میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ووٹ بینک اوردینی جماعتوں کی بنیادی کمزوری

ووٹ بینک اوردینی جماعتوں کی بنیادی کمزوری

ویب ڈیسک
هفته, ۱۸ نومبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

مولانا محمدجہان یعقوب
متحدہ مجلس عمل کی تشکیل ِ نوکی خبریں زیرِ گردش ہیں۔جس وقت قارئین یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے ،شاید تب تک ایم ایم اے کی تشکیل کا باقاعدہ اعلان بھی ہوچکا ہوگا۔امکانات روشن اور حالات اس سلسلے میں ناگزیر ہیں۔دینی جماعتوں کو اپنے ووٹ کو تقسیم ہونے سے بچانے کے لیے اس قسم کے اقدامات کرنے چاہییں۔اتحاد کی کوئی بھی کوشش،چاہے وہ کسی کی جانب سے بھی کی جائے،ان حالات میں قابلِ تحسین اور بسا غنیمت ہے،کہ افتراق وانتشار اور داخلی خیلج در خلیج نے ہماری قوت کو پارہ پارہ کرکے رکھ دیا ہے۔مشترکات کی بنیاد پر اتفاق واتحاد کی اسلام نے ہمیشہ حوصلہ افزائی کی ہے،نبی کریم ﷺن ے بھی نصاریائے نجران کومشترکات کی بنیاد پر ایمان کی دعوت دی تھی۔تاریخ اسلام میں ایسے بیسیوں واقعات مل سکتے ہیں،جہاں ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ وسیع تر مفاد میں اختلافات کے وجود کے باوصف اتحاد کیا گیا۔تحریک ِختم ِ نبوت ہی کو لے لیجیے،وہاں بھی ہمیں دیوبندی،بریلوی،اہلِ حدیث اور اہلِ تشیع قادیانیت کے خلاف اور عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے یک جا ویک جان نظر آتے ہیں،۔اگر اکابر علمائے کرام کی دوراندیشی سے یہ اتحاد وجود میں نہ آتا،تو شاید قادیانیت کے ناسور کوملتِ اسلامیہ سے قانونی وآئینی طور پر جدا کرنا شاید آسان نہ ہوتا،جب کہ ان کے ہم نوا بیوروکریسی واسٹیبلشمنٹ اور کلیدی عہدوں ہی پر نہیں،پارلیمنٹ میں بھی موجود تھے۔
آمدم بر سرِ مطلب،ایم ایم اے کی تشکیلِ نو ایک خواب سے بہت جلد ایک حقیقت کا روپ دھارنے والی ہے،جس میں اہلِ سنت مکاتبِ فکر کے ساتھ ساتھ اہلِ تشیع بھ جماعتیںبھی شامل ہیں۔یہی نقطہ آج کل موضوعِ بحث بھی بنا ہوا ہے۔فریقین کی طرف سے پیش کیے جانے والے دلائل کو پڑھ کر یوں لگتا ہے کہ انصاف کے تقاضوں کو مکوئی بھی سامنے رکھنے کے لیے تیار نہیں۔اگر اس حقیقت سے نظریں نہ چرائی جائیں،کہ ایم ایم اے محض ایک سیاسی اتحاد ہے،جس کا مقصد وسیع تر بنیادوں پر دینی جماعتوں کے ووٹ کو تقسیم ہونے سے بچانا اور ملک کو سیکولر ازم کی راہ پر ڈالنے کے ایجنڈے کا مقابلہ کرنا ہے،تو کوئی راہ اختلاف کی باوی نہیں رہ جاتی،کیوں کہ دین کا اطلاق ہر طرزِ زندگی پر ہوتا ہے۔آپ کسی مکتبِ فکر کو مسلمان تسلیم کریں یا نہ کریں،اس پر دین کا اطلاق ہوتا ہے،کہ اس کا اپنا ایک مخصوص طرزِحیات وعبادات ہے،اس کے پیروکار اس پر عمل پیرا بھی ہیں۔اس رو سے اہلِ تشیع بھی ایک دین کے پیروکار ہیں،اور دینی جماعتوں کے اتحاد کا حصہ بن سکتے ہیں،اس کے لیے ان کے اسلام کو ثابت کرنے یا اس کی نفی کرنے کے لیے دور دراز کی کوڑیاں لانے ،قدیم فتاویٰ کی گرد جھاڑنے،جدید فتاویٰ سے اپنے مقصد کی بات کشید کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔اتحاد چند مخصوص مقاصد کے تابع ہوتاہے،اس کے چند اہداف ہوتے ہیں،اور اس بات میں دو رائے نہیں،کہ مجلس ِ عمل کے معرضِ وجود میں لائے جانے کا مقصدکسی کو اسلام میں داخل یا خارج کرنا بہرحال نہیں ہے۔اگر کوئی ایسا سمجھتا ہے،تو یہ اس کی خام خٰالی ہے،اور اگر کوئی جماعت اس اتحاد سے ایسا کوئی مقصد حاصل کرنا چاہتی ہے،تو یہ اس اتحاد کے مقاصد واہداف سے انحراف اور اجتماعیت کو ذاتی مفاد پر قربان کرنے کے مترادف ہے۔
