میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اداروں کو حدود طے کرنی چاہئیں ،فواد چودھری

اداروں کو حدود طے کرنی چاہئیں ،فواد چودھری

ویب ڈیسک
بدھ, ۱۸ دسمبر ۲۰۱۹

شیئر کریں

وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا ہے کہ میں بڑے دنوں سے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ اداروں کو آپس میںبات چیت کرنی چاہئے اور اپنی حدود کو طے کرنا چاہئے ، اگر آپ اپنی حدود کو طے نہیں کرتے تو پھر پاکستان میں لگتا یہ ہے کہ آپ اختیارات کے لئے مسلسل دھینگا مشتی کر رہے ہیں اور ایک دوسرے کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عدلیہ معاشرے کا بہت ہی اہم ادارہ ہے اور اسی طرح فوج کے بغیر بھی ملک نہیں ہوا کرتے ۔ تین ، چار مسلسل فیصلے آئے اس سے فوج میں تاثر گیا کہ انہیں انڈرمائن کیا جا رہا ہے اور پھر گذشتہ روز ایک بیان آیا ظاہر ہے وہ ردعمل آنا ہی تھا۔ میں پہلے بھی درخواست کر رہا تھا کہ اپنی رفتار کو مدہم کریں اگر آپ مد ہم نہیں کریں گے تو پھر تصادم ہو گا اور بدقسمتی سے یہ تصادم ہوا ہے اور اب جس طریقہ سے معاملات آگے بڑھ رہے ہیں وہ بھی کافی پیچیدہ ہے اب پتہ نہیں ہم آگے اس معاملہ کو کس طرح اپنی حدود میں رکھ سکتے ہیں۔ان خیالات کا اظہار فواد چوہدری نے نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح امریکہ نے گریٹ ریسیشن کا مقابلہ نیو ڈیل کے نظریہ کے ذریعہ کیا تھا اس طرح کی ہم آپس میں گریٹ ڈیل کریں اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ملک کو ان حالات سے باہر نکالنے کی کوشش کریں ۔انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف کیس میں اپیل یا نظرثانی میں جائیں یا نہ جائیں وہ قانونی موشگافیاں ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک سیاسی کیس ہے اور سیاسی کیس کا تاثر حقائق سے زیادہ اہم ہوتا ہے ، حقائق علیحدہ چیز ہوتی ہے اور تاثر ایک علیحدہ چیز ہوتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے تاثر یہ بن گیا ہے کہ اس کیس میں فوج کو انڈرمائن کرنے کی کوشش ہوئی ہے اور فوج نے بطور ادارہ اس پر ری ایکٹ کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں صورتحال کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے ، یہ حکومت کے لئے پشیمانی کی بات ہے اور ادارے کے ردعمل سے بھی پتہ چل گیا ہے کہ ان کا مزاج کیسا ہے اور انہوں نے کیا محسوس کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سیاست بہتے دریا کہ طرح ہوتی ہے جس میں نیا پانی آتا ہے ، نئے حقائق ہوتے ہیں، نئی چیزیں ہوتی ہیں اور اس کے مطابق ہی چلنا چاہئے ، جو لوگ ماضی کے ساتھ فکس ہوجاتے ہیں اور بدلے لینے پر چلے جاتے ہیں تو پھر وہ آگے جا نہیں سکتے ۔ میرے خیال میں ضروری ہے کہ ہم اپنے ملک کا مستقبل کیا طے کرنا چاہتے ہیں، 60 فیصد سے زیادہ ہماری آبادی 25 سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے ہم ان کو کیا دے کر جانا چاہتے ہیں وہ زیادہ اہم ہے ۔ انہوں نے کہا کہ فیصلہ کے دور رس تو کیا فی الحال اس فیصلہ کے قریبی اثرات کوئی اچھے نظر نہیں آرہے ، اس سے تصادم بڑھا ہے اور اس سے ایک دوسرے سے مقابلہ بڑھا ہے ، اس سے یہ لگا ہے کہ ہم ایک دوسرے کو انڈرمائن کرنا چاہتے ہیں، اب دیکھتے ہیں یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اس کے بعد ہی طے ہو سکے گا کہ اس کے کیا اثرات ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں