پناہ گزین سے عالمی چیمپئن بننے والی بہادر لڑکی
شیئر کریں
ڈاکٹر جمشید نظر
اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق شام کے ساڑھے سات لاکھ سے زائد پناہ گزینوں کو نوآبادی کے حوالے سے شدید ترین ضروریات درپیش ہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کی شام سے تعلق رکھنے والی کم عمرپناہ گزین لڑکی یسریٰ مردینی کو اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر کی سب سے کم عمر خیرسگالی سفیر بننے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔یسریٰ مردینی کویہ اعزاز اس کی بہادری پر ملا ہے ۔سن 2015میں شام کے جنگ زدہ ماحول سے جان بچا کر یسریٰ مردینی اپنی چھوٹی بہن سارا مردینی اور خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ سمندر کے راستے یورپ کی طرف نکلیں تو سمندر میں ان کی کشتی کو حادثہ پیش آگیا، کشتی کا انجن بند ہوگیا اور اس کو چلانے کے لئے کوئی چپو بھی نہیں تھا،دور تک کوئی ساحل بھی نظر نہیں آرہا تھا اور کشتی میں سواربالغ افراد میں سے کسی کو بھی تیراکی نہیں آتی تھی اور تیراکی آتی بھی ہوتی تو وہ سمندر کے بیچوں بیچ کھڑی کشتی کو آگے کیسے بڑھا سکتے تھے۔کشتی میں سوارکم عمر لڑکیوںیسریٰ اور اس کی بہن ساراکو تیراکی آتی تھی ۔دونوں بہنوں نے سمندر میں چھلانگ لگائی اورتیراکی کرتے ہوئے کشتی کو آگے کھینچنا شروع کردیا ۔کم عمر لڑکیوں کا کشتی کوکھینچ کر آگے بڑھانا ایک ناقابل یقین بات تھی بہرحال یسریٰ اور سارا کئی گھنٹے کشتی کو آگے دھکیلتی رہیں ۔آخرکار ان کو ساحل نظر آگیادونوں بہنیں کشتی کو کھینچتے کھینچتے بے حال ہوچکی تھیں لیکن انھوں نے ہمت نہ ہاری اور کشتی کو ساحل پر پہنچا دیا۔ اس طرح دو چھوٹی بچیوں کی وجہ سے کشتی میں سوار اٹھارہ افراد کی زندگیاں بچ گئیں۔اس کارنامہ پر یسریٰ کو یواین ایچ سی آر کی خیر سگالی سفیر مقرر کیا گیا۔یہی نہیں یسریٰ مردینی نے سن2016 ریو اولمپکس اورسن2020میں ٹوکیو اولمپکس میں بھی حصہ لیا اور تیراکی کی عالمی چیمپیئن بھی بن گئیں ۔ پناہ گزین بچی یسریٰ نے جس طرح اٹھارہ افراد کی جان بچائی اور پھر عالمی چیمپیئن اور عالمی سفیر بنی، یہ واقعی پناہ گزین افراد کے لئے ایک بہت بڑی مثال ہے۔ اس کی حیران کن داستان پر نیٹ فلکس کی جانب سے ایک ڈاکیومنٹری فلم ”دی سویمر” بھی بنائی گئی جس کی نمائش نیو یارک میںاقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں کی گئی ۔
اقوام متحدہ کے مہاجرین سے متعلق ادارے آئی او ایم کی رپورٹ کے مطابق سن2014سے سن2022تک دنیا بھر میں اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر خطرناک سفر کرنے والے چالیس ہزار سے زائد افراد مہاجرین ہلاک ہوچکے ہیں۔جو تارکین وطن قانونی طریقہ اپنا کر کسی دوسرے ملک میں جاتے ہیں ان کی ہلاکتوں اور گمشدگی کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ تارکین وطن کسی بھی ملک کی اقتصادی اور سماجی ترقی میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔تارکین وطن معاشی اور اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے کے باوجود دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت رکھتے ہیں جس کی وجہ سے انھیں پہلے درجے کے شہریوں کی حقارت کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے ۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق تارکین وطن اپنے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لئے کام کی تلاش اورتعلیم کے حصول کے لئے کسی دوسرے ملک میں جابستے ہیں۔
دنیا میں تارکین وطن کی بڑھتی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے4 دسمبر 2000 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 18 دسمبر کو بین الاقوامی تارکین وطن کے دن کے طور پر منانے کا اعلان کیاتاکہ تارکین وطن کی خدمات اور حقوق سے متعلق شعورکو اجاگر اور عالمی سطح پر تارک وطن کو درپیش مسائل کا ازالہ کیا جاسکے۔اس کا تھیم ہے ”آج عمل کریں”۔اس سے قبل 1990 میں ، اسمبلی نے تمام تارکین وطن کارکنوں اور ان کے اہل خانہ کے حقوق کے تحفظ سے متعلق بین الاقوامی کنونشن کو اپنایا۔ 14 اور 15 ستمبر 2006 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بین الاقوامی ہجرت اور ترقی کے بارے میںعالمی سطح کے ایک ڈائیلاگ کا انعقاد کیا جس میں 132 ممالک نے حصہ لیا۔اس موقع پرتمام ممالک نے اس بات پر زور دیا کہ بین الاقوامی نقل مکانی ایک بڑھتا ہوا رجحان ہے اور یہ اصل ممالک اور منزل مقصود کے ممالک کی ترقی میں مثبت شراکت دے سکتا ہے لیکن اس کے لئے ٹھوس اور پائیدار پالیسیوں پر عملدرآمد کرانا ہوگا۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق بہت سے افراد اپنی پسند سے اور بہت سے لوگ اپنی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کی خاطر ہجرت کرتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق 2019 میں ، عالمی سطح پر تارکین وطن کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 272 ملین تھی جو 2010 کے مقابلے میں 51 ملین زیادہ تھی۔ایک رپورٹ کے مطابق سن2020 ء میں تقریباً 281 ملین افراد بین الاقوامی تارکین وطن تھے جو کہ عالمی آبادی کا 3.6 فیصد ہیں۔پاکستان سے 1960ء کی دہائی میں اپنا ذریعہ معاش بہتر بنانے کے خیال سے بڑی تعداد میں لوگ ترک وطن کر کے یورپ و دیگر ترقی یافتہ علاقوں میں آباد ہونا شروع ہوئے۔حالیہ جائزے کے مطابق تاحال سمندر پار پاکستانیوں کی مجموعی تعداد تقریباً ایک کروڑسے زائد ہے جو سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں میں زیادہ ہے۔ اس کے بعد برطانیہ، امریکہ، کینیڈا، یونان، اٹلی، اسپین، روس، فرانس، جرمنی، ناروے، ڈنمارک، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ملائشیا اور جنوبی افریقہ میں پاکستانی ورکرز اور تارکین وطن پھیلے ہوئے ہیں۔ پاکستانی ورکرز کو دیار غیر میں مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑتا رہتا ہے۔ وہ پاکستانی جو اپنا وطن اور سب کچھ پیچھے چھوڑ کر ملازمت کی تلاش یا اچھی زندگی کی تلاش میں دیار غیر میں پناہ لیتے ہیں ان میں زیادہ تر کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