ہم یہاںدینی جماعتوں کے ووٹ بینک کے حوالے سے ان کی ایک اور اجتماعی کم زوری کی نشان دہی کرنا ضروری سمجھتے ہیں،کیوں کہ جلسے ،جلوسوں،مظاہروں اور عوامی طاقت کے مظاہرے کے دوسرے مواقع پر ان جماعتوں کی کال پر جو جمِ غفیر امڈآتا ہے،اس تناسب سے انھیں ووٹ نہیں ملتے۔کہا جاسکتا ہے،کہ پاکستان میں الیکشن نہیں سلیکشن ہوتا ہے،عوام کی رائے کا احترام نہیں کیا جاتا،بلکہ ووٹنگ محض ایک رسمی کارروائی ہوتی ہے۔سیٹوں کی بندر بانٹ کہیں اور سے،کسی اور کے اشاروں پر ہوتی ہے۔یہ سب تسلیم،لیکن دینی جماعتوں کے ہم نواؤں کے ووٹ تواس تعداد میں کاسٹ بھی نہیں ہوتے،جس تعدا د میں ان کے اجتماعات میں لوگ نظر آتے ہیں۔اس جانب سے تمام دینی جماعتوں کو توجہ دینی اور اس کم زوری ک ی تلافی کے لیے الیکشن آنے سے پہلے اسی تن دہی ومستعدی سے کوشش کرنی چاہیے،جس تن دہی اورپھرتی سے اتحادوں کی داغ بیل ڈالی جارہی ہے۔
بلاشبہ اس ملک میںدینی جماعتوں کا ووٹ بینک کم نہیں ہے۔ان کے چاہنے والوں اور ہم نواؤں میں اکثریت ہے،لیکن ووٹ ان کے حق میں کاسٹ کرنے والے ان میں سے آدھے بھی نہیں ہیں،اس کی مختلف وجوہات ہیں۔ایک وجہ تو یہ ہے کہ دینی جماعتوں کے منتخب ارکان اپنے حلقے کے مسائل حل کرنے اور وہاں ترقیاتی کام کرنے میں عمومی طور پر وہ دل چسپی نہیں لیتے،جو دوسری جماعتوں کے ارکان لیتے ہیں۔ایم ایم اے کی سابقہ خیبر پختونخواحکومت کی کارکردگی کا منصفانہ جائزہ لیجیے،توآپ کو ہماری بات کی صداقت کا یقین ہوجائے گا،یا اگر آپ کے حلقے سے کسی دینی جماعت کا نمایندہ منتخب ہواہے،تو اس کی کارکردگی کا دوسرے حلقوں کے اراکین کی کارکردگی سے موازنہ کرلیجیے،حقیقت سامنے آجائے گی۔اس کی ایک وجہ فنڈ کی عدم دستیابی بھی ہوسکتی ہے،لیکن اس کے باوجود سستی وغفلت کا عنصر غالب ہے۔ضلع غربی ہی پر ایک طائرانہ نظر دوڑائیے۔بلدیہ ٹاؤن،جہاں سے لسانی جماعت منتخب ہوتی رہی ہے کی ترقی اور بنارس واتحاد ٹاؤن،جہاں سے اکثر دینی جماعت کام یاب ہوتی ہے، کی زبوں حالی ہی میرے دعوے کی تصدیق کے لیے کافی ہوجا ئے گی۔دینی جماعتوں کو اس جانب توجہ دینی چاہیے۔کسی امیدوار کوٹکٹ دیتے ہوئے اس کے علمی قد کاٹھ کے بجائے اس کی عوامی کاموں میں دل چسپی کو محور بناناچاہیے۔
دوسری اور سب سے اہم وجہ ،دینی جماعتوں کے ووٹ بینک کے مؤثر نہ ہونے کی یہ ہے کہ:ووٹ دینے کے لیے ضروری ہے کہ ووٹر کے پاس قومی شناختی کارڈ ہو،اس کا ووٹر لسٹ میں اندراج ہو،اسے ووٹ دینے کا شعور ہو۔شومیٔ قمست،اس جانب دینی جماعتوں کی مطلق توجہ نہیں ہے۔ایک جمعیت علمائے اسلام ہی کو لے لیجیے۔اس کی سب سے بڑی طاقت مدارس سے منسلک علما وطلبہ ہیں۔کیا کبھی اس جانب توجہ دی گئی کہ کتنے اساتذہ وطلبہ کے پاس یہ دستاویزات موجود ہیں؟ان کا ووٹر لسٹ میں انداراج ہے یا نہیں۔جب مختلف مدارس کے باہر بلڈ ڈونرز اور مختلف اداروں کی مفت خدمات فراہم کرنے والی گاڑیاں اور عملی نظر آتا ہے،تو دل ودماغ میں ایک سوال کلبلانے لگتا ہے،کہ نادرا کے عملے کو بھی یوں کیوں نہیں بلایا جاتا،تاکہ وہ طلبہ واساتذہ ،جو اپنے مصروفیات کی وجہ سے وقت نہیں نکال پاتے،ان کے کارڈآسانی سے بن جائیں۔اگر اس جانب دینی جماعتوں کے ذمے داران توجہ دیں اور اپنے ک ارکنوں اور ہم نواؤں کی اس جانب راہ نمائی کریں،تو ان کا ایک بڑاووٹ ضایع ہونے سے بچ سکتا ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں