میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
نابالغ کی عارضی ومستقل حوالگی کا پاکستانی قانون

نابالغ کی عارضی ومستقل حوالگی کا پاکستانی قانون

میاں اشرف عاصمی ایڈوکیٹ
پیر, ۱۸ دسمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

جسے حاصل ہی اِس مقصد کے لیے کیا گیا تھا کہ اِس ملک میں نبی پاکﷺ کا لایا ہوا نظام نافذ کیا جائے گا۔ لیکن حضرت قائد اعظمؒ کے وصال کے بعد قوم کی قیادت بھیڑیا صفت حکمران اشرافیہ کے پاس چلی گئی یوں نظام مصطفیٰﷺ کا نفاذ نہ ہو سکا۔ بلکہ اِس ملک کے حکمران اپنے بیرونی آقائوں کو خوش کرنے کے لیے قران و حدیث سے متصادم قوانین بھی بناتے رہے اور ابھی تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ سود کے حوالے سے حکومت نے اپیل دائر کر رکھی ہے۔ ناموس رسالت ﷺ اور نبی پاکﷺ کی ختم نبوت کے حوالے سے بنائے ہو ئے قوانین سے یہی حکمران طبقہ چھیڑ چھاڑ کرتا رہتا ہے۔ عدالتوں کا نظام اِتنا گھسا پٹا ہے کہ ٹرائل کورٹ سے سپریم کورٹ تک انصاف لینے کے لیے تقریباً چالیس سال صرف ہوجاتے ہیں۔ انگریز کی جانب سے قائم کردہ نظام انصاف کا بھی دھڑن تختہ ہو گیا۔ کلمہ طیبہ کی بنیاد پر بننے والے ملک میں کرپشن ،مادیت سے محبت نے اِس طرح ڈیرئے ڈالے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ رشوت سفارش بد دیانتی لوٹ مار کے کلچر نے معاشرئے سے امن و سکون چھین لیا۔ پوری دُنیا میں جس معاشرتی نظام اور والدین کے عزت و احترام کے حامل بنیادی یونٹ گھر کی مشالیں دی جاتی تھیں۔
وہ نظام کرپشن لوٹ مار کی کمائی،موبائل فون اور انٹرنیٹ کے استعمال سے پیدا ہونے والی بے راروی کی بھینت چڑھ گیا۔ گھر سے بھاگ کر شادی کرنے کا رحجان اور پھر طلاقوں کی شرح میں اوسان خطا کر دینے والا اضافہ اور پھر اِسی تسلسل کا شاخسانہ کے ماں باپ کی علحیدگی کے سبب بچوں کی حوالگی اور اُن کی پروش کے معاملات۔ سب کچھ تو بکھرکر رہ گیا۔ لو میرج میں اضافے کی وجہ سے طلاقیں بھی بہت تیز رفتار ہو گئی ہیں۔اور یوں گھریلو ناچاقیوں کا سارا وزن بے چارئے نابالغ بچوں پر آ پڑا ہے۔ ماں باپ کی علحیدگی سے بچوں پر جو مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں اُن اثرات میں کمی کرنے کے لیے اِس ملک کا بوسیدہ نظام انصاف جہاں آئے روز ہڑتالیں ہوتی ہیں جہاں انصاف بکتا ہے جہاں ایک ایک جج کے پاس روزانہ کی بنیاد پر دو دو سو کیس زیر سماعت ہوتے ہیں کیسے انصاف فراہم کیا جاسکتا ہے۔ زیر نظر آرٹیکل پاکستان میں مروجہ قانونِ گارڈین اینڈ وارڈ ایکٹ کے تحت نا بالغ/ نا بالغہ کی ماں یا باپ یا کسی اور شخص کو حوالگی کے حوالے سے لکھا گیا ہے۔ اِس آرٹیکل میں ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلہ جات کو بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح والدین علحیدگی کے بعد بچوں کی گارڈین شپ حاصل کرسکتے ہیں۔ اِس آرٹیکل میںگارڈین اینڈ وارڈ ایکٹ 1890 کے سیکشن 12 اور سیکشن 25 کے حوالے سے بچی یا بچے کی عارضی و مستقل حوالگی کے حوالے سے پاکستانی قوانین اور اعلیٰ عدلیہ کے فیصلہ جات کا حوالہ پیش خدمت ہے۔
عدالت کسی بھی شخص کو یہ حکم دئے سکتی ہے کہ کہ اگر نابالغ بچہ یا بچی اُس کے پاس ہیں تو اُسے عدالت میں پیش کرئے یا اُس کے حوالے کرئے جس کو گارڈین کورٹ نے گارڈین مقرر کیا ہے۔
200YLR 2215 کے مطابق گارڈین اینڈ وارڈ ایکٹ کے سیکشن 12 گارڈین گارڈین کورٹ کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ کسی بھی شخص جس کے پاس نابالغ بچہ یا بچی ہے ۔ اُسے عدالت کے سامنے پیش کرئے یا اُس شخص کے سامنے جس کو عدالت نے اِس مقصد کے لیے مقرر کیا ہو۔ عدالت عاضی طور پر نابالغ بچہ یا بچی کی حضانت/ حوالگی جسے بہتر سمجھے کر سکتی ہے۔ اگر نابالغ بچی ہے تو اُسے اخلاقی اقدار اور معاشرئے کی رسم و رواج کے مطابق عزت وا حترام کے ساتھ عدالت میں پیش کیا جائے۔ سب سیکشن 3 عدالت کو اِس بات سے منع کرتا ہے کہ وہ نابالغ بچی کی حضانت/ حوالگی کسی ایسے شخص کو کر دئے جو یہ دعویٰ کرتا ہو کہ وہ اِس کاخاوند ہے جب تک کہ نابالغہ کے والدین نے اپنی رضا مندی سے اُسے اُس کے حوالے نہ کیا ہو۔ سیکشن 12 گارڈین اینڈ وارڈ ایکٹ کا دائرہ اختیار وارنٹ جاری کرنے سے بھی زیادہ کا ہے اِس سیکشن کو آزادی کے ساتھ اور نابالغ بچہ یا بچی کی بہتری کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔ نابالغ بچہ یا بچی کی حضانت/ حوالگی کے حوالے سے کسی تکنیکی بنیاد کو ملحوظِ خاطر رکھے بغیر نابالغ بچہ یا بچی کی حضانت/ حوالگی صرف اور صرف اپس کی فلاح و بہبود کو مدنظر رکھ کر کی جائے 1980CLC 1027 کے مطابق نابالغ بچہ یا بچی کی حضانت/ حوالگی کا جو معیار ہے وہ صرف اور صرف یہ ہے کہ نابالغ بچہ یا بچی کی فلاح و بہبود کو مدِ نظر رکھا جائے۔ والدین کے حقوق کو بھی دیکھنا چاہیے لیکن اُس کے باوجود معیار صرف اور صرف نابالغ بچہ یا بچی کی فلاح و بہبود ہو1974 SCMR 96کے مطابق سپریم کورٹ نے یہ قرار دیا ہے کہ سیکشن 12 گارڈین اینڈ وارڈ ایکٹ کے تحت کیس کا فیصلہ کرتے وقت عدالت کو بچے یا بچی کی جنس ، عمر اور درخواست گزار کا مطمع نظر مد نظر رکھانا چاہیے۔ دودھ پیتے بچے کی ماں کو سیکشن بارہ کے تحت عارضی حوالگی کے فیصلے کو سپریم کورٹ نے بحال رکھا کیونکہ گارڈین کورٹ نے بچے کی مستقل حوالگی کے حوالے سے سیکشن 25گارڈین ایند وارڈ ایکٹ کے تحت ابھی کرنا ہے۔
PLD 1973 Lah. 442کے مطابق لاہور ہائی کورٹ نے یہ قرار دیا کہ عدالت کے سامنے ایسے کیسیز بھی آتے ہیں کہ جس میں عدالت یہ سمجھتی ہے کہ ہر کیس کی سماعت کے دوران نابا لغ یا نابالغہ کی حوالگی تبدیل نہ کی تو بچے یا بچی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے جس شخص کے پاس نابالغ بچہ یا بچی کی حوالگی ہے اگر اُس کی جانب سے اُسے نظر انداز کرنے یا اُس کی لاپروائی سے وہ نابالغ یا نابالغہ معاشرئے میں بدنام ہورہے ہوں یا وہ نابالغ یا نابالغہ بُرئے کردار کا حامل بن رہے ہوں یا پھر نابا لغ یا نابالغہ شدید بیمار ہوجائیں اور اُنھیں بہتر طبی سہولیات میسر نہ آرہی ہوں اِس کے باجود کہ وہ نابا لغ یا نابالغہ مالی طور پر خودمختار ہوں تو اِن حالات میں جب اُس کی تعلیم یاجائیداد کی دیکھ بھال درست نہ کی جارہی ہو تو عدالت نابا لغ یا نابالغہ کی حوالگی تبدیل کرسکتی ہے۔ (جاری ہے)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں