کامران ٹیسوری کا کردار مشکوک ، پیپلزپارٹی اور ایم کیوایم کے دھڑے ناراض
شیئر کریں
(خصوصی رپورٹ: باسط علی) ایم کیو ایم کی جانب سے مختصر وقت کے لیے لی گئی ایڈمنسٹریٹر شپ کا ایجنڈا واضح ہونے لگا ہے۔ اپنے مستقبل سے مایوس ایم کیوایم کے مختلف افراد کراچی کی ایڈمنسٹریٹر شپ کو مال بٹورنے کا ایک شاندارموقع سمجھ کر استعمال کررہے ہیں۔ باخبر ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ ایم کیوایم نے اپنے ہی امیدوار عبدالوسیم کا نام بھی اس منصب کے حوالے سے اس لیے ڈراپ کیا تھا کیونکہ اس طرح سیاسی ایڈمنسٹریٹر ہونے سے مخالف سیاسی جماعتیں اس پر مسلسل تنقید کرتی رہتیں اور سیاسی جماعتوں کی تنقیدی توجہ کے باعث ایم کیوایم کا مال بناؤ ایجنڈا متاثر ہوجاتا۔ اطلاعات کے مطابق میونسپل کمشنر کے طور پر سید شجاعت حسین کو چنا گیا ہے جو اس نوع کے کاموں میں معاون ثابت ہوں گے۔ ڈاکٹر سیف الرحمان سیانے افسر ہونے کے باعث ایم کیوایم کے کاموں میں براہ راست ملوث ہونے کے بجائے اپنے میونسپل کمشنر کے ذریعے کام نکلوانا چاہتے ہیں۔ واضح رہے کہ افضل زیدی مرتضی وہاب کے دست راست تھے اس لیے چن کر ایم کیوایم کی منشاء کے مطابق افسر کو لگایا گیا جو انہیں ہر کام کرکے دے گا۔ مختصر مدت کے لیے لائے گئے ایڈمنسٹریٹر کی جانب سے تمام محکمہ جات سے اسٹاف کی مکمل لسٹ دو دو مرتبہ منگوائی گئی ہے جسکا مقصد الیکشن میں من پسند افراد کو تعینات کرنا اور بہت سے افراد کو ٹھکانے لگانا بھی ہے۔ اسی طرح محکمہ جاتی پریذنٹیشن کے نام پر ہر محکمہ سے تفصیلات بھی دو دو مرتبہ مانگی گئی ہے ۔ ایسے محکموں پر خاص توجہ دی گئی ہے جو منفعت بخش ہیں۔ایڈمنسٹریٹر کی جانب سے زمینوں اور دکانوں اورٹھیکوں سمیت آکشن اور بہت سے معاملات کے متعلق ایم اینڈ ای، بی اینڈ آر، فنانس، ڈی جی ٹیکنیکل سے تفصیلات طلب کی گئی ہیں جو جمع کی جارہی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق بلدیاتی محکموں میں وسیم اختر کی کنور ایوب، عمران راجپوت، فرید تاجک، را شد نظام، جمیل فاروقی اور نعمان ارشد پر مشتمل پرانی ٹیم متحرک ہو چکی ہے۔ محکمے میں جاری تمام تفصیلات بہادر آباد میں وسیم اختر کو دی جا رہی ہے ۔ دوسری طرف کامران ٹیسوری اپنا کھیل کھیل رہے ہیں وہ دونوں نہیں تینوں ہاتھوں میں لڈو لیے بیٹھنا چاہتے ہیں۔ بہادر آباد، فاروق ستاراور پی پی پی تینوں کے لاڈلے بننے کی کوششوں میں وہ روز بروز مشکوک سے مشکوک ہوتے جارہے ہیں۔گورنر سندھ کی جانب سے بلدیہ عظمیٰ کراچی کے معاملات میں غیر معمولی دلچسپی لینے کے باعث ایم کیوایم کے تمام دھڑے اور پیپلزپارٹی بھی اب خائف دکھائی دیتی ہے۔عام طور پر ان حلقوں میں یہ کہا جارہا ہے کہ کامران ٹیسوری کراچی کے ایڈمنسٹریٹر ہیں یا گورنر؟پیپلزپارٹی بھی ان تمام سرگرمیوں پر معترض دکھائی دیتی ہیں۔ مستقبل میں بلدیہ عظمیٰ کراچی کو کنٹرول میں رکھنے کی یہ جنگ مختلف حلقوں کی جانب سے جاری ہے۔ یہ تمام حلقے ایک دوسرے کے ساتھ سیاسی اتحاد کے ساتھ ایک دوسرے کو گرانے کی کوششوں میں بھی دکھائی دیتے ہیں۔ اس ضمن میں پیپلزپارٹی کا کھیل بھی واضح ہونا شروع ہوگیا ہے۔ پیپلزپارٹی کی قیادت نے مرتضی وہاب کو مکمل متحرک کرتے ہوئے ایم کیوایم کے بلدیاتی سمیت لوٹ مار کے تمام معاملات اور اندرونی دھڑے بندیوں پر نظر رکھنے کی ہدایت کی ہے ۔ ایم کیو ایم میں دھڑے بندیاں عروج پر ہے ۔ حالیہ خبروں کی اشاعت پر رابطہ کمیٹی کے اراکین ایک دوسرے پر شک کر رہے ہیں سینئر ڈپٹی کنوینر عامر خان مرکز کے باہر سے معاملات چلا رہے ہیں۔ ڈاکٹر خالد مقبول نے خود کو کامران ٹیسوری تک محدود کر لیا ہے ۔ کے ایم سی کے معاملات پر حساس ادارے بھی متحرک ہوگئے ہیں۔ جبکہ پیپلز یونیٹی اور پی پی پی کی آفیسر ایسوسی ایشن کو بھی پی پی پی نے متحرک ہونے اور معاملات پر کڑی نظر رکھتے ہوئے کام کرنے کی ہدایت کی ہے ۔ جس نے کے ایم سی کی سیاست میں ایک نیا رخ لے لیا ہے کیونکہ پورٹ قاسم اتھارٹی میں شکست اور واٹر بورڈ میں اب ون ٹو ون ریفرنڈم کے حوالے سے بھی ایم کیو ایم پریشان ہے ۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ متحدہ کو ایک کرنے کے خواب دیکھنے والے اب سخت مایوسی کے شکار ہیں۔