سفر یاد۔۔۔قسط44
شیئر کریں
صبحفجر سے پہلے ہماری بس مکہ مکرمہ کے ہوٹل پہنچ گئی، دل میں عجب سی ہلچل مچی ہوئی تھی، کعبہ شریف کے اس قدر قریب ہونےکا احساس جیسے دل کو الٹ پلٹ کر رہا تھا ، کوشش تھی کہ فوری طور پر حرم شریف پہنچیں اور اللہ کے گھر کا دیدار کریں۔ اللہ کا گھردنیا میں وہ پہلی عبادت گاہ ہے جو انسانوں کے لیے قائم کی گئی اور جسے تمام جہانوں کے لیے مرکز ہدایت بنایا گیا۔حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک متعدد انبیاءنے اپنے اپنے وقت میں کعبہ شریف کی تعمیر میں حصہ لیا۔اس جگہ کی تقدیس کا کیا کہنا، روئے زمین پر کوئی جگہ اس جگہ سے زیادہ متبرک نہیں، جلیل القدر انبیاءنے اس کا طواف کیا ، ان لمحات کی سعادت کا کیا کہنا جب خاتم الانبیاءصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کے گھر کا طواف کیا اور حجر اسود کو بوسہ دیا۔ان سعادت سے بھرپورساعتوں پر ہزاروں سال قربان کہ جب ہزاروں صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ طواف کعبہ کر رہے تھے ، حجر اسود کو بوسے دے رہے تھے، اپنے رب کو دل کی گہرائیوں کے ساتھ پکار رہے تھے۔ ہمارے دل میں بھی کعبہ شریف کو دیکھنے اور حجر اسود کو بوسہ دینے کی خواہش تڑپ رہی تھی۔ ہوٹل کے کمرے میں بیگ رکھا اور سیدھے حرم کی راہ لی۔ حرم شریف ہوٹل سے آدھا کلو میٹر کے فاصلے پر تھا، ہمارے قدم جیسے جیسے سوئے حرم بڑھ رہے تھے، شوق کا عالم بھی بڑھتا جا رہا تھا، ہم جس سڑک پر جا رہے تھے وہاں سے حرم شریف کی عمارت نظر نہیں آرہی تھی لیکن پھر دائیں ہاتھ کی سڑک پر مڑتے ہی حرم شریف کا دیدار ہو گیا، آنکھ پُر نم تھی ہمیں اپنی خوش قسمتی پر ناز ہو رہا تھا کہ اللہ پاک نے اپنے حرم کی زیارت کا موقع نصیب کیا۔ حرم شریف کے نظر آتے ہی قدم خود بخود تیز ہو گئے، دل کی دھڑکنیں بھی تیز ہوتی جا رہی تھیں، اب حرم شریف سامنے تھا، ہم باب فہد سے حرم شریف میں داخل ہوگئے۔ دل شوق و محبت کے جذبات سے معمور اور آنکھیں بیت اللہ کی زیارت کے لیے بےتاب تھیں۔ صحن حرم سے پہلے ہی کعبہ شریف کی جھلک دکھائی دی، آنکھیں چھلک پڑیں۔ تیز قدموں سے صحن حرم میں قدم رکھا کعبہ شریف سامنے تھا۔ اللہ کے جلال و جمال کا ایسا حسین امتزاج نظروں میں تھا کہ ایسا نظارہ نہ اس سے پہلے دیکھا نہ بعد میں دنیا کا کوئی منظر اس جیسا کیا اس سے ہزار درجے کم جیسا بھی محسوس نہ ہوا۔ یا اللہ یہ میں کہاں آگیا ہوں ، کہاں میں گناہ گار بندہ کہاں یہ مقام کہ تیرے گھر کا دیدار ہو رہا ہے۔ ہوش گم ہو چکے تھے سدھ بدھ کھو چکی تھی، زبان پر تلبیہ اور نگاہوں سے آنسو جاری تھے۔ رات کی سیاہ ڈوری دن کے سفید دھاگے میں بدل رہی تھی، حرم پر نور کی بارش ہو رہی تھی قلب پر تجلیات برس رہی تھیں۔
اب عمرے کا فریضہ پورا کرنا تھا، عمرے کے لیے درج ذیل اعمال پورے کرنا ضروری ہیں۔ نمبر ایک احرام باندھنا، نمبر دو طواف کرنا، نمبر تین سعی کرنا، نمبر چار بال منڈوانا اور نمبر پانچ احرام سے نکلنا۔۔ ہم نے طواف شروع کیا تو جسم کا رواں رواں رب کائنات کی بزرگی اور وحدانیت کی گواہی دینے لگا، زبان و دل پر دعائیں مچلنے لگیں۔ ایک عالم سرخوشی میں فریضہ طواف ادا کیا، خوش قسمتی سے حجر اسود کو بوسہ دینے کی سعادت بھی نصیب ہو گئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم طواف کے دوران حجر اسود کا بوسہ لیا کرتے تھے۔ حجر اسود کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہ جنت کا پتھر ہے۔ ابراہیم علیہ السلام جب کعبہ کی تعمیر فرما رہے تھے تو تھوڑی سی جگہ انھوں نے کسی خوبصورت پتھر کے لیے رکھی اور اسماعیل علیہ السلام سے فرمایا کوئی خوبصورت پتھر تلاش کر کے لاو¿ جو یہاں لگایا جا سکے۔ ایسے میں حضرت جبرائیل علیہ السلام جنت سے یہ پتھر لے آئے جسے حجر اسود یعنی کالا پتھر کہا جاتا ہے۔ طواف کے بعد صفا و مروہ کے درمیان سعی کا مرحلہ بھی بخوبی طے کیا، جس کے بعد ہم نے حرم سے باہر جاکر سر کے بال منڈوا لیے۔ عمرہ ادا ہو چکا تھا۔ ادائیگی¿ عمرہ کے بعد احرام کھولا جا سکتا ہے۔ ہم نے ہوٹل واپس جا کر کپڑے تبدیل کیے اور دوبارہ حرم شریف پہنچ گئے جہاں دیر تک نوافل کی ادائیگی کا سلسلہ جاری رہا۔ نماز ظہر کے بعد ہماری بس مدینہ شریف کیلیے روانہ ہو گئی۔۔۔۔۔۔ جاری ہے
٭٭