ملک میں کرپشن کا راج....!
شیئر کریں
رانا اعجاز حسین چوہان
گزشتہدنوںسپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے اپنے اعزاز میں منعقدہ فل کورٹ ریفرنس سے خطاب میں کہا کہ قانون کی حکمرانی کے لیے اداروں میں ہم آہنگی اور مضبوطی ضروری ہے۔ ملک میں ہر طرف افراتفری، بدانتظامی اور ناانصافی کا دور دورہ ہے۔ قومی اداروں میں کرپشن کا بازار گرم ہے جس کی وجہ سے ملک و قوم کو ناقابل تلافی نقصانات کا سامنا ہے ۔نتیجتاً عوام میں بے حسی اور ناامیدی کا احساس پروان چڑھ رہا ہے، جو کسی بھی قوم کے لئے تباہی و بربادی کا سبب بن سکتا ہے۔ اکثر سرکاری ادارے بھی اپنے فرائض کی ادائی میں مکمل طور پر ناکام نظر آتے ہیں اور وہاں اقرباپروری اور بد عنوانی کا بازار گرم ہے۔ان کا کہنا تھا کہ میں نے ناانصافی، اقربا پروری اور بدعنوانی کے تدارک میں کردار ادا کرنے کی کوشش کی۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں کرپشن کا دائرہ ہر گزرتے دن کے ساتھ پھیلتا ہی چلا جارہا ہے اور اسے روکنے کی کوششیں تاحال ناکام ہیں یا ان میں بہت معمولی کامیابیاں ہوئی ہیں۔ اور پاکستان بھر میں بدعنوانی، کرپشن ، اور اقرباپروری کی صورتحال روز بروز سنگین سے سنگین تر ہوتی جارہی ہے ۔کرپشن سے بھرپور تھانہ کلچر،حکومتی اداروں میں کرپشن کا راج، حصول انصاف کا کمزور نظام، خامیوں سے بھرپور قانون کا نفاذ ، مصلحتوں اور بدعنوان افسران کی وجہ سے عوام میں بے بسی اور بے اختیاری کا احساس بڑھتا جارہا ہے ، عوام میں عدم اطمینان کے باعث ، حکومتی و سرکاری اور عدالتی اداروں پر ان کے اعتماد میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ جبکہ ملک میں موجود انسداد بدعنوانی کے محکموں کی مایوس کن کارکردگی،اور ان سے استفادے کا پیچیدہ اور سست رو طریقہ کار، سرکاری اداروں میں کرپشن کا باعث بن رہا ہے۔ پاکستان سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے پاکستان کے معاشرے میں مجموعی طور پر جن عوارض کی نشاندہی کی ہے اس کے شواہد ان کی عدالتی ذمے داریوں کے عرصے میں اور اس سے پہلے بطور قانون دان ان کے سامنے آتے رہے اور ان کی قانونی زندگی کے تمام تر تجربے کا نچوڑ ہیں۔ وہ اٹھارہ سال سے بطور جج اعلیٰ عدالتوں میں ذمے داریاں ادا کررہے تھے اور اب پندرہ دن بعد سپریم کورٹ کے سب سے بڑے اور باوقار عہدے سے ریٹائر ہو رہے ہیں تو انہوں نے اپنے زندگی بھر کے مشاہدات و تجربات کا افشردہ و عصارہ اپنے بعد آنے والوں کے سامنے کھول کر رکھ دیا ہے۔اسوقت صورتحال یہ ہے کہ بنیادی سرکاری ادارے مثلاً بجلی ، سوئی گیس ، شہری ترقی کے ادارے، میونسپل کمیٹیاں ، لوکل گورنمنٹ کے دفاتر، سرکاری ادارے کم اور بدعنوانی کی نرسریاں زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ بر سر اقتدار رہنے والے حکمرانوں میں سے بھی بعض کلیدی عہدوں پر فائز سیاسی لیڈر کرپشن میں بری طرح ملوث ہیں ، ان کی کرپشن ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے مگر کہیں سیاسی مصلحتوں اور کہیں کمزور سسٹم کے باعث یہ افراد کرپشن کے تمام الزامات سے اس طرح بری الذمہ ہوجاتے ہیں جیسے دودھ کے دھلے ہوں۔ پاکستان سپریم کورٹ اورپوری قوم اور میڈیا کرپشن کے خلاف شروع ہی سے آواز بلند کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود کرپشن کے خلاف حکومت ٹھوس اقدامات کرنے سے گریز کر رہی ہے۔ حکمرانوں کی لوٹ مار اور بندر بانٹ کے باعث مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے اور عام لوگوں کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔ ایک طرف بڑے بڑے عہدوں پر فائز سرکاری افسر اور حکمران گروہ قومی دولت کی لوٹ مار کے باعث عیش و عشرت میں مگن ہے اور دوسری طرف غریب اور فاقہ کش لوگ خود سوزی اور خودکشی کرنے پر مجبور ہیں۔ موجودہ حکومت نہ صرف کرپشن کے خاتمے کے لیے موثر قانون سازی کرنے سے قاصر ہے ،بلکہ کرپٹ اور راشی افسران خلاف موثر کارروائی کرنے سے بھی گریز کر رہی ہے۔ قومی دولت اور وسائل کی لوٹ کھسوٹ کے باعث پی آئی اے، پاکستان اسٹیل ملز اور پبلک سیکٹر کے کئی ادارے تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔
یقینا بدعنوانی کا خاتمہ ایک ایسا شعبہ ہے جس میں موجودہ حکومت ابھی تک کسی قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکی۔ ایف آئی اے اور نیب جیسے ادارے روایتی انداز میں کام کر رہے ہیں جن پر عوام کا اعتماد نہ ہونے کے برابر ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان اداروں کو بھی نئے ٹاسک دئیے جائیں ، ان کو جدیدخطوط پر استوار کیا جائے اور ان کی کارکردگی کو تیز تر کیا جائے۔ بدعنوانوں کو جلد کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے عدالتی نظام کو بھی تیز رفتاری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ بدعنوانی کے خاتمہ کے سلسلے میں حکومت کو اپنی انتہائی اہم قومی ذمہ داری کا ادراک کرنا چاہیے جس کی طرف اس نے ابھی تک توجہ نہیں دی اور اسے نظرانداز کیا ہے ۔ پاکستان کی خوش قسمتی کہیں کہ وہ جغرافیائی لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ملک ہے اور اسے ہم اپنی بد قسمتی کہیں کہ ہم اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا رہے ہم اس بدنصیبی اور بدقسمتی کو اپنی خوش قسمتی میں بدل سکتے ہیںاور اپنے پیارے پاکستان کو جنت بنا سکتے ہیں اگر اداروں میں میرٹ کو فروغ دیں، رشوت ستانی کا خاتمہ کرنے کی کوشش کریں،انصاف کو فروغ دیں اور عدلیہ کے فیصلوں کا احترام کرتے ہوئے ان پر عمل درآمدکریں۔ ملکی مفاد کو ذاتی اور انفرادی مفاد پر ترجیح نہ دیں۔سفارشی کلچر کا خاتمہ کر دیں، تب ہی حقیقی طور پر پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا ، اور ہر پاکستانی خوشحال ہوگا۔ لیکن اس کے لئے ہمیں خواب غفلت سے بیدار ہونا ہوگا، بدعنوانی کے خاتمے کے قانون کو موثر بنانا اور اس پربلاامتیاز عمل در آمد کروانا ہوگا۔ اور انسداد رشوت ستانی کے تمام اداروںکی کارکردگی مےں بہتری لانی ہوگی، کیونکہ ملکی ترقی کے لئے کرپشن کا خاتمہ ضروری ہے۔
٭٭