بے عمل مجلس کے بحالی
شیئر کریں
پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے اتحاد کوئی نئی بات نہیں قیام پاکستان کے بعد پہلا اتحاد جگتو فرنٹ کے نام سے بنا تھا اور پھر 1977 کے انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی پاکستان قومی اتحاد کے قیام نے پاکستان پیپلز پارٹی قیادت کو حیران کردیا تھا ذوالفقار علی بھٹو نے منتشر حزب اختلاف پر شب خون مارا تھا لیکن پاکستان قومی اتحاد کے قیام نے بازی پلٹ دی تھی اگرچہ پاکستان قومی اتحاد میں شامل کئی رہنما جن میں خان عبدالولی خان نمایاں تھے حیدرآباد جیل میں قید تھے لیکن عوامی اجتماعات میں ان کی کمی بیگم نسیم ولی نے کسی حد تک پوری کردی تھی مفتی محمود کی قیادت میں اس اتحاد نے انتخابات میں پیپلز پارٹی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا۔
اکثر حلقوں میں دھاندلی کے شواہد نے ایک تحریک کی صورت اختیار کی یہ اتحاد فکری تضادات کا مجموعہ تھا اور اتحاد کا واحد نکتہ پاکستان پیپلز پارٹی اور ذوالفقار علی بھٹوکی مخالفت تھی ورنہ جہاں اس اتحاد میں دینی تشخص کی حامل جماعت اسلامی جمعیت علماء اسلام جمعیت اہلحد یث اور جماعت علماء پاکستان شامل تھیں دوسری جانب سوشلسٹ نظریات کی حامل عوامی نیشنل پارٹی ( نیشنل عوامی پارٹی کا بدلہ ہوا نام) اور سیکولسٹ نظریات کی حامل تحریک استقلال بھی اس اتحاد کا حصہ تھی یوں اس اتحاد کو بھان متی کا کنبہ کہا جاسکتا تھا اس اتحاد کا انجام بھی وہی ہوا جو ایسے غیر فطری اتحادوں کا منطقی انجام ہوتا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کی برطرفی تک تو یہ اتحاد برقرار رہا کہ یہ وقت کی ضرورت تھی اگرچہ انتخابات کے بعد دھاندلی کے الزامات کے ساتھ شروع ہونے والی تحریک کے ابتدائی ایام میں ہی ایک سیاسی جماعت نے اپنے مفادات کے لیے اتحاد سے غداری کی کوشش کی تھی لیکن یہ کوشش کامیابی سے قبل ہی پکڑی گئی اس کوشش میں ملوث جماعت نے اگرچہ ایسی کسی کوشش سے انکار کیا لیکن موجود ثبوت و شواہد کو جھٹلانا ان کے لیے ممکن نہیں تھا یوں جنرل سیکریٹری کی "قربانی”کے بعد ہی یہ اتحاد برقرار رہ پایا تھا لیکن جس دن جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا ڈھرن تختہ کیا اور اقتدار پر قابض ہوئے ائیر مارشل (ر) اصغر خان نے اتحاد کے مقاصد کی تکمیل کا اعلان کردیا جب کہ حقیقت یہ ہے کہ قوم نظام مصطفیٰ کے قیام کے نعرہ پر متحد ہوئی تھی اور پورے ملک میں سینکڑوں افراد نے شریعت محمد مصطفیٰ ﷺ کے قیام کے لیے ہی جانوں کے نذرانہ پیش کیے تھے۔
ائیر مارشل (ر) اصغر خان کی جانب سے پھینکا گیا پہلا پتھر اتحاد کی شکست و ریخت کا نکتہ آغاز بن گیا اس اتحاد کی تحریک کیدوران غداری کے الزامات میں گرفتار خان عبدالولی خان اور ان کے ساتھیوں کی رہائی اور مقدمے کے خاتمہ کا معاہدہ ہوچکا تھا یوں ولی خان اور ان کے ساتھی اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے اگرچہ مارشل لاء کے نفاذ کے ابتدائی ایام میں ضیاء الحق 90 دن میں انتخابات کرانے کے وعدے میں سنجیدہ نظر آتے تھے لیکن ائیر مارشل(ر) اصغر خان کی جانب سے پہلے احتساب پھر انتخابات کے مطالبہ نے ضیاء الحق کو اپنے اقتدار کو طول دینے کا جواز فراہم کردیا اور پھر قوم کو 11سال 1 ماہ اور 13 دن کے طویل مارشل لاء بھگتنا پڑا اور اس دور میں لگائے گئے زہریلے پودوں کا زہر آج بھی قوم کے لیے اذیت ناک بنا ہوا ہے اور اس زہر کا تریاق بھی آسان نہیں۔
80 کی دہائی میں کئی اتحاد وجود میں آئے ان میں ایم آر ڈی(تحریک بحالی جمہوریت) جی ڈی اے، آئی جے آئی اور دینی جماعتوں کا اتحاد ملی یکجہتی کونسل بھی شامل ہے ایم آر ڈی کی قیادت بھٹو کی بیٹی کے ہاتھوں میں تھی۔ تو اس اتحاد کے ایک اہم رکن ائیر مارشل (ر) اصغر خان کی تحریک استقلال بھی تھی پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کے دوران ائیر مارشل (ر) اصغر خان ہر جلسے میں ذوالفقار علی بھٹو کو کوہلہ کے پل پر پھانسی دینے کے عزم کا اظہار کرتے تھے لیکن وقت نے انہیں بھٹو کی بیٹی کا ساتھی بنا دیا تھا پھر نواب زادہ نصراللہ خان کی قیادت میں جی ڈی اے کا اتحاد قائم ہوا اس اتحاد نے 1988کے انتخابات میں حصہ لیا تھا اور پیپلز پارٹی بھی اس اتحاد کا حصہ تھی یوں بے نظیر بھٹو مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنی تھی۔ ملی یکجہتی کونسل غیر انتخابی اتحاد تھا اس اتحاد میں شامل جماعت اسلامی آئی جے آئی کا حصہ تھی تو جمعیت علماء پاکستان جی ڈی اے میں شامل تھی اسی عرصہ میں اے آر ڈی کا اتحاد بھی وجود میں آیا لیکن غیر موثر ثابت ہوا .
1988 اور 1990کے انتخابات میں آئی جے آئی نے ایک منشور اور ایک نشان کے ساتھ حصہ لیا اس اتحاد کے منشور کا بنیادی نکتہ ملک میں اسلامی شریعت کا عملی نفاذ تھا یہ اتحاد اس وقت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا جب 1992 میں وفاقی شرعی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ ملک سے 6 ماہ میں سودی نظام ختم کرتے ہوئے اسلامی معاشی نظام کیا جائے جس کے لیے ایک قابل عمل منصوبہ بھی دیا گیااس وقت کے وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف نے اتحاد کے منشور سے انحراف کرتے ہوئے وفاقی شرعی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل داخل کردی تو جماعت اسلامی نے اس اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کردیا غلام مصطفیٰ جتوئی کی نیشنل پیپلز پارٹی اس سے قبل ہی عملااتحاد سے لاتعلق ہوچکی تھی۔ (جاری ہے )