آئی ایم ایف کا پیکیج گلے کا چھچھوندر،قومی معیشت کے حلق میں پھنس گیا!!
شیئر کریں
نجم انوار
۔۔۔۔۔۔
٭آئی ایم ایف نے پاکستان سے اگلی ڈیل کے لیے پانچ مطالبے پورے کرنے کی شرط عائد کردی جن میں ٹیکس چھوٹ کا خاتمہ اور اسٹیٹ بینک کی خود مختاری بھی شامل ہیں
٭اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کا قومی خزانہ خود پاکستان کے کنٹرول سے نکال دیا جائے جہاں پہلے ہی آئی ایم ایف اپنا ’’گورنر‘‘ رضا باقر ایسے مشکوک شخص کی شکل میں لگا چکا ہے
٭ڈاکٹر رضا باقر کے مشکوک پسِ منظر کے باوجود پاکستان کے طاقت ور حلقے بھی چپ سادھے ہوئے ہیں،وہ ادارے بھی خاموش ہیں جو ملک میں چوبیس گھنٹے جاگنے کا دعویٰ رکھتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستانی معیشت مسلسل گرداب میں ہے۔موجودہ حکومت میں چوتھے وزیر خزانہ کے طور پر شوکت ترین کا انتخاب بھی پاکستانی معیشت کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں لاسکا۔ روپے کی مسلسل گراؤٹ، مہنگائی میں مسلسل اضافہ اور غربت کی بڑھتی ہوئی مختلف شکلیں ،پاکستان کو ایک عظیم معاشی بحران میں کسی بھی وقت دھکیل سکتاہے ۔ ایسی حالت میں پاکستانی معیشت آئی ایم ایف کی جانب سے ایک بیل آؤٹ پیکیج کے انتظار میں ہے جو بجائے خود مسئلے کے حل کے بجائے ایک بڑے مسئلے کا حصہ بن چکا ہے۔
پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کا بیل آؤٹ پیکیج دراصل قومی معیشت کو وقتی راحت تو دے سکتا ہے، مگر اپنے درورس اثرات میں یہ معیشت کو زیادہ بڑے مسائل سے دوچار اور عوام کے معاشی حالات کو زیادہ اجیرن بنادیتا ہے۔ مگر پاکستانی تاجر، قومی معیشت کے میکانیکی انداز سے سوچنے والے معاشی منیجرز اور چند ہندسوں پر اپنی معاشی صلاحیت پر نازاں تجزیہ کار معیشت کی وقتی راحت پر آئی ایم ایف کے پیکیجز کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض معاشی انڈیکیٹرز بھی اسی پر انحصار کرنے لگے ہیں۔ یہ بدترین سوچ پاکستانی معیشت کو قرضوں کی جکڑ بندی سے باہر نہیں نکلنے دیتی اور پاکستانی عوام کو مسلسل مہنگائی بڑھانے والے آئی ایم ایف کے مطالبات کے تابع رکھتی ہے۔ آئی ایم ایف کے دماغ پاکستانی کی معاشی کمزوریوں اور یہاں کے معاشی مینجرز کی سرینڈر کرنے والی سوچ سے پوری طرح آگاہ ہونے کے باعث اب ہرگزرتے دن اپنی گرفت کو مضبوط کرتا جارہے ہیں۔ اور پاکستان کے تمام معاشی احوال پر اپنا اثرورسوخ بڑھا رہے ہیں۔ یہ کھیل عملاً پاکستان کی خود مختاری کو کنٹرول کرنے کی بدترین شکل میں ظاہر ہورہا ہے۔آئی ایم ایف کی جانب سے نئے بیل آؤٹ پیکیج کا منصوبہ اب مسلسل شرائط کا ایک کھیل بن گیا ہے۔ آئی ایم ایف نے اس منصوبے کے لیے نامعلوم کتنی شرائط منوالی ہے۔ یہ شرائط مختلف قسطوں میں سامنے آرہی ہیں۔
مشیر خزانہ شوکت ترین نے گزشتہ روز آئی ایم ایف سے اگلی ڈیل کے لیے مزید پانچ مطالبات پورے کرنے کی شرط سے پردہ اُٹھایا ہے۔ پچھلے چند ہفتوں سے وہ معاہدے کے کسی بھی وقت ہونے کی خوش خبری کے ساتھ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ آئی ایم ایف کی تقریباً تمام شرائط مان لی گئی ہیں۔ اب یہ معاہدہ کسی بھی وقت ہوسکتا ہے۔ مگر اب وہ مزید پانچ مطالبا ت کی نئی قسط کی شرط کو سامنے لائے ہیں۔ مشیر خزانہ کے مطابق آئی ایم ایف نے پاکستان سے اگلی ڈیل کے لیے پانچ مطالبے پورے کرنے کی شرط عائد کردی جن میں ٹیکس چھوٹ کا خاتمہ اور اسٹیٹ بینک کی خود مختاری بھی شامل ہیں۔اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شوکت ترین نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ جلد ڈیل ہوجائے گی، آئی ایم ایف سے ڈیل سے پہلے 5 پیشگی اقدامات میں ٹیکس چھوٹ کا خاتمہ، اسٹیٹ بینک کی خود مختاری بھی شامل ہیں جب کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا مطالبہ پورا کر چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ٹیکس استثنیٰ کا خاتمہ اور اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کے بل تیار کر لیے ہیں، وزارت قانون، قانونی بلز کے مسودے کو حتمی شکل دے رہی ہے، کرنسی ریٹ اور مانیٹری پالیسی اسٹیٹ بینک کا دائرہ کار ہے۔
آئی ایم ایف کی مذکورہ شرائط کا جائزہ لیا جائے تو یہ عملاً پاکستان کی خودمختاری عالمی معاشی اداروں کے سپرد کردینے کے مترادف ہے۔ مگر مشیر خزانہ شوکت ترین ان مطالبات کے ساتھ ہی یہ بھی اعلان کررہے ہیں کہ اس پر عمل درآمد کے لیے عملی کام شروع ہو گیا ہے۔ اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کا قومی خزانہ خود پاکستان کے کنٹرول سے نکال دیا جائے جہاں پہلے ہی آئی ایم ایف اپنا ’’گورنر‘‘ لگا چکا ہے۔موجودہ گورنر اسٹیٹ بینک کا تقرر معاشی غارت گری کے اُن اہداف کو آسان کرتا ہے جو عالمی معاشی ادارے دنیا بھر میں طفیلی معیشت کے ساتھ کسی قوم کی خود مختاری کو امریکا کے ہاتھوں رہن رکھوانے کے لیے منظم طور پر اختیار کرتے ہیں۔ گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کی معاشی بصیرت کاحال اُس انوکھی منطق سے سامنے آگیا تھا جو اُنہوں نے ڈالر کے مہنگا کرنے کی فضیلت کے طور پر سمندر پار پاکستانیوں کے فائدے کے طور پر پیش کی۔ ایسی انوکھی منطق پیش کرنے والے کو اب تک کان سے پکڑ کر ملک بدر کردینا چاہئے تھا۔ مگر وہ نہ ملک کا انتخاب ہے اور نہ حکومت کا ۔ گورنر اسٹیٹ بینک بھی آئی ایم ایف کا انتخاب ہے چنانچہ موجودہ حکومت کے پاس اتنی بھی قوت نہیں کہ وہ موجودہ گورنر اسٹیٹ بینک کو فارغ کرسکے۔ڈاکٹر رضا باقر ایک انتہائی مشکوک پسِ منظر رکھتے ہیں۔ مگر پاکستان کے طاقت ور حلقے بھی چپ سادھے ہوئے ہیں۔ وہ ادارے جو ملک کے کان آنکھیں ہونے کے دعوے کے ساتھ چوبیس گھنٹے جاگنے کا دعویٰ رکھتے ہیں۔ اُن کو بھی ڈاکٹر رضا باقر کے مشکوک پسِ منظر سے کوئی پریشانی لاحق نہیں تو پھر پاکستانی عوام کا اعتماد دن بہ دن ہر چیز پر سے اُٹھتا جائے گا۔ ڈاکٹر رضا باقر مصر کی معیشت کا بھٹہ بٹھا چکے ہیں۔ وہ آئی ایم ایف کے مفادات کا تحفظ کرنے کا مشن لے کر دنیا کے کئی ممالک کو تباہ کرنے کے لیے اپنی ’’خدما ت ‘‘انجام دے چکے ہیں۔ رضا باقر رومانیہ اور مصر میں وہاں کی جی ڈی پی کو بالترتیب 6اور20۔5 سے گرا کر منفی0.2 اور0.10 تک پہنچا چکے ہیں۔ ایسے مشکوک پس ِ منظر کے حامل شخص کے ساتھ اسٹیٹ بینک کو قومی کنٹرول سے آزاد کرنے کا مطلب مزید کیا نکلے گا؟ پھر ڈالر کو تگڑا کرنے کے پیچھے اُن کی منطق پر بھی توجہ دے لیں۔ ساتھ ہی اُن کی پاکستان آمد کے وقت اور اب پاکستان کی جی ڈی پی میں آنے والی کمی کو بھی دھیان میں رکھیں تو یہ واضح ہوجائے گا کہ آئی ایم ایف پاکستان کے اندر عمران خان کے دورِ حکومت میں کہاں تک گھس آیا ہے اور مزید وہ کیا کرنے جارہا ہے۔ ایسے میںیہ بدقسمتی ہے کہ پاکستان کے اندر مشیر خزانہ شوکت ترین جیسے لوگ ہیں، جو آئی ایم ایف کے تمام مطالبات جوں کے توں ماننے پر تیار بیٹھے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کی مکمل خود مختاری کے بل کا مسودہ وزارت قانون میں حتمی شکل پارہا ہے۔اسٹیٹ بینک ہی کرنسی ریٹ اور مانیٹری پالیسی کی صورت گری کرتا ہے۔ چنانچہ ان حالات میںپاکستان کے معاشی مستقبل کا اندازا لگانا کوئی دشوار عمل نہیں۔ آئی ایم ایف کی جانب سے اسی گورنر اسٹیٹ بینک کے ساتھ اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کا مطالبہ کیا کیا قیامتیں لائے گا، یہ سمجھنا کوئی مشکل کام نہیں۔ اس گورنر اسٹیٹ بینک کی موجودگی میں پاکستانی معیشت کا افراطِ زر کا مسئلہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔ مہنگائی مسلسل بڑھتی جائے گی، ٹیکسز مزید لگتے جائیں گے، ڈالر مزید تگڑا ہوتا جائے گا اور روپے کی گراؤٹ کا عمل کبھی نہیں رُکے گا۔
افسوس ناک امر یہ ہے کہ پاکستان کی تمام معاشی سرگرمیاں اسی وطن دشمن آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکیج کا انتظار کررہی ہے۔ جس سے قومی معیشت کی حرکیات کو سمجھا جاسکتا ہے۔ پاکستانی روپیہ گزشتہ ہفتے تاریخ کی سب سے نچلی سطح پر پہنچ گیا۔ جس سے مقامی اسٹاک کا ڈوبنا یقینی تھا۔ چنانچہ وہی گنے چنے ماہرینِ معیشت حرکت میں آگئے اور باور کرانے لگے کہ عالمی مالیاتی فنڈ سے بیل آؤٹ پیکیج کے مستقبل پر منڈلاتے غیر یقینی کے بادلوں نے سرمایہ کاروں کو مایوس کررکھا ہے۔ تمام معاشی حرکیات ہی نہیں معیشت کو متعین کرنے والے انڈیکیٹرز بھی ان ہی قوتوں کے ہاتھوں میں ہیں جو معیشت کی زبوں حالی یا بہتری کو کسی بھی وقت اپنی مرضی کے اعدادوشمار کے ذریعے کسی بھی شکل میں دکھانے کے قابل ہوتے ہیں۔ عام طور پر ان انڈیکیٹرز پر کوئی بھی سوال نہیں اُٹھاتا۔ پاکستان میں ایسی اعلیٰ ذہانت کی واضح کمی ہے جو پاکستان کی حقیقی معیشت کی رفتار کو ان انڈیکٹرز سے الگ ہو کر دکھانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ چنانچہ عالمی ، مقامی معاشی انڈیکٹرز آئی ایم ایف کی خواہشات پر کسی بھی ملک کی معیشت کو مرضی کی صورت گری دے دیتے ہیں۔اور اُس ملک کے معاشی منیجرز اُسے جوں کا توں قبول کرکے آئی ایم ایف کے ایجنڈے کو بھی قبول کرلیتے ہیں۔ یوں وہ ملک رفتہ رفتہ اپنی خود مختاری کھونے لگتے ہیں۔ اور اپنی معیشت کواپنے ہاتھوں طفیلی بنالیتے ہیں۔ پاکستان کی معیشت اسی بدترین دور سے گزر رہی ہے جس میں آئی ایم ایف کا بیل آؤٹ پیکیج گلے کا چھچھوندر بن چکا ہے۔ جو نہ اُگلے بن رہا ہے اور نہ نگلے بن رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئی ایم ایف کے دماغ پاکستانی کی معاشی کمزوریوں اور یہاں کے معاشی مینجرز کی سرینڈر کرنے والی سوچ سے پوری طرح آگاہ ہونے کے باعث اب ہرگزرتے دن اپنی گرفت کو مضبوط کرتے جارہے ہیں اور پاکستان کے تمام معاشی احوال پر اپنا اثرورسوخ بڑھا رہے ہیں۔ یہ کھیل عملاً پاکستان کی خود مختاری کو کنٹرول کرنے کی بدترین شکل میں ظاہر ہورہا ہے۔آئی ایم ایف کی جانب سے نئے بیل آؤٹ پیکیج کا منصوبہ اب مسلسل شرائط کا ایک کھیل بن گیا ہے۔
۔۔۔
اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کا قومی خزانہ خود پاکستان کے کنٹرول سے نکال دیا جائے جہاں پہلے ہی آئی ایم ایف اپنا ’’گورنر‘‘ لگا چکا ہے۔موجودہ گورنر اسٹیٹ بینک کا تقرر معاشی غارت گری کے اُن اہداف کو آسان کرتا ہے جو عالمی معاشی ادارے دنیا بھر میں طفیلی معیشت کے ساتھ کسی قوم کی خود مختاری کو امریکا کے ہاتھوں رہن رکھوانے کے لیے منظم طور پر اختیار کرتے ہیں۔رضا باقر کی معاشی بصیرت اُس انوکھی منطق سے بے نقاب ہوگئی تھی جس میں ڈالر مہنگا کرنے سے سمندر پار پاکستانیوں کا فائدہ دکھایا تھا۔
۔۔۔۔۔
پاکستان میں ایسی اعلیٰ ذہانت کی واضح کمی ہے جو پاکستان کی حقیقی معیشت کی رفتار کو نام نہاد معاشی انڈیکٹرز سے الگ ہو کر دکھانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ عالمی ، مقامی معاشی انڈیکٹرز آئی ایم ایف کی خواہشات پر کسی بھی ملک کی معیشت کو مرضی کی صورت گری دے دیتے ہیں۔اور اُس ملک کے معاشی منیجرز اُسے جوں کا توں قبول کرکے آئی ایم ایف کے ایجنڈے کو بھی قبول کرلیتے ہیں۔ یوں وہ ملک رفتہ رفتہ اپنی خود مختاری کھونے لگتے ہیں اور اپنی معیشت کواپنے ہاتھوں طفیلی بنالیتے ہیں۔