دسمبر پرسوگ اورالمناک حادثات
شیئر کریں
16دسمبر کو پشاورکینٹ ایریا میں ورسک روڈ پر واقع آرمی پبلک ا سکول میں دہشت گردوں کے بزدلانہ حملے کے نتیجے میں 132 بچوں، 9 ا سٹاف ممبرز سمیت 141 افراد شہید اور 124 زخمی ہوگئے تھے۔ شہید بچوں کی عمریں 9 سے 16 سال کے درمیان تھیں جبکہ 960 کو بحفاظت باہر نکال لیا گیا۔ سکیورٹی فورسز نے کارروائی کر کے بڑی تعداد میں بچوں کو محفوظ مقام پر منتقل کردیا۔ جوابی کارروائی میں 7 دہشت گرد مارے گئے۔ یہ پاکستان کی تاریخ کی بدترین دہشت گردی تھی جس پر پورا ملک سوگ میں ڈوب گیاتھا۔
قوط مشرقی پاکستان میں بھارتی تربیت یافتہ پاکستان دشمن عناصر نے کلیدی کردار ادا کیا تھا اور دہشت گردی کا یہ واقعہ بھی دسمبر کو پیش آیا۔یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ غیر ملکی حکمرانوں میں سے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے سب سے پہلے اس واقعہ پر اپنی ’’تشویش‘‘ کا اظہار کیوں کیا تھا؟ یہ حقیقت سب پر واضح ہے کہ پاکستان کی سو کلو میٹر طویل افغان سرحد کے ساتھ درجن کے قریب بھارتی قونصل خانوں میں آج بھی پاکستان مخالف عسکریت پسندوں کو باقاعدہ تربیت دی جاتی اور اْنہیں جدید مہلک اسلحہ سے لیس کر کے پاکستان کے قبائلی علاقوں، صوبہ سرحد کے بندوبستی علاقوں اور بلوچستان میں تخریب کاری کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ بھارت عملی طور پر ثابت کر رہا ہے کہ وہ اب بھی پاکستان کا دشمن نمبر ایک ہے۔ پاکستان میں امن و امان کی صورت حال کے مخدوش ہونے کی سب سے بڑی وجہ نائن الیون کے بعد کے حالات ہیں۔جب سے بھارت اور امریکا افغانستان میں قدم جما کر بیٹھے ہیں۔ اس صورتحال میںجہاں تمام قومی سیاسی قیادتوں کو بہترین قومی مفادات میں اپنے ذاتی اور سیاسی اختلافات سے باہر نکل کر دہشت گردوں کیخلاف قومی اتحاد و یکجہتی کی فضا اجاگر کرنے کے لیے یکسو ہو جانا چاہیے وہاں حکمرانوں کوافغانستان سے بھی پرزور احتجاج کرنا چاہیے کہ وہ اپنے ہاں پناہ دیئے گئے دہشت گردوں کو فوراً ہمارے حوالے کرے۔ فضل اللہ گروپ افغانستان میں بھارت کی گود میں پل رہا ہے۔ ہمارے ہاں دہشت گردی کی ہرواردات کی ذمے داری فضل اللہ گروپ کے قبول کرنے سے واضح ہوگیا ہے کہ بھارت اور افغان انتظامیہ جو فضل اللہ کے سرپرست بنے ہوئے ہیں ، وہ بھی دہشت گردی کی گھناؤنی کارروائیوں میں برابر کے شریک ہیں۔
ان معصوموں کے خون ناحق کا بدلہ قوم کو دہشت گردی کے ناسور سے مستقل خلاصی دلا کر ہی لیا جا سکتا ہے جس کے لیے آج ہماری عسکری اور سول قیادتیں پرعزم بھی ہیں۔ سانحہ اے پی ایس کی بھینٹ چڑھنے والے ان معصوم بچوں نے اپنی جان کے نذرانے پیش کرکے دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے قوم کو متحد کرکے سیسہ پلائی دیوار بنا دیا۔ دہشت گردوں کی پھانسیوں کا عمل پھر سے شروع ہوا۔
سانحہ 16 دسمبر 2014ء کے بعد جب 12 جنوری 2015ء کو آرمی پبلک ا سکول کے دروازے دوبارہ کھولے گئے تو ساری دنیا کے یہ مشاہدہ ناقابل یقین رہا کہ مذکورہ ا سکول کے طلباء ، اساتذہ اور اسٹاف کے دیگر ارکان سمیت طلباء کے والدین اور شہریوں کے حوصلے بدستور سلامت اور بلند تھے۔ خاص طور پرا سکول کے طلباء نے اپنے اس عزم کا ولولہ انگیز انداز میں اظہار کیا کہ وہ دہشت گردوں کے سامنے سرنگوں نہیں ہوں گے۔ انہوں نے مہذب دنیا کو یہ واضح پیغام دیا کہ پاکستان ایک امن پسند اور پرامن ملک ہے جو دہشت گردوں کا ہدف بنا ہوا ہے لیکن وہ وقت دور نہیں جب پاکستان ان دہشت گردوں کا قبرستان ثابت ہو گا۔
دشمن نفرت اور انتہا پسندی چاہتے ہیں لیکن ہم برداشت کو فروغ دے کر ان کا جواب دیں گے۔ ہم علم دشمنوں کو کبھی بھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ آرمی پبلک اسکول کے شہید بچوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر جہالت کا مقابلہ کیا اور روشن خیال کی بنیاد رکھی، شہدا کی یادیں مادر وطن کی بقا کے ساتھ جڑی ہیں اور شہدا کی یادوں کو وطن کی بقا سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔
اسی طرح دسمبر کو بنگلہ دیش کا قیام ایک سازش کا نتیجہ تھا اور یہ سازش بھارت کے اندر تیار ہوئی تھی۔ تقسیم ہند کے وقت ایک سازش کے ذریعے طے شدہ تقسیم ہند فارمولے کے برعکس گورداسپور کو بھارت میں شامل کر دیا گیا تاکہ اسے کشمیر تک کا راستہ مل سکے۔ اسی طرح کلکتہ کو پاکستان میں شامل کرنے کی بجائے بھارت میں شامل کر دیا گیا۔ یہ انگریزوں اور ہندوئوں کی مشترکہ سازش تھی۔
بنگلہ دیش میں ہونے والی ایک تقریب میں سابق بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کو بنگلہ دیش کے قیام میں ’فعال کردار‘ ادا کرنے اور دونوں ممالک کے تعلقات مضبوط بنانے پر ’بنگلہ دیش لبریشن وار آنر‘ سے نوازا گیا۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے واجپائی کے لیے یہ اعزاز بنگلہ دیشی صدر عبدالحمید کے ہاتھوں وصول کیا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اس موقع پر کہا کہ جب بنگلہ دیش کے لیے لڑائی لڑنے والے بنگلہ دیشی اپنا خون بہا رہے تھے، تو بھارتی بھی انکے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر جدوجہد کر رہے تھے۔ اسطرح انہوں نے بنگلہ دیش بنانے کا خواب پورا کرنے میں مدد کی۔ بقول ان کے ہر بھارتی چاہتا تھا کہ آزاد بنگلہ دیش کا خواب حقیقت بنے۔
مودی کی جانب سے اس ایوارڈ کی وصولی سے ثابت ہوگیا ہے کہ سقوط مشرقی پاکستان بھارت کی سازش تھی اور ’’را‘‘ نے مکتی باہنی کے علیحدگی پسندوں کی مدد کی تھی۔ 1971ء میں ’’را‘‘ نے پاکستان کو توڑنے اور غیر مستحکم کرنے کی سازش کی تھی۔ اس سے قبل بھی 2012ء میں بنگلہ دیش کی جانب سے پاکستان کو دولخت کرنے کی سازش میں اندرا گاندھی کو فرینڈز آف بنگلہ دیش لبریشن وار ایوارڈ سے نوازا جاچکا ہے جسے بھارتی کانگریس پارٹی کی رہنما سونیا گاندھی نے وصول کیا تھا۔ بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد نے پاکستان توڑنے پر سابق بھارتی فوجیوں کو تاریخی اسناد دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔
ویسے تو پاکستان توڑنے کی سازش میں بھارت کے سرخیل ہونے پر پہلے بھی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں تھی جبکہ اب بی جے پی کی بھارتی سرکار کے پردھان منتری مودی نے پاکستان توڑنے کی مکتی باہنی کی تحریک میں خود حصہ لینے کا اعتراف کرکے پاکستان کے ساتھ ’’امن کی آشا‘‘ والا بھارتی چہرہ مکمل طور پر بے نقاب کردیا ہے۔ سانحہ سقوط ڈھاکہ کے بعد اس وقت کی بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی کی خوشی تو ان سے چھپائے نہیں چھپ رہی تھی جس کا اظہار انہوں نے اپنے اس بیان کے ذریعے کیا کہ آج ہم نے نظریہ پاکستان خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔ پاکستان توڑنے کی سازش میں شریک ہونے کا یہ اندراگاندھی کا بھی اعترافی بیان تھا، اب مودی نے بھی پاکستان توڑنے کی مکتی باہنی کی تحریک کا ساتھ دینے کا فخریہ اعتراف کرکے پاکستان توڑنے کا کریڈٹ اپنے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کی ہے جس سے پوری دنیا پر یہ حقیقت منکشف ہوگئی ہے کہ 1971ء میں بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ اور بھارتی فوج نے ہی پاکستان کو توڑنے اور اسے غیرمستحکم کرنے کی سازش کی تھی جو ہنوز جاری ہے اور اسی سازش کے تحت ’’را‘‘ کے ذریعے بھارت باقیماندہ پاکستان کی سلامتی کے درپے ہے جس کے لیے وہ یہاں فرقہ واریت اور لسانیت کا تاثر دینے والی دہشت گردی کراکے پاکستان کو اندرونی طور پر کمزور کرنے کی سازشوں میں مصروف ہے۔
ابتدا میں مکتی باہنی سے تعلق رکھنے والے مشرقی پاکستان کے مقامی بنگالیوں کو ٹریننگ کے لیے بھارتی سرحد کے قریب واقع کیمپوں میں بھیجا جاتا تھا، تاہم جب ایک اکثریت یہ تربیت لے کر وہاں سے آگئی تو پھر مشرقی پاکستان کے اندر ہی مختلف مقامات پر اس نوعیت کے کیمپ کھول دیے گئے تھے۔ جہاں بھارتی فوج مکتی باہنی کے ارکان کو مختلف اسلحہ چلانے کی ٹریننگ دیا کرتے تھے۔
حقیقت یہ ہے، اگر کسی سپرپاور کی افواج بھی مشرقی پاکستان میں ہوتی، تو وہاں کے حالات میں جنگ ہار جاتی۔ یہ جنگ بھارتی فوج نے ہرگز نہیں جیتی بلکہ فتح کی ذمے دار سیکڑوں منفی وجوہ ہیں جو ایک جگہ جمع ہو گئیں۔بہرحال مشرقی پاکستان میں بھارت کی کھلم کھلا مداخلت اس امر کا بین ثبوت ہے کہ وہ اب بھی مملکت پاکستان کے خلاف خفیہ کارروائیوں میں مصروف ہے۔ہمیں اس پوشیدہ و ازلی دشمن سے ہمیشہ چوکنا رہنا ہو گا۔