میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں

اک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں

ویب ڈیسک
منگل, ۱۸ اکتوبر ۲۰۲۲

شیئر کریں

 

عمران خان کی سات انتخابی حلقوں سے جیت کی خبریں آرہی ہیں، پی ڈی ایم کا حکومتی اتحاد بہت آسانی سے ڈھیر ہوگیا۔ ایک طرف تیرہ 13 سیاسی جماعتوں کا اتحاد اور دوسری طرف اکیلا کپتان عمران خان، مسلم لیگ نون کو تو الیکشن میں پولنگ شروع ہوتے ہی اپنی شکست کا اندازہ ہوگیا تھا، شاید اسی لیے عطا اللہ تارڑ ووٹروں سے یہ کہتے نظر آئے کہ "عمران خان کو ووٹ دینا ووٹ کو ردی کی ٹوکری میں ڈالنا ہے۔” تحریک انصاف نے اپنی حکمت عملی سے موجودہ سیاسی داؤ پیچ کھیلنے والوں کو ناک آوٹ کردیا ہے۔ عوام کی اکثریت نے اس ضمنی الیکشن میں بہت زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ نہ کیا۔ عمران خان اگر الیکشن میں کھڑے نہ ہوتے تو شائد ان انتخابات میں کوئی ووٹ ڈالنے بھی نہ جاتا۔ اور پولنگ اسٹیشنوں پر دھول اڑتی نظر آتی۔ اب عمران خان پھر اسلام آباد کی جانب رخ کریں گے، لانگ مارچ اور دھرنے کا اعلان تو وہ کرچکے ہیں، بس تاریخ دینا باقی ہے۔ اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کئی بار ہوا ہے، جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے 1996میں ایسا ہی لانگ مارچ کیا تھا، پھر نواز شریف نے بھی وکلاء حمایت میں ایسا ہی لانگ مارچ شروع کیا تھا، عمران خان نے پہلے بھی لانگ مارچ اور دھرنے دیئے تھے، مولانا فضل الرحمٰن 2021میں ایسا لانگ مارچ کرچکے ہیں، تحریک لبیک والے بھی اسلام آباد میں دھرنا دے چکے ہیں، بلاول بھی ریلی لے کر نکلے تھے۔ اسلام آباد کانچ کا بنا ہوا ہے، یا نمک کا ذرا سے پتھراؤ سے ٹوٹ جائے گا، یا تھوڑے سے پانی سے گھل کر بہہ جائے گا۔
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اس وقت عمران خان کو ایسے دھمکیاں دے رہے ہیں جیسے کوئی پہلی بار اسلام آباد یا راولپنڈی کی طرف لانگ مارچ کرنے نکلا ہے۔ بہت سارے معاملات طے ہوچکے ہیں، آئندہ چند دنوں میں بہت کچھ بے نقاب ہوجائے گا، وزیر اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف کے درمیان ون ٹو ون ملاقات میں موسم کے احوال پر تو بات نہیں ہوئی ہوگی۔ امریکا سے لے کر ملکی اندرونی صورتحال پر بات چیت ہوئی ہوگی۔ آئندہ کا لائحہ عمل بھی زیر غور آیا ہوگا۔ امریکا پاکستان کے خلاف دل میں کیا عناد رکھتا ہے، اس کا اظہار تو امریکی صدر کے بیان سے ہوگیا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ ” اْن کے خیال میں پاکستان شاید ’دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک ہے‘ جس کے پاس موجود جوہری ہتھیار ’غیر منظم‘ ہیں۔” عمران خان کی حکومت کو ہٹا نے کے بعد موجودہ حکمران اتحاد کی جانب سے یہ تاثر دیا جارہا تھا کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات ایک پیج پر ہیں۔
بلاول بھٹو کے دوروں، آرمی چیف کے حالیہ دورے کے بعد ، امریکی صدر کا یہ کہنا اس بات کا اظہار ہے کہ ” ڈو مور” کا مطالبہ پھر سے شروع ہوگیا ہے۔ عمران خان نے موجودہ اتحادی حکومت پر کڑی تنقید کی ہے۔ انھوں نے صدر بائیڈن کے اس بیان کو ’امپورٹڈ حکومت کی خارجہ پالیسی اور ان دعوؤں کی مکمل ناکامی قرار دیا ہے۔ فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اکتوبر کے آغاز میں واشنگٹن کے دورے پر گئے تھے۔ جہاں انھوں نے امریکی سیکریٹری دفاع لوئڈ آسٹن سے ملاقات کی تھی۔ جنرل باجوہ نے یہ دورہ اپنی ریٹائرمنٹ سے چند ہفتے قبل کیا اور بظاہر اس ملاقات کا مقصد پاکستان کا امریکاکی جانب سے سیلاب زدہ علاقوں کی مدد کرنے پر شکریہ ادا کرنا تھا۔ اس سے یہ تاثر بھی ملاتھا کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات خوشگوار نوعیت کے ہیں، اور دونوں ملک ایک پیج پر ہیں۔ لیکن امریکی صدر کے اس بیان نے اس صورت حال کو تبدیل کردیا ہے، امریکا کو پاکستان کے حالیہ حکومتی سیٹ اپ پر اعتبار نہیں ہے، اور وہ جو کچھ مطالبات کر رہے ہیں، حکومت شائد ان کی توقعات پر پوری نہیں اتری ہے۔ پاکستان میں حکومتوں کی تبدیلی پر اکثر امریکاکو مورد الزام ٹہرایا جاتا ہے، خود عمران خان نے اپنی حکومت کے خاتمے کو امریکا کی سازش قرار دیا تھا۔ جس کے بعد انھیں زبردست عوامی حمایت حاصل ہوئی۔ عمران خان حکومت کے خاتمے کے بعد سے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ایک مہم چلائے ہوئے ہیں، اور اس میں کئی بار اتار چڑھاؤ دیکھنے میں آئے، انھوں نے جلسوں میں یہ بھی کہا کہ وہ آئندہ اسٹبشمنٹ کے خلاف یا اہم شخصیات کے خلاف کچھ نہیں کہیں گے، لیکن پھر بھی وہ اشاروں کنایوں میں اس بات کا ظہار کرتے رہے ہیں کہ ان کے خلاف جو کچھ بھی ہوا ، اس میں کچھ شخصیات اور اسٹیبلشمنٹ شریک ہے۔ گذشتہ دنوں لندن میں مسلم لیگ نون کے رہنماؤں کی ملاقاتیں ، اور نواز شریف سے مشوروں نے بھی اس موقف کو تقویت دی کہ موجودہ حکمرانوں کو ہدایات لندن سے مل رہی ہیں۔ ڈالر پر جو سٹہ چل رہا ہے، اور اربوں روپے جس انداز سے کچھ لوگوں اور بنکوں اور اداروں نے کمائے ہیں، اس سے بھی یہ اندازہ ہوتا ہے کہ موجودہ الیکشن سے پہلے جو ہاتھ لگ جائے، وہ حاصل کرلیا جائے، بعد میں شائد یہ موقع نہ ملے، ضمنی الیکشن میں عمران خان کی کامیابی نے ان کے اس موقف کی بھی تائید کردی ہے کہ انھیں عوام حمایت حاصل ہے، اس لیے وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں ، اس پر عمل کیا جائے۔ وہ اب پھر اپنا دباؤ بڑھائیں گے۔ اور ممکن ہے کہ حکومت بہت جلد ان کے مطالبات کے آگے گھٹنے ٹیک دے، حکومت کی بساط الٹ جائے، اور وقت سے پہلے الیکشن کے انعقاد کا اعلان کردیا جائے۔ پاکستان کو بچانے کے لیے یہی ایک صورت ہے، ورنہ اندھیرا دھیرے دھیرے بڑھ رہا ہے، دیئے بجھتے جارہے ہیں، اور تاریکی بڑھ رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں