میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاناماپیپرزسے پیراڈائز لیکس۔۔۔ مقاصد کیا ہیں؟

پاناماپیپرزسے پیراڈائز لیکس۔۔۔ مقاصد کیا ہیں؟

ویب ڈیسک
هفته, ۱۸ نومبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

(دوسری قسط)
جہاںتک کرنسی کے نظام کی تبدیلی کا تعلق ہے اب اس سلسلے میں دنیا بھر میں اس قسم کی بحثیں چھیڑی جائیں گی کہ آیا ایسی کرنسی جو افراد اور اداروں کے ہاتھ سے گذر کر کام کرتی ہو اور جس کے ذریعے منی لانڈرنگ اور عالمی دہشت گردی کے لیے فنڈنگ کا احتمال بھی ہو وہ ٹھیک رہے گی یا اس کی جگہ الیکڑانک منی کے نام پر کاغذ کی بجائے پلاسٹک کارڈ کی شکل میں کرنسی رائج کی جائے جس میں زر کے اخراج کا اختیار صرف بینک کو حاصل ہوگا ۔ یعنی آپ کی سالانہ یا ماہانہ آمدنی کے مساوی ایک پلاسٹک کارڈ جاری کیا جائے گا جس کی شکل این ٹی ایم کارڈ کی سی ہوگی آپ جس دکان پر کھڑے ہوکر سودا خریدیں گے مشین کے ذریعے اس رقم کی کٹوتی خود بخود متعلقہ بینک کے ذریعے ہوجائے گی اور مشینی رسید کی ایک کاپی بینک میں صارف کے کھاتے کے طور پرکمپوٹر ریکارڈ کے طور پر درج ہو جائے گی یعنی اگر گروسری میں آپ جس برانڈ کی چیز استعمال کریں گے اس کا بھی ریکارڈ بینک میں موجود ہوگا یہ سسٹم دنیا بھر میں رائج کرنے کے بعد ’’یروشلم‘‘ میں ایک ’’مرکزی بینک‘‘ تشکیل دیا جائے گا جس کی تیاری بہت پہلے شروع ہوچکی تھی یعنی اسرائیل کی دجالی عالمی سیادت کے اعلان کے بعد جہاں سے دجال دنیا بھر کے کے انسانوں کے اخراجات ، زیر استعمال اشیا کی نوعیت سے انسانوں کے رجحان کا اندازہ لگا سکے گا۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح دنیا بھر کے ملکوں میں رائج انسانی شناخت کا ڈیٹا کمپیوٹروں سے ہیک ہوکر ’’کہیں اور ‘‘ پہنچ چکا ہے اسی طرح الیکٹرانک کرنسی اور اس کے استعمال کا ڈیٹا مرکزی بینک میں منتقل ہوگااور دنیا پہلے سے زیادہ سخت ’’غلامی کے نظام‘‘ میں جکڑی جائے گی۔
ان تمام حالات کو ذہن میں رکھ کر اس کی ٹائمنگ کااندازہ لگایا جائے کہ یہ سب کچھ اس وقت ہورہا ہے جب مشرق وسطی سے لیکر جنوبی ایشیا تک حالات نئی کروٹ لے رہے ہیںاس جانب ہم پہلے بھی اشارے کرتے رہے ہیں کہ دنیا آنے والے وقت میں سنگین حالات کی جانب تیزی سے بڑھ رہی ہے خاص طور مشرق وسطی میں بدلتے حالات پاکستان سمیت خطے کے بہت سے ممالک پر اثر انداز ہوں گے۔ اس حالیہ دنوں میں سب اسے اہم واقعہ لبنان کے وزیر اعظم سعد الحریری کا ریاض پہنچ کر وزارت عظمی سے مستعفی ہونے کا اعلان ہے۔ انہوں نے ایران کے علاوہ لبنان کی شیعہ ملیشیا حزب اللہ پر اپنے قتل کی منصوبہ بندی کا الزام عائد کیا ہے۔ اس بات کو بھی ذہن میں رکھا جائے کہ حزب اللہ لبنان کی حکومت میں سعد الحریری کی اتحادی کے طور پر کام کررہی تھی جبکہ حزب اللہ کو لبنان میں اسرائیل کی جانب ایران کی فرنٹ لائن بھی قرار دیا جاتا ہے۔
دوسری جانب سعودی عرب میں اہم واقعات نے جنم لیا ہے کہ وہاں اہم عہدوں پر فائز گیارہ سے زیادہ شہزادوں کو ہٹاکر انہیں کرپشن کے الزام میںان کے گھروں میں قید کردیا گیا جبکہ چالیس سے زیادہ سابقہ وزراء بھی اور بہت سی بڑی کاروباری شخصیات کو بھی ان الزامات کا سامنا ہے۔ اس میں اہم ترین کارروائی سعودی نیشنل گارڈ کے سربراہ اور سابق شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے صاحبزادے متعب بن عبداللہ اور امیر طلال بن عبدالعزیز کے بیٹے امیر ولید بن طلال کی نظربندی ہے، سعودی نیشنل گارڈ کو سعودی عرب کی تلوار کہا جاتا ہے جبکہ امیر ولید بن طلال کا شمار دنیا بھر میں امیر ترین سرمایہ کاروں میں ہوتا ہے ان کے امریکی صدر ٹرمپ سے بھی قریبی تعلقات ہیں۔اسی صورتحال کے دوران یمن سے ایران نواز حوثی باغیوں کے ریاض پر میزائل حملوں میں بھی شدت آئی ہے۔ لیکن سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری کے جن کے پاس سعودی شہریت بھی ہے مستعفی ہونے کے بعد ان کی اپنی جماعت کی جانب سے بھی کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا اور نہ ہی مصر، اردن، قطر اور عرب امارات جیسے اہم ملکوں کی جانب سے اس سلسلے میں کوئی تبصرہ کیا گیا ہے۔ بیروت میں حالات اسی انداز میں خاموش یاپرسکون ہیں جیسے کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہوں، کیونکہ بیروت میں موجود سعودی اور دیگر عرب سفارتکار تیزی کے ساتھ اپنا سامان پیک کررہے ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاھو جو چند دن پہلے تک ایران کے خلاف بیان دے رہا تھا یکدم پیچھے ہٹ گیا ہے۔۔۔ اس کا حیران کن بیان کہ ایران دشمنی میں عرب ممالک اسرائیل کے قریب ہورہے ہیں نے صاحب نظر حلقوں کو چونکا دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بات پہلے سے طے ہے کہ اسرائیل اور امریکا اور اس کے اتحادی ملک ایران کے خلاف زبان تو سخت رکھیں گے لیکن وہ کبھی اس پر حملہ کرکے عربوں کو کھلی چھٹی نہیں دیں گے۔ اور ایسا ہی ہوا ہے۔ عراق اور شام منصوبے کے تحت ایک طرح سے پلیٹ میں رکھ کر ایران کے حوالے کیا گیا ہے اب لبنان میں سعودی عرب کے قریب سمجھنے جانے والے وزیر اعظم سعد الحریری کو پہلے اس خوف میں مبتلا کیا گیا کہ انہیں ایران اور اس کی حمایت یافتہ لبنانی شیعہ ملیشیا حزب اللہ قتل کروانا چاہتی ہے اس کے بعد انہوں نے اس خوف میں مبتلا ہوکر مستعفی ہونے کا اعلان کردیا۔ آنے والے وقت میں لبنان جس کی سرحدیں اسرائیل سے ملتی ہیں میں بھی عراق اور شام کی طرح شیعہ سنی جنگ کروائی جاسکتی ہے ۔ لبنان میں فرقہ واریت کی بنیاد پر جیسے ہی جنگ کا الائو روشن ہوگا اسرائیل میں خطرے کی گھنٹی بجا دی جائے گی اور یہی عالمی صہیونیت کا اصل منصوبہ ہے۔
لبنان کی جنگ عربوں اور ایران کو براہ راست آمنے سامنے لے آئے گی کیونکہ عربوں کو تاثر دیا جائے گا کہ اگر انہوں نے عراق اور شام کی طرح ایران کے کردار پر لبنان پر بھی خاموشی اختیار کی تو باقی خلیجی عرب ملک بھی ایران کی عسکری پہنچ میں آجائیں گے یوں قومیت اور مسلک کی بنیاد پر مسلمانوں کو بڑی جنگ میں دھکیلنے کا منصوبہ آخری مراحل میں ہے۔ ہم بہت پہلے بھی اس بات کا ذکر کرچکے ہیں کہ تمام مشرق وسطی میںجنگ کے شعلے بلند ہیں لیکن اسرائیل اس آگ کے لبنان پہنچنے کا انتظار کرے گااس کے بعد عرب ملک ہوں یا ایران دونوں ہی اسرائیل کے لیے برابر ہیں۔اس سلسلے میں پاکستان کے ذمہ دار اداروں کو پیراڈائز پیپر کے افشا کی ٹائمنگ ذہن میں رکھنا ہوگی۔ اس بات کو بھی ذہن نشین رکھنا ہوگا کہ جس وقت وکی لیکس کا ہنگامہ ہوا تھا تو وکی لیکس جاری کرنے والوں نے امریکا کو بھی نہیں بخشا تھا لیکن اسرائیل یا امریکا اور یورپ میں موجود کسی بڑے یہودی ادارے یا شخصیت کا نام افشا نہ کرنے کا باقاعدہ اعلان کیا گیا تھا۔ اس کے بعد پانامہ لیکس میں بھی کسی اسرائیلی یا مغربی صہیونی کا نام نہیں آیا اور اب اسی طرح پیراڈائز پیپر میں بھی اس قسم کی کوئی بات نہیں ہے کیا یہ سب کچھ ’’اتفاقی‘‘ ہے؟
(ختم شد)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں