چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات کاانتباہ
شیئر کریں
چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات نے متنبہ کیا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے خلاف ہر سطح پر سازشیں جاری ہیں اور بھارت کی خفیہ ایجنسی ’را‘ نے سی پیک کو نقصان پہنچانے کے لیے 50 کروڑ ڈالرز کے فنڈز مختص کردیئے ہیں۔اسلام آباد میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت نے پاکستان کے خلاف روایتی جنگ جاری رکھی ہوئی ہے، جو کسی بھی وقت بڑی جنگ میں تبدیل ہوسکتی ہے۔پاکستان کے خلاف بھارت کی مکروہ سازشوں کاپردہ چاک کرتے ہوئے انھوں متنبہ کیاہے کہ پاکستان کے خلاف سازشیں کرکے ’بھارت آگ سے کھیل رہا ہے انھوںنے یہ بھی بتایا کہ بھارت بلوچستان میںدہشت گردی کو ہوا دے رہا ہے‘۔
پاک بھارت تعلقات معمول لانے کے حوالے سے انہوں نے بجاطورپر یہ واضح کردیاہے کہ بھارت سے بہتر تعلقات کا راستہ کشمیر سے ہو کر گزرتا ہے، بھارت مقبوضہ کشمیر میں خون بہا رہا ہے اور پاکستان کا پانی روک رہا ہے، خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتا جبکہ بھارت ایسا ہی کر رہا ہے اور بھارت پاکستان میں دہشت گردی کروا کر دراصل اس خطے کے امن سے کھیل رہا ہے ۔اس امر میں کوئی کلام نہیں کہ مسئلہ کشمیر کے حل سے ہی جنوبی ایشیامیں دیرپا امن ممکن ہے۔جبکہ مسئلہ کشمیر اس خطے میں ایٹمی جنگ کے خطرات کا پیش خیمہ ہے، اس سے واضح ہوتاہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل سے روگردانی کرکے بھارت خطے کے امن و امان کو غیر مستحکم کر رہا ہے اورپاکستان کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کے بجائے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، قوم پرست بلوچ گروپ اور دیگر دہشت گرد گروہوں کی مدد کرکے پاکستان میں دہشت گردی کراکر اس خطے کے امن کو تہہ وبالا کرنے کی کوشش کررہا ہے اور غیرریاستی عناصر کے ذریعے جنوبی ایشیاکو عدم استحکام کا شکار کیا جارہا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت جنوبی ایشیا کو مختلف چیلنجز کا سامنا ہے جس میں بھارت کا کولڈ اسٹارٹ اور پرو ایکٹو ڈاکٹرائن، بیلسٹک میزائل ڈیفنس سسٹم شامل ہیں۔ بھارت کی جانب سے پاکستان کو نقصان پہنچانے کیلئے دہشتگردی کی متعدد کارروائیاں کی جاچکی ہیں، 3 مارچ 2016 کو بھارتی نیوی کے حاضر سروس کمانڈر کلبھوشن یادیو کو پاکستانی حدود سے گرفتاری کے بعد پاکستان کے خلاف بھارت کی سازشوں کاپردہ چاک ہوچکاہے ،اپنی گرفتاری کے بعد ایک وڈیو بیان میں کلبھوشن نے اعتراف کیا تھا کہ وہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے لیے کام کرتا تھا اور اسے ایک مخصوص ٹاسک دے کر پاکستان بھیجا گیا تھا۔کلبھوشن کے مطابق 2004 اور 2005 میں اس نے کراچی کے کئی دورے کیے جن کا مقصد ‘را’ کے لیے کچھ بنیادی ٹاسک انجام دینا تھا جب کہ 2016 میں وہ ایران کے راستے بلوچستان میں داخل ہوا۔ کلبھوشن نے اعتراف کیا تھا کہ پاکستان میں داخل ہونے کا مقصد فنڈنگ لینے والے بلوچ علیحدگی پسندوں سے ملاقات کرنا تھا۔کلبھوشن یادیو نے اس بات کابھی اعتراف کیا تھا کہ بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیموں کی متعدد کارروائیوں کے پیچھے ‘را’ کا ہاتھ ہے۔اس حوالے سے ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ کلبھوشن یادیو سے پاکستان اور بلوچستان کے نقشے برآمد ہوئے ہیں اور وہ ‘را’ کے چیف اور جوائنٹ سیکریٹری اے کے گپتا سے براہ راست رابطے میں تھا۔ کلبھوشن یادیو کو اس کے اسی اعترافی بیان اور اس کے پاس سے برآمد ہونے والے ثبوتوں کی بنیاد پرپاکستان میں جاسوسی اور تخریب کاری کی کارروائیوں پر سزائے موت سنائی گئی تھی،اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی مجرم کی سزائے موت کی توثیق کردی تھی۔اس سزا کے خلاف بھارت کی جانب سے رد عمل سامنے آیا تھا اور بھارت نے سزا رکوانے کے لیے عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) سے رابطہ کیا تھا۔بھارت کی جانب سے عالمی عدالت انصاف کو خط لکھا گیا تھا جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ پاکستان پر ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کرنے پر کارروائی کی جائے۔
بھارت کی سول اور عسکری قیادتوں کی جانب سے پاکستان اور چین کے خلاف جارحانہ عزائم کا یہ صرف ایک منہ بولتا ثبوت نہیں ہے بلکہ بھارت تقسیم برصغیر کے فوری بعد ہی سے پاکستان کے خلاف جارحانہ عزائم کانہ صرف یہ کہ اظہار کرتارہاہے بلکہ اس کاعملی مظاہرہ بھی کرتارہاہے ، کشمیر کے ایک بڑے حصے پر قبضہ اس کے اسی جارحانہ طرز عمل کا ایک ثبوت ہے ۔ کانگریس کے دور حکومت کے بھارتی آرمی چیف ایس کے سنگھ جو بی جے پی میں شمولیت کے بعد آج بھارتی کابینہ میں شامل ہیں، بطور آرمی چیف بیجنگ اور اسلام آباد کو80،90گھنٹے میں بیک وقت فتح کرنے اورنیست ونابود کرنے کی دھمکیاں دیتے رہے ہیں۔ اب ٹرمپ مودی گٹھ جوڑ نے بھارت کو مزید شیر بنا دیا ہے اور اب بھارت امریکہ کے ساتھ جدید ایٹمی ہتھیاروں کی فراہمی، اسلحہ سازی میں تعاون اور جاسوسی کی غرض سے ڈرون طیاروں کی فراہمی کے معاہدوں کے باعث خود کو علاقے کا تھانیدار سمجھ کر پاکستان اور چین پر باقاعدہ غراتا نظر آتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اپنی نئی افغان پالیسی میں بھارت کو افغانستان میں امن کی بحالی کا کردار سونپ کر اور اس خطے میں اپنا معاون خاص بناکر پاکستان کی سلامتی کیلئے نئے خطرات پیدا کردیے ہیں۔
بھارت امریکا سے ملنے والی جنگی امداد کی بنیاد پر ہی پاکستان کی سلامتی کو آئے روز چیلنج کرتا رہتا ہے۔ گزشتہ سال بھارتی آرمی چیف کی جانب سے کنٹرول لائن پر پاکستان کے اندر سرجیکل اسٹرائیک کی بڑ ھک ماری گئی اگرچہ یہ دھمکی صرف بڑھک تک محدود تھی لیکن بھارت پاکستان پرسرجیکل سٹرائیکس کی دھمکیوں سے باز نہیں آ رہا جبکہ جیسا کہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات نے متنبہ کیا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے خلاف ہر سطح پر سازشیں جاری ہیں اور بھارت کی خفیہ ایجنسی ’را‘ نے سی پیک کو نقصان پہنچانے کے لیے 50 کروڑ ڈالرز کے فنڈز مختص کردیئے ہیں،دراصل سی پیک اور دفاعی معاملات میں چین کا پاکستان سے تعاون بھارت کو ایک آنکھ نہیں بھا رہا۔ سی پیک کے خلاف بھارتی سازشیں بھارتی’’را‘‘ کے حاضر سروس جاسوس کلبھوشن خود بے نقاب کرچکا ہے۔ زیادہ دن نہیںہوئے کہ سکم کی سرحد پر بھارتی فوج کی بڑھتی ہوئی اشتعال انگیزی پر چین نے اسے مسکت جواب دیا تھا اور یہ باور کرایا تھا کہ اس کی کسی بھی جارحانہ کارروائی کا خود اسے ہی نقصان ہوگا۔ لیکن سکم کی سرحد پر منہ کی کھاکر فوجیں واپس بلانے پر مجبور ہونے کے باوجود بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم میں کوئی کمی نہیں آئی اور اببھارت کی مودی سرکار اپنی فوج کو 600ڈرون طیارے فراہم کرکے در حقیقت پاکستان اور چین کی دفاعی صلاحیتوں پر نظر رکھنا چاہتی ہے۔ پاکستان کی سلامتی کیخلاف مودی سرکار کی بڑھتی ہوئی جنونیت تو کنٹرول لائن پر بھارت کی جانب سے بڑھائی گئی کشیدگی سے بھی آشکارا ہے جہاں روزانہ کی بنیاد پر سیز فائر لائن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کی چیک پوسٹوں اور ان سے ملحقہ شہری آبادیوں پر بلا اشتعال فائرنگ اور گولہ باری کی جا رہی ہے۔ گزشتہ روز بھی آزاد کشمیر کے علاقے بٹل سیکٹر میں بھارتی فوج کی جانب سے شہری آبادی پر کی گئی، بلا اشتعال فائرنگ سے ایک دس سالہ بچہ شدید زخمی ہو گیا جبکہ پاک فوج نے اس بھارتی جارحیت کا بھرپور جواب دیتے ہوئے اس کی گنیں خاموش کرا دیں۔
اس تناظر میں اپنی سلامتی کے تحفظ اور علاقائی امن و امان کے لیے پاکستان اور چین کے مابین دفاعی تعاون بڑھانا نہ صرف یہ کہ وقت کی ضرورت ہے جو بھارت کو علاقے کا تھانیدار بنانے کے لیے طے پانے والے ٹرمپ مودی گٹھ جوڑ کے توڑکے لیے بھی ایسا کرنا از بس ضروری ہے۔
امید ہے کہ ہمارے وزیر خارجہ یئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات کے انتباہ پر سنجیدگی سے غور کریں گے اور پوری دنیا کوپاکستان کے خلاف بھارت کی مکروہ سازشوں سے آگاہ کرنے کے ساتھ ہی مسئلہ کشمیر پر عالمی برادری کی بھرپور حمایت حاصل کرنے اور عالمی برادری کو یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے بھارت پر دبائو ڈالنے اور سفارتی ذرائع استعمال کرنے کی ضرورت کااحساس دلانے کی کوشش کریں گے۔