کھیلا جارہا تھا۔ امریکی ہلاشیری کے نتیجے میں عراقی فوج نے 2 /اگست 1990 کو کویت پر حملہ کر کے قبضہ کر لیا۔ امریکا کی عین مرضی کے مطابق بعد کے سارے واقعات رونما ہوتے رہے۔ برطانوی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر اور امریکی صدر جارج ایچ بش نے سعودی عرب میں اپنی فوجیں تعینات کردیں۔ یہ اگلے کئی برسوں تک سعودی عرب کے وسائل دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کا ایک طے شدہ منصوبہ تھا، جس پر آج بھی عمل ہورہا ہے۔ امریکا نے فوراً بعد ایک عالمی اتحاد تشکیل دیا۔ جنرل شوارزکوف کے حکم پرسات لاکھ پچاس ہزار کی ایک فوج تشکیل دے کر خلیج بھیج دیا گیا جن میں سے 70 فیصد صرف امریکی تھے۔ یہ 17/ جنوری کی ہی تاریخ تھی جب امریکی سربراہی میں اتحادی فضائیہ نے ایک لاکھ دس ہزار سے زیادہ محصور وبے خبر عراقی فوجیوں پر 2800طیاروں کے ساتھ دولاکھ پچاس ہزار بم برسائے، جن میں کلسٹر بم بھی شامل تھے جو دس ملین کے قریب جاری ہونے والے دیگر اسلحے کی مقدار کے ساتھ تھے۔ اس مکروہ اتحاد میں امریکا، برطانیا، فرانس، اٹلی، یونان، اسپین، پرتگال، بیلجیئم، نیدرلینڈ،ڈنمارک، ناروے اور کینیڈا کی فضائی اور بحری افواج شامل تھیں۔ جس نے اپنی نصف ملین فوج سے 23/ فروری کو زمینی کارروائی شروع کی،بش نے 28/ فروری ایک عارضی فائر بندی کا اعلان کیا۔ 42روز تک جاری جنگ کا یہ اعلانِ اختتام ضرور تھا، مگر کہاں؟ پھر بھی ٹہر کر 42 روزہ جنگ کی بہیمت کا ایک معمولی اندازا لگا لیجیے۔ امریکا نے اس بیالیس روزہ جنگ میں 900ٹن،افزودہ یورینیئم والے بم، فیول ائیر ایکسپلو، سپر بم اور کلسٹر بم سیدھے شہریوں اور شہری تنصیبات پر نہایت سفاکی سے گرائے، جس کا براہِ راست تماشا سی این این کے ذریعے دنیا بھر کو دکھایا گیا۔بھولیں نہیں! یہ نئے عالمی فرمان میں جدید میڈیا کے کام کی نئی اور گھناؤنی تشریح کے بھی دن تھے۔

یاد رکھنا چاہئے کہ سرمایہ دارانہ چھتری تلے جنگوں کے اس کاروبار میں ”مخالفت“ بھی دراصل اسی کھیل کا ایک حصہ ہوتی ہے۔ جنگ کی موافق و مخالف قوتوں کے درمیان ایک ”گہرا“ اور نظر نہ آنے والا مکارانہ نامیاتی رشتہ ہوتا ہے۔ پہلی خلیجی جنگ سے اس کی بھی کربناک وضاحت ہوئی۔ جنگ سے پہلے مغرب کی نام نہاد امن تحریکیں بیدار ہوئیں، جنہوں نے بظاہر جنگ کی مخالفت کرتے ہوئے نعرہ دیا:پابندیاں لگاؤ جنگ نہیں (Sanctions Not War)۔ اس دلکش نعرے کے پیچھے جنگ سے زیادہ بڑی سفاکیت پوشیدہ تھی۔ سب اپنا طے شدہ کھیل کھیل رہے تھے۔ تب کسی کو معلوم نہیں تھا کہ اس نعرے سے عراقی عوام پر ظلم کے جو پہاڑ ٹوٹنے ہیں وہ بجائے خود ایک مسلسل جنگ کے مصائب سے بڑھ کر ہوں گے اور یہ جنگی تباہ کاریوں سے زیادہ ہلاکت خیز ثابت ہوں گے۔ مغربی دانشوروں نے بعد میں تسلیم کیا کہ یہ پابندیاں ہیروشیما اور ناگاساکی کے ایٹمی حملوں سے زیادہ ہلاکتوں کا سبب بنیں۔عراق میں اقوام متحدہ کی پابندیوں کے باعث اکتوبر 1996 ء تک پانچ سال سے کم عمر کے پانچ لاکھ سرسٹھ ہزار معصوم بچے ہلاک ہوئے۔ جبکہ مجموعی ہلاکتوں کی تعداد دس لاکھ تھی۔ اس صورتِ حال پرسابق سیکریٹری خارجہ میڈیلین البرائٹ سے ایک انٹرویومیں پوچھا گیا:ان دس لاکھ ہلاکتوں پر موصوفہ کا
ردِ عمل کیا ہے؟ اسرائیلی نژاد یہودی النسل سیکریٹری خارجہ نے دو لمحوں کا توقف اور ایک لمحے کی شرمندی کے بغیر کہا: یہ ہلاکتیں قابل قبول اور انتہائی قدروقیمت کی حامل ہیں (It is acceptable and worth it.)۔

امریکا نے سوویت یونین کی تحلیل سے ذرا پہلے عراق کی اس جنگ سے اپنے مخالفین او راتحادیوں کو ایک واضح پیغام بھیجا کہ امریکا سیاسی، معاشی اور فوجی تمام جہتوں سے دنیا کی واحد قوت ہے اور امریکی قیادت کا کوئی متبادل نہیں۔ اسی پہلی خلیجی جنگ میں اٹلی نے پہلی مرتبہ امریکی کمان کے تحت حصہ لیا، جو اطالوی آئین کے آرٹیکل 11 کی خلاف ورزی تھی۔ نیٹو ممالک نے اپنی افواج اور ٹھکانوں کوامریکا کے لیے غیر سرکاری طور پر ہمہ وقت دستیاب کردیا۔ جنگ کے کچھ ماہ بعد نومبر1991 ء میں امریکی حکمت عملی کے نئے تناظر میں اٹلانٹک کونسل نے ایک”نئے اسٹریٹجک تصور“ کی بنیاد رکھی۔ اسی سال اٹلی میں ”نیا دفاعی ماڈل“سامنے آیا۔جس کے تحت اٹلی نے اپنے آئین کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے قومی مفادات کے تحفظ کے نام پر مسلح افواج کے ”مشن“کو جہاں بھی ضروری ہو جاری رکھنے کا اشارہ دیا۔ خلیجی جنگ کے ساتھ یہیں سے وہ حکمت عملی اُبھری، جس نے امریکی کمانڈ کے تحت ہونے والی جنگوں بشمول یوگوسلاویہ 1999، افغانستان (2001)، عراق (2003)، لیبیا (2011)، شام (2011 )سمیت کئی جنگوں کا راستا ہموار کیا۔

سابق امریکی صدر بش سینئر کی اس پہلی خلیجی جنگ کے ٹھیک بارہ برسوں بعد عراق کی سرزمین دوبارہ امریکی جنگ کا ایندھن بنادی گئی۔ یہ 20/ مارچ 2003ء کی خونی تاریخ تھی۔ اس مرتبہ بغداد کے عجائب گھروں اور لائبریریوں تک کو لوٹ لیا گیا، امریکا اب عربوں کے تاریخی مرکز کی تذلیل پر بھی تُلا تھا۔ یہ دوسری واردات بش سینئر کے بیٹے اور بل کلنٹن کے بعد صدارت سنبھالنے والے صدر بش جونیئر کی تھی۔ اس نئی جنگ کے طویل ہلاکت خیز بہاؤ میں 20/جنوری 2004ء کو جارج ڈبلیو بش نے اپنے اسٹیٹ آف دی یونین پیغام میں جارحانہ جنگ کو جاری رکھنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہاتھا: امریکی فوجی مجبوروں کو امید اور مظلوموں کو انصاف دے کر امریکا کو محفوظ بنارہے ہیں۔۔۔۔ امریکا دہشت گردوں پر حملہ کرچکا ہے“۔ جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے تو 17/ جنوری کی تاریخ پیچھے چھوڑ آئے ہوں گے،اور صرف ایک روز بعد امریکی صدر بش جونیئر کے اس خطاب کے دن کی تاریخ طلوع ہوگی جب اُس نے عراق پر حملے کو ”خوبصورت“ الفاظ کا جامہ دیا تھا، مگر امریکا میں نئے ”منتخب“ صدر جوبائیڈن کی تقریب حلف برداری کی بھی تاریخ یہی 20/جنوری ہے۔ اس تاریخ کے لیے امریکا کی تمام پچاس ریاستوں میں مسلح مظاہروں کی تنبیہ جاری کی جاچکی ہے۔خدشہ ہے 6/ جنوری جیسے فسادات دوبارہ امریکا میں نہ پھوٹ پڑیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ایسی حرکتوں پر امریکا دوسرے ملکوں میں ”دہشت گرد“ڈھونڈ لیتا ہے۔اس مرتبہ امریکی افواج خود امریکا میں تعینات ہونگیں، اور اس کے سامنے خود امریکی عوام کھڑے ہوں گے۔ جب امریکی صدر کی تقریب حلف برداری کے یہ رنگین وسنگین مناظر ایک روز بعد اُبھر رہے ہوں گے تو خلیجی جنگ کی تیسویں برسی کو یاد دلانے والا کوئی نہ ہوگا۔مگر تیس سال پہلے کیا ہوا تھا، یہ آپ نہ بھولیں!
٭٭٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں