میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
یہ رات کب لپٹے گی؟

یہ رات کب لپٹے گی؟

ویب ڈیسک
پیر, ۱۸ اکتوبر ۲۰۲۱

شیئر کریں

رات لپٹ جائے گی!سحر خور رات کل سورج کے ہی نشانے پر ہوگی!یہی نظامِ فطرت ہے۔ ابھی یہاں گائے کھڑی ہے، کل وہ مردہ ہوگی، تب یہاں گھاس اُگی ہوگی۔
حکیم محمد سعید آج ہی کے دن ہم سے روٹھ گئے تھے۔ اب تیئس سال بیتتے ہیں!اس خاکسار نے اُن کی شہادت کے ذمہ داروں کو بے نقاب کیا تھا۔ طاقت ور حلقوں میں مفادات کے سلسلوں سے تہ بہ تہ پیوستہ تحقیقات کومعلومات کی کسوٹی پر جانچ کر بے وقار کیا تھا۔ طاقت ور حلقے ناراض تھے! یاللعجب ! اسٹیبلشمنٹ کے آج مخالف نوازشریف اور اُن کے حواری بھی۔ دھمکیاں دی جاتیں! کام بند کرو۔ حکیم محمد سعید کو ایم کیو ایم نے ہی قتل کیا تھا۔ مگر عامر اللہ نے نہیں۔ وہ ایک نعت خواں تھا۔ فاروق امین قریشی ،رانا مقبول اور ایک طاقت ور آدمی کی تکون نے عامر اللہ کو ملوث ٹہرایا۔پچاس لاکھ کا انعام ہڑپ لیا ، سب کے مفادات باہم جڑے تھے۔ افسوس! افسوس وہی کہانی آج تک چلی آتی ہے۔ مگر یہ ہمارا موضوع نہیں۔ تب کے جریدے موجود ہیں جس میں اس خاکسار نے خطرات مول لے کرحقائق لکھے۔ پھر عدالتی فیصلے ہیں، جس نے مہر ِتصدیق ثبت کی۔ یہ کہانی پھر کبھی!!
حکیم محمد سعید کی داستان اس خاکسار کو لکھنا تھی۔وہ صبح دم نشست پر مُصر تھے، صبح کاذب جب صبح صادق سے بغلگیر ہوتی ہے۔نمازِ فجر رستے میں اور گاہے اُن کے ساتھ ادا کرنا ہوتی۔ یہ کراچی کے ویران دن تھے۔ جب وحشت سڑکوں پر رقص کرتی۔ ایم کیوایم میں موت بانٹنے والے سیکٹر کی سطح پر تقسیم ہوتے۔ کچھ سڑکیں چوبیس گھنٹے اُن کی نظروں میں رہتیں۔ حکیم صاحب سے عرض کیا! مسکرائے!گویا کہہ رہے ہوں!موت کا ایک دن معین ہے۔ رسان سے کہا: یہی وقت ہے”۔ مطب کا آغاز بھی نمازِ فجر کے فوراً بعد کرتے۔یقین کیجیے! مرتا کیا نہ کرتا کا محاورہ ، تب محاورہ نہ لگا ۔یہ وحشتوں ، دہشتوں میں مہم جوئی کے دن تھے۔ جمعرات کا دن اکثر میری خواہش میں رہتا ، وہ فرماتے: میں پینتیس سال سے ہفتے کی پہلی جمعرات لاہور میں ہوتا ہوں۔ہفتے میں ایک ، گاہے دو روز طے ہوجاتے۔ حکیم صاحب اپنی داستان سناتے۔ نرم دمِ گفتگو ، گرم دمِ جستجو!!اکثر ایسا لگتا حکیم صاحب صوفی ہیں۔ گفتگو کے سلسلے کی پہلی ملاقات میں جب موضوعات کی جہتیں واضح ہونا تھیں۔ حکیم صاحب نے میری جانب دیکھا:فرمائیے! جیسے انٹرویو دینے سے پہلے انٹرویو لے رہے ہوں، ایک سطح کا تعین جہاں مخاطَب سے کلام کیا جاتا ہے۔خاکسار نے بھی سوچا ڈراما ہی کیا جائے۔ نرمی سے بس اتنا کہا: والد کا انتقال ہوگیا۔ تھوڑا سا وقفہ! حکیم صاحب نے پریشانی سے یکدم کہا: کیا؟
تب بات آگے بڑھائی:والد کا انتقال ہوگیا ہو، ایک بھائی تیرہ برس کا ہواور والدہ! دوسال چھ ماہ کا بچہ کیسے زندگی کرتا ہے؟
حکیم صاحب خوش ہوئے!سوال سرے سے نظرانداز کرتے ہوئے ایک انکشاف کیا۔ برخوردار جانتے ہو، میں بھی صحافی بننا چاہتا تھا”۔
دوسال چھ ماہ کے بچے کی زندگی حیرتوں کی حیرت ہے۔ داستانوں کی داستان!اگر اسے کوئی ہیرلڈلیم ایسا مصنف میسر آئے تو زندگی ایک جادو نگری میں آباد محسوس ہو۔ پاکستان میں ”یوتھ” کو سب سے پہلے حکیم صاحب نے مخاطب کیا ، وہ انہیں ”نوجوانانِ وطن” کہہ کر پکارتے۔ اس سے بڑھ کر بچے بھی اُن کا موضوع تھے، جنہیں وہ ”نونہال” کہتے۔ اپنی کتابوں میں جابجا وہ اسی طرح اُن کو مخاطب کرتے ہیں۔
حکیم صاحب سے یہی وہ نشستیں تھیں، جن میں بھٹکتے بھٹکاتے حالاتِ حاضرہ پر بھی بات ہوجاتی۔ اُن کی ہمالیاتی زندگی کے دامن میں ہمارا روزمرہ آجاتا۔ وہ انتہائی باخبر آدمی تھے ۔کچھ موضوعات پر خاموشی اختیار کیے رکھتے۔ایک سوال ہمیشہ دل میں پھانس بن کر رہا کہ حکیم صاحب تب عمران خان سے زیادہ متاثر کیوں نہیں ہوئے؟ یہ وہ ایّام تھے، جب عمران خان اُجاگر ہورہے تھے۔ مغرب کے خلاف وہ مسٹر براؤن ، چمچہ کلچر کے عنوانات سے چھ سات ایسی تحریریں لکھ چکے تھے، جس نے ملک بھر میں مغرب مخالف دائیں بازو کے طبقات میں ایک کشش پیدا کی تھی۔میں جس مکتبۂ صحافت سے تعلق رکھتا تھا، وہاں بھی عمران خان کے لیے انتہائی گرمجوشی پیدا ہوچکی تھی۔ایک طرف پلے بوائے کی شہرت اور دوسری طرف مذہب اسلام کی باتیں متوازی طور پر عمران خان کے ساتھ وابستہ تھیں۔ تب کنجِ لب پر مچلتے سوالات اکابرین کے سامنے بے بس رہتے۔ میرے مکتبۂ صحافت کا خورشید سازشوں نے نگل لیا تھا۔ صلاح الدین شہید ایک دوسری زندگی ہے، خوف جن کی کھال میں داخل نہ ہوا تھا۔ حکیم صاحب کے بہت قریبی دوستوں میں شامل تھے۔ صحافت کی یہ آبرو 4 دسمبر 1994 میں مختلف کہانیوں کو چھوڑ کر قبر میں اُتر گئی۔اپنی شہادت سے چند ماہ قبل کراچی میں ایک امن مارچ کا حصہ تھے، جس میں عمران خان ، عبدالستار ایدھی، خالد اسحق ایڈوکیٹ، میجر ابن الحسن اور کمانڈر ادریس بھی شامل تھے۔ یہ پروگرام جنرل حمید گل کے ”نرم انقلاب ”کا دیباچہ تھا۔ نرم انقلاب جسے وہ گرم انقلاب کے خطرے کو ٹالنے کا واحد ذریعہ سمجھتے تھے۔ میرے ذہن میں ایک سوال تھا، حکیم محمد سعید کے حلقۂ احباب میں یہ تمام لوگ شامل تھے، پھر وہ کیوں اس امن مارچ کا حصہ نہ بنے؟ اس امن مارچ کے دو سال بعد 1996ء میں حکیم محمد سعید کی ایک کتاب جاپان کہانی سامنے آگئی۔ اس کے بہت کم نسخے لوگوں کے ہاتھ لگے۔ حکیم صاحب نے اس کتاب میں عمران خان کے متعلق عجیب وغریب بات لکھی تھی ،جسے دُہرانے کو جی نہیں چاہتا۔ ہم عمران خان سے متاثر نہ ہوئے تھے، مگر اس موقف کی حمایت پر بھی آمادہ نہ تھے، جو سازشی نظریات کی کینچلی جھاڑ کر سامنے آتے تھے۔ حکیم صاحب سمجھتے تھے، کہ عمران خان کو وزیراعظم کے طور پر تیار کیا جارہا ہے، اس کی پشت پر ایک خاص لابی ہے جس کا ذکر گزشتہ دنوں جمائما خان نے مغرب کے اسلاموفوبیا کے متوازی کیا ہے۔ حکیم صاحب سے عرض کیا: کیا یہ رائے کچھ زیادتی پر مبنی نہیں”۔اُنہوں نے کہا: برخوردار تمہیں معلوم نہیں یہ کیا قیامتیں ڈھائے گا”۔
حکیم صاحب امن مارچ کا حصہ کبھی نہیں بنے۔ ڈاکٹر اسرار احمد نے بھی خود کو دورہی رکھا۔ اب یہ دونوں اکابرین ہمارے درمیان موجود نہیں، مگر حالات سامنے ہیں۔ جمائما کے ساتھ شادی کے حوالے سے جس سازشی نظریے نے جنم لیا تھا، وہ اب بھی درست نہیں مگر ان اکابرین نے تب جو رائے دی تھی، وہ قیامتیں ہماری دہلیز پر کھڑی ہیں۔ طلبائے صحافت وسیاست اگر سیاسی اتار چڑھاؤ میں واقعی دلچسپی رکھتے ہیں تو اُنہیں نوے کی دہائی کی یہ متوازی سیاست ضرور سمجھنی چاہئے جو ”متبادل منصوبے ”کے طور پر شروع کی گئی تھی۔ جو”سر آئینہ مرا عکس ہے پس آئینہ کوئی اور ہے” کی ایک تصویر اُبھارتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان اسی متبادل منصوبے کی تہہ بہ تہہ مشقوں سے اُبھرے ہیں۔ اب یہ منصوبہ ایک بوجھ ہے، ”پراجیکٹ دس برس” تین سال میں حکیم محمد سعید کی بیان کردہ قیامتیں ڈھا رہا ہے۔اب آپ مانیں یا نہ مانیں ریت سے بت بنانے والے ”اچھے فنکار’ ‘ بھی اس کے کچھ نہ کچھ ذمہ دار تو ضرور ہیں۔ حکیم صاحب اپنی قبر میں سرخرو اُترے، طالبانِ تاریخ کو یہ تحقیق کرنا چاہئے کہ کراچی میں امن مارچ کے بعد وہ کون سے پراسرار حالات تھے، جس میں کچھ اہم شہادتیں ہوئیں۔ حکیم صاحب کی شہادت کے ہاتھ تو سب نے پہچان لیے ، دماغ بھی ڈھونڈنے چاہئے جو اس منصوبے کے محرک تھے۔ ایسے ہی دماغ قومی سیاست کے قتل کے بھی ذمہ دار ہیں۔ اس کے بغیر سحر خور راتیں سمیٹی نہ جاسکیں گی،اس زمینِ سیاست پر کوئی گھاس اُگ نہ سکے گی۔ قومی سیاست کی زمین پر صرف گائیں کھڑی ملیں گی اور وہ بھی مقدس ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں