میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بیت المقدس کی آزادی

بیت المقدس کی آزادی

منتظم
پیر, ۱۸ دسمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

علامہ سیدمحسن کاظمی
المقدس جس کی تعمیر جناب یعقوب ؑ نے کی تھی اسکے بعد اس میں تعمیراتی اضافہ جناب سلیمان بن دائود ؑ نے کیا ۔یہ مسجد جو کبھی مسلمانوں کا قبلہ اول رہا ہے تقریباً ۴۱ سے ۶۱ ماہ تک اسی کو قبلہ بنا کر نماز ادا ہوتی تھی لیکن اللہ سبحان و تعا لیٰ نے ایک دفعہ جناب رسول خدا ﷺپر اس وقت وحی فرمائی جب وہ ایک مسجد میںاسی بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز ادا کر رہے تھے اور حالت رکوع میں تھے عین اسی وقت حکم اللہ ہوا اپنا قبلہ بیت اللہ مکہ معظمہ کیطرف کرلو تو اللہ کے حکم کی تعمیل میںرسول اللہ ﷺ نے عین رکوع میں اپنا رخ مشرق سے مغرب کی طرف کرلیا ۔آج بھی مدینہ منورہ میں یہ مسجد موجود ہے جو قبلیتین کہلاتی ہے مجھے اللہ نے اس مسجد میں نماز پڑنے کی سعادت عطا کی ہے ۔جب خلیفہ دوئم عمر بن خطاب کا زمانہ ایا تو مسلمانوں نے بیت المقدس کو فتح کر لیا تھا تو خلیفہ دوئم اس بیت المقدس گئے تو اس کے قریب جہاں ایک روایت کے مطابق صخرہ اور براق معراج کو کھڑا کیا تھا حضرت عمر نے اس جگہ بھی ایک مسجد تعمیر کروادی جسے بعد میں لوگوں نے مسجد اقصیٰ کا ہی جز بنا لیا ۔قبلہ اول بیت المقدس کئی دفہ غیر مسلموں کے قبضہ میں بھی گیا اور پھر مسلمانوں نے ازاد کرایا خلیفہ عبدالمالک مروان نے بھی اپنے زمانے میں بھی اسکی تعمیر نو کی تھی پھر عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے بھی تزئین کروائی ۔
پہلی جنگ صلیبی کے بعد عیسائیوں نے اس بیت ا لمقدس کو اپنے قبضہ میں لے لیا تھا اور اس میں تبدیلی بھی کی اس کا نام معید سلیمان بن دائود علیہ سلام رکھا اور اسی کچھ حصہ میں گر جا بھی بنایا ۔ پھر سلطان صلاح الدین ایوبی نے 2اکتوبر 1187؁ء میں بیت المقدس کو آزاد کرایا اور عیسا ئیوں کے بنائے ہوئے تمام نشانات و علا مات کو مسمار کر رہا تھا اور محراب اور مسجد کو دوبارہ تعمیر کروایا مسجد اقصیٰ کے نام کا اطلاق پورے حرم قدسی پر ہوتا تھا جس میں عمارتیں جن میں قبتہ الصخرا جو اسلامی طرز تعمیر کا ایک قابل دید نمونہ تھا ۔شامل تھا جو آج کل یہ حرم جنوبی مسجد کے حصہ کہلاتا ہے جو عموماً تصویر وں میں بطور مسجد نظر آتا ہے جس سے عموماً لوگ مسجد اقصیٰ سمجھتے ہیں ۔ حالانکہ بیت المقدس اسی مسجد اقصیٰ کے صحن کے وسط میں جو قعبہ ہے جو بلندی پر ہے وہی اصل بیت المقدس ہے یہ بیت المقدس 21اگست 1969؁ء کو آسٹریلوی یہودی ڈینس مائیکل روحان نے اس قبلہ اول کو جلایا تھا ۔ یہ آگ تقریباً تین گھنٹہ تک پھیلتی رہی اور جنوب مشرقی حصہ جو عین قبلہ کی طرف تھا اس کا بڑا حصہ نذر آتش ہوگیا ۔اس واقعہ کے بعد ہی صلاح الدین ایوبی نے اسے آزاد کرایا ۔ صلاح الدین ایوبی نے دوبارہ وہ منبر بنا یا جو نذر آتش ہو گیا تھا ۔اور صلاح الدین ایوبی جنوں نے 16جنگیں لڑی اور فتح بیت المقدس کے بعد اس نئے منبر کو اسی مقام پر نصب کیا جہاں منبر جلایا گیا تھا اس واقعہ بعد یہودی ہیکل سلیمانی کو اس مسجد کے مقام پر دوبارہ تعمیر کرنا چاہتے تھے حالانکہ تاریخی حقا ئق میں ہیکل سلیمان کا یہ مقام نہیں جہاں مسجد تھی یہودی کی اس صند پر مسلمانوں میں بیداری پیدا ہوئی مگر پھر اس بیت المقدس کے ارد گرد یہودی بستیاں آباد ہوئیں جس کی پہلی مخالفت ہمارے قائد اعظم محمد علی جناح نے کی تھی مصریوں کو باور کرایا تھا یہ یہودی اپنا وطن بنا نا چاہتے ہیں ۔اور انہوں نے بنایا پھر حال ہی کی بات ہے فلسطین جن کی آبادی زیادہ تھی جن کی بستی زیادہ تھی انہیں غیر آباد علاقوں میں زبر دستی بھیجا اور آزادی تحریک فلسطین شروع ہوگئی اس تحریک کے روح رواں یاسر عرفات تھے جو بہت متحرک تھے ان کے عرب باد چاہوں سے بہت اچھے تعلقات تھے اس لیے اس تحریک میں سعودی عرب خلیجی ریاستیں ، عراق ۔ شام ۔ مصر۔ اردن۔ سب نے یاسر عرفات کا بہت ساتھ دیا ۔ مگر یاسر عرفات کو شاید اسلیے کامیابی نہ ملی کہ انہوں نے اپنی تحریک کو ایک وطن کی آزادی کا مقصد بنایا انہوں نے قبلہ اول کو تحریک کا اصل مقصد نہیں بنایا تھا اسکی وجہ یہ تھی عراق کے صدر صدام حسین ہوں یا مصر کے حسنی مبارک ہوں ۔اردن کے شاہ حسین ہوں ۔ خلیجی ممالک کے سلاطین ہوں اور سعودی عرب کے شاہ فہر بن عبدالعزیز ہوں ان سب نے ہمیشہ ایک نعرہ بلند کیا جو ہاتھ پارٹی کا نعرہ تھا جس میں عراق ، شام کی سیاسی حکومتیں پیش پیش ہیں کہ ہم پہلے عرب ہیں پھر مسلم ۔یہ سب اسلامی تحریک کے حامی نہ تھے بلکہ سکیولر لزم کے حامی تھے ۔ شاید اسی لیے آہستہ آہستہ تحریک آزادی فلسطین کا زور کم ہوتا چلا گیا اب یہ تحریک اپنی شناخت کھو چکی ہے ۔
اب اس کی حماس نے لے لی ہے مگر اس سے زیادہ طاقتور اور مضبوط حزب اﷲ ہے جس کی قیادت ایک بہادر سمجھدار عالم دین نصر اﷲ کے ہاتھ میں ہے۔جس کو خاص طور پر ایران کی حمایت حاصل ہے اس حزب اﷲ نے اپنا مقصد مسلمانوں کے لیے بیت المقدس کی آزادی اور تمام دنیا مسلمین ممالک کو اسلامی حکومت بنانے میں مدد دینا ہے اسی لیے شاید عرب ان کا ساتھ نہیں دیتے کیونکہ عرب ملکوں میں قیادت ملوکیت کے انداز میں چل رہی ہے کہیں بادشاہ تو کہیں سلطان تو کہیں امیر ہے تو کہیں امیر المومنین انہیں خطرہ ہے اسلامی حکومت سے حالانکہ بحیثیت مسلمان کے اگر یہ خود اپنی سلطنت کو اسلامی نظام میں ڈھال لیں جیسا کہ کم سے کم ایران نے کیا ہے تو پوری دنیا کے مسلمانوں کو متحد کرنے اور ان کی قوت کو مجتمع کرنے میں بہت آسانی ہوگی ۔اب حالات بتلا رہے ہیں کہ مسلمانوں کو سازشی عناصر سے دور ہونا بڑے گا ۔ خاص طور پر یہودیوں اور موساد کی اس سازش سے جو اس نے مسلمانوں کو تقسیم کر کے کی ہے کہیں عرب و عجم کی بنیاد پر کہیں فرقہ کی بنیاد پر کہیں لسانیت کی بنیاد پر تقسیم کردیا ۔ ان اسرئیلی یہودیوں کے جاسوسی ادارے ہمارے پڑوسی ملک جو کشمیر پر قبضہ کیے بیٹھا ہے اس کے ساتھ ملکر پاکستان میں عدم استحکام پر مسلسل کام کر رہے ہیں ۔ یہاں پر دہشت گردی منافرت پھیلایہ جارہی ہے ۔ یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہماری حکومتیں صاف اور شفاف طریقہ سے حکمرانی نہیں کررہی ہے یہ حکمران بد عنوانیوں میں ڈوبتے جارہے ہیں ۔ انہیںدشمن کے عزائم کا احساس نہیں کہ بعض شپر طاقتیں پاکستان کو ایک ناکام ریاست کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں تاکہ ہماری جو ہری قوت کو کسی طرح ختم کیا جاسکتے یہ شکر ہے اﷲ کا ہماری پاک افواج اب ملک کی سر حد وں کے علاوہ نظر یاتی سر حدوں کی حفا ظت پر توجہ دے رہی ہے خاص طورپر دہشت گردی پربھر پورتوجہ دیکرملک میں امن و سکون پیدا کیا مگر ابھی معاشی اوراقتصادی دہشت گردی جس میں کک بیک زمینوں پرقبضہ غریبوں کو ملازمت بیچنا اور بجٹ کا 50فی صد رقم کا خرد برد کرجانا ۔
منی لانڈرنگ ، بیرون ملک ڈالر اکاونٹس بیرون ملک جائیداد ۔غیر ملکی پاسپورٹ اور اقاما جیسی بدعنوانی میں وہ لوگ شامل ہیں جو بظاہر سیاست داں بنے ہوئے ہیں حقیقت میں دوسروں کے مال کے غاصب ہیں ۔ ان میں نہ عوام کی اذیتوںکا احساس ہے نہ وطن میں خوشحالی لانے کاعزم نہ ہی خوف خدا ہے ۔اگراب بھی وطن عزیز انہیں جیسے سیاستدانوں کے ہاتھوں میں چلتا رہا تو ملک میں روشنی کے لیے تیل کے چراغ جلیں گے کار خانوں میں ہاتھ کی مشینیںپانی کے لیے کنوے کھودنا ہونگے آب صرف تین طاقتیں ایسی ہیں ان پرپاکستان کو خوشحال بنانے کی ذمہ داری ہے ان میںسب سے پہلے صدر مملکت جناب ممنون حسین صاحب ہیں دوسرے نمبر پر چیف جسٹس آف سپریم کورٹ پاکستان اور تیسرے نمبر پر چیف آف ارمی اسٹاف جنرل جاوید باجواہ صاحب ہیں ان میں عدالت عظمیٰ نے کافی اچھے اقدامات شروع کردئیے انصاف کے حصول کو تیز کردیا ہے اور بڑے دور اس نتائج سامنے آرہے ہیں ۔ بنیادی حقوق پر سوموٹو لینا ان کی بہترین مثال ہے ۔ دوسرے یہ کہ پہلی مرتبہ پاک افواج نے علی الاعلان یہ کہا کہ ہم آئین اور قانون کا ساتھ دیں گے اور ملک سے دہشت گردوں کا صفایا کر کے دم لیں گے انہی پر یہ ذمہ داری بھی اجاتی ہے جن بڑے بڑے لوگوں نے اس ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے ان کو اور ان کے ان وسیلوں کو جنوں نے لو ٹنے میں مدد کی ان کی خفیہ تفتیش کر کے ان کے خالف ناقابل تر دید ثبوت جمع کر کے عدالت عظمیٰ کو پیش کیا جائے ان ثبوتوں کو جمع کرنے کا کام ان اداروںکو دیا جائے جو ہماری حساس اور خفیہ ایجنسیاں کہلاتی ہیں یہ قوم کی بڑی خوش قسمتی ہے کہ اب نیب کی سر براہی ایسی ہستی کے پاس ہے جو پہلے جج رہی اور وہ بلا خوف و خطر عدل وانصاف کے ساتھ نیب کے اداروں کے سربراہ اپنے کام میں حب الوطنی کے ساتھ کام کریں گے تو اس کے مثبت نتائج آئیں گے اور قوم جو 8 ہزار ارب روپے کی مقروض ہے اسے نجات دیں گے اور خداد مملکت پاکستان کی ایک کامیاب ریاست کے طور پر منوائیں گے بس اتنا کریں ائندہ عام انتخابات میں صرف ان لوگوں کو انتخابی نمائندہ بننے کی اجازت ہو جن کا ماضی بے داغ ہو اس کام کے لیے جو کچھ کرنا ہے وہ سب کیا جائے عوام کی تائید شامل حال رہے گی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں