’’مصنوعی ذہانت ‘‘ پر غلبے کی حقیقی جنگ
شیئر کریں
امریکا اور چین کی حریفانہ کشمکش اَب اُس اختتامی مرحلے میں داخل ہوچکی ہے ۔جہاں کسی ایک فریق کے حصے میں فتح ،جبکہ دوسرے کے مقدر میں شکست کا لکھا جانا یقینی ہوچکا ہے۔ مگر مستقبل میں فریقین میں سے کون سا ملک ’’فاتح عالم ‘‘ کے منصب پر فائز ہوگا؟یہ ایک ایسا پیچیدہ سوال ہے ، جس کا جواب تلاش کرنے کے لیے دنیا بھر کے ماہرین عسکریات اور سیاسی تجزیہ کار ایک دوسرے کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھے سوچ و بچار میں مصروف ہیں ۔ امریکا اور چین کے مابین جاری کشمکش میں کس کا پلڑا بھاری رہے گا؟ بعض ممالک کے لیے اس سوال کا درست جواب پیشگی حاصل کرنا اس لیے بھی ازحد ضروری ہے ۔ تاکہ اُنہیں اپنے متوقع حلیف اور حریف کا بروقت انتخاب کرنے میں قدرے آسانی و سہولت میسر آسکے۔کیونکہ ہر ملک کی قیادت فقط ایسے طاقت ور ملک کے’’عسکری کیمپ‘‘ میں ہی شامل ہوناچاہے گی ،جس کی جیت کے امکانات کم و بیش یقینی ہوں۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ آئے روز عالمی ذرائع ابلاغ پر دفاعی ماہرین اور سیاسی تجزیہ کاروں کی جانب سے ایسے بیانات او رتحقیقاتی رپورٹس تواتر کے ساتھ سامنے آتی رہتی ہیں ۔ جن میں امریکا اور چین کی عسکری طاقت و صلاحت کا ایک دوسرے کے ساتھ مختلف زاویوں سے موازنہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
رواں ہفتے امریکی محکمہ دفاع کے سابق سافٹ ویئر آفیسر ’’نکولس شیلان ‘‘ نے امریکا اور چین کا مصنوعی ذہانت کے میدان میں موازنہ اور مقابلہ کرتے ہوئے بیان دیا ہے کہ ’’ مصنوعی ذہانت پر مشتمل ٹیکنالوجی کے میدان میں امریکا چین سے ہار چکا ہے اور آنے والے 15 سے 20 برسوں تک امریکا کی جیت کے امکانات بالکل ہی معدوم ہوچکے ہیں‘‘۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ’’نکولس شیلان ‘‘ کے فنانشل ٹائمز کو دیے گئے انٹرویو نے دووجوہات کی بنا ء پر عالمی ذرائع ابلاغ کی توجہ بھرپور انداز میں اپنی جانب مبذول کروالی ہے۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ موصوف کا تعلق ایک طویل عرصہ سے پینٹاگون سے رہا ہے اور انہوں نے گزشتہ ماہ ہی سماجی رابطوں کی ویب سائٹ لنکڈان پر اپنے استعفے کا اعلان کیا تھا۔ اس لیے اُن کی کہی گئی ہر بات امریکا کے حریفوں کے لیے ’’گھر کی گواہی ‘‘ کا درجہ رکھتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں عام خیال یہ پایا جاتارہا ہے کہ ٹیکنالوجی کے میدان میں امریکا چین سے کہیں آگے ہے۔ لیکن ’’نیکولس شیلان ‘‘ نے اپنے انٹرویو پہلی بار یہ انکشاف کرکے ساری دنیا کو حیران کردیا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی میں چین ،امریکا سے کوسوں میل آگے ہے۔
امریکی محکمہ دفاع کے سابق سافٹ ویئر آفیسر ’’نکولس شیلان ‘‘ کایہاں تک کہنا تھا کہ’’ آرٹیفیشل انٹیلی جنس یعنی مصنوعی ذہانت کے شعبے میں چین پہلے ہی امریکا کو شکست دے چکا ہے اور اپنے عہدے پر برقرار رہتے ہوئے میں یہ نہیں برداشت کر پایا کہ چین مصنوعی ذہانت کے میدان میں جیت رہا ہے اور ہم مکمل طور پر غافل ہیں، لہٰذا میں نے استعفیٰ دیدیا‘‘۔ انہوں نے اپنی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہ کہ’’ عالمی غلبے کیلئے چین مصنوعی ذہانت میں جدت اور ترقی کی وجہ سے ہی آگے بڑھ رہا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ چین مشین لرننگ، سائبر صلاحیتوں اور ٹیکنالوجیکل ٹرانسفارمیشن میں بہت زیادہ آگے نکل چکا ہے۔ یعنی براہ راست تقابل کے لحاظ سے دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ چین کے سامنے امریکی ٹیکنالوجی اب ایسی ہے جیسے کے جی کلاس میں پڑھتا ایک بچہ کسی یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طالب علم کے سامنے بیٹھا ہو ‘‘۔ انہوں نے معروف امریکی ٹیک کمپنی گوگل پر الزام عائد کیا کہ ’’کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ گوگل مریکی محکمہ دفاع کے ساتھ کام کرنے سے مکمل طور پر انکاری ہے جبکہ دوسری طرف چین میں دیکھیں تو ہر چائنیز ٹیک کمپنی حکومت کے ساتھ بڑھ چڑھ کر کام کرنے کو تیار ہے اور چینی حکومت ان کمپنیوں پر بھاری سرمایہ کاری بھی کر رہی ہے اور چین نے اپنی دفاعی استعداد کار کو بڑھانے کے لیے آرٹیفیشل انٹیلی جنس میں اخلاقی اقدار کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مسلسل زبردست سرمایہ لگارہا ہے‘‘۔
اپنے انٹرویو میں ’’نکولس شیلان ‘‘ نے یہ بھی کہا کہ’’ اگرچہ امریکا چین کے مقابلے میں اپنے دفاع پر تین گنا زیادہ معاشی وسائل خرچ کرتا ہے لیکن اس کا فائدہ اس لیے نہیں ہو رہا کیونکہ امریکا غلط شعبہ جات پر سرمایہ لگا رہا ہے۔ جبکہ نااہل امریکی بیوروکریسی اور اضافی ضابطوں کی وجہ سے اُن تبدیلیوں کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے جن کی امریکا کو اشد ضرورت ہے‘‘۔اپنے استعفے میں نکولس نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہنا تھاکہ’’ میری امریکی قیادت سے التماس ہے کہ براہِ مہربانی کسی ایسے میجر یا کرنل کو ٹیکنالوجی کے شعبے کا سربراہ لگانے یا ایک سے چار ملین صارفین کے ڈیٹا کا کلائوڈ ، اُس کے حوالے کرنے سے گریز کریں جسے اس کام کا سرے سے تجربہ ہی نہ ہو۔ یہ عین وہی مثال ہے کہ جیسے ایک کروڑوں ڈالر مالیت کا طیارہ بنانے کے بعد اسے اڑانے کے لیے کسی سینکڑوں گھنٹے اُڑان کا تجرنہ رکھنے والے پائلٹ کے بجائے ،ایک ٹرک ڈرائیور کا انتخاب کرلیا جائے۔تو آخر ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ جسے مصنوعی ذہانت اور آئی ٹی کا تجربہ ہی نہ ہو اسے ٹیکنالوجی کے شعبے کا سربراہ بنا دیا جائے ؟ ایسے شخص کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ کرنا کیا ہے اور کس چیز کو ترجیح دینا ہے اور اس صورتحال کی وجہ سے اصل کام سے توجہ ہٹ جاتی ہے‘‘۔
امریکی محکمہ دفاع کے سابق سافٹ ویئر آفیسر ’’نکولس شیلان ‘‘کے تفصیلی انٹرویو کا لب لباب یہ تھا کہ چین اور امریکا کے درمیان جنگ میں فیصلہ کن ہتھیار مصنوعی ذہانت کا استعمال ثابت ہوگا ۔ یہاں ہم اپنے قارئین کی دلچسپی کے لیے وضاحت کرتے چلیں کہ مصنوعی ذہانت یعنی آرٹیفیشل انٹیلی جنس کمپیوٹرسائنس کا ایک ایسا ذیلی شعبہ ہے، جس میں ذہانت (یا فہم)، سیکھنے اور کسی صلاحیت کو اپنانے سے متعلق بحث کی جاتی ہے۔ مستقبل قریب میں مصنوعی ذہانت صرف ہمارے اردگر پائی جانے والی روزمرہ استعمال کی اشیاء کو ہی نہیں بلکہ ہمارے دماغ کو الیکٹرانک سرکٹ سے منسلک کردے گی، جو جسمانی خلیوں کے مقابلے میں بہت بہتر ہوں گے۔سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ 2030ء کی دہائی تک ہم انسانی دماغ اور شعور کو الیکٹرانک میڈیم سے نقل کرنے کے بھی قابل ہوجائیں گے۔بنیادی طور پر آرٹیفیشل انٹیلی جنس یا ’’اے آئی‘‘ انسانی دماغ کو بائے پاس کرکے اس سے کئی گنا زیادہ سوچنے، سمجھنے اور پھر عمل کر دکھانے والی مشین میں تبدیل ہوجائے گی۔دراصل مصنوعی ذہانت ایک ایسی منفرد سائنس ہے جس کی مدد سے مشینوں کو ازخود فیصلہ کرنے کی ذہانت دی جاسکتی ہے۔اس وقت گوگل سرچ، آئی بی ایم واٹسن، جدید مہلک ہتھیاروں کی دوڑ، صنعتوں، معاشیات و سوشل میڈیا، غرض یہ کہ اب ہر جگہ مصنوعی ذہانت کا سکہ چلتا نظر آتا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ 50برس میں جو ایجادات اور تحقیقی مواد سامنے آیا ہے، وہ ایک حد تک ’’کمزور یا محدود ذہانت‘‘ کا حصہ تھا، لیکن مصنوعی ذہانت کی ایجاد کے ساتھ ہی ہماری مشینوں نے بڑی تیز رفتاری کے ساتھ اپنے آپ کو’’لامحدود ذہانت ‘‘ کا حامل بنانا شروع کردیا ہے ۔ جیسے کہ انسانی چہرہ پہچاننا، یا انٹرنیٹ سرچ انجن، جن کے ذریعے ہم ماضی کے مقابلے میں انتہائی کم وقت میں اپنے کام کو بھرپور طریقے سے سر انجام دینے کے قابل ہو گئے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ محققین کے نزدیک یہ بھی مصنوعی ذہانت کی ایک کم ترین سطح ہے کیونکہ ان کا اصل منصوبہ مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کو اس حد تک آگے لے کر جانا ہے کہ انسانی کی بنائی ہوئی مشین انسان کے آپریٹ کیے بغیر از خود اپنے تمام کام سر انجام دینے کی اہلیت کی حامل بن جائے، جس کی ایک مثال ’’ہیومن روبوٹ‘‘ یا انسان نما روبوٹس قرار دیے جاسکتے ہیں، جن پر 1995سے کام کیا جارہا ہے اور اب تک ایسے لاکھوں کی تعداد میں روبوٹس متعارف کروائے جا چکے ہیں جو مشینوں کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ کسی بھی اچانک رونما ہونے والی خرابی اور ہنگامی صورتحال سے مؤثر طریقے سے نمٹ سکتے ہیں۔اس ایجاد کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ مستقبل میں اِن ’’ہیومن روبوٹس ‘‘ کو بطور سپاہی قتل و غارت گری کے لیے استعمال کیے جانے کا سب سے زیادہ امکان ہے۔
دراصل امریکی محکمہ دفاع کے سابق سافٹ ویئر آفیسر ’’نکولس شیلان ‘‘ بھی امریکی قیادت کو اپنی سائنسی زبان میں یہ ہی سمجھانے کی کوشش کررہے کہ جنگی ہتھیاروں میں مصنوعی ذہانت کے استعمال سے انہیں روایتی ہتھیاروں کے مقابلے میں ہزار گنا زیادہ مہلک بنایا جاسکتاہے اور اگر واقعی چین ،مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کی ایجاد، اختراع اور استعمال میں امریکا سے کہیں زیادہ آگے نکل گیا ہے تو پھر امریکی کی ساری عسکری برتری چند لمحوں میں خاک میں مل کر رہ جائے گی۔ کیونکہ جدید ترین مصنوعی ذہانت سے لیس فقط ایک عدد مہلک ہتھیار بھی، جس کے بارے میں یقینی طور پر کوئی کچھ بھی نہ جانتاہو ، وہ کسی غیر متوقع صورت حال میں امریکا کے بے شمار جنگی طیاروں ، درجنوں بحری بیڑوں اور لاکھوں سپاہیوں پر تن تنہا بھاری پڑ سکتاہے ۔
یہاں عام امریکی شہریوں کے نقطہ نظر سے سب سے تشویش کی بات یہ ہے کہ امریکا میں مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کی ترقی و بہتری کے لیے صرف پینٹاگون کا ایک چھوٹا سا ذیلی ادارہ کام کررہا ہے ۔ جب اس کے مقابلے میں چین کی ہزاروں ہائی ٹیک کمپنیاں اور چینی کے تمام دفاعی ادارے باہم مل جل کر دن ،رات مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کی تحقیق ،تدوین اور ترویج میں مصروف ہیں ۔ اَب آپ خود ہی اندازہ لگاسکتے ہیں چین اور امریکا میں سے کون سا ملک مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کی معراج پر سب سے پہلے پہنچے گا؟ یاد رہے کہ چونکہ دنیا کی اکثریت ابھی بھی ٹیکنالوجی کی اصل حقیقت سے مکمل طور پر نابلد ہے، اس لیئے وہ نہیں جانتے کہ مصنوعی ذہانت کتنا بڑا عسکری ہتھیار ثابت ہوسکتاہے۔ یوں جان لیجئے کہ مصنوعی ذہانت کی غیر معمولی طاقت کے سامنے ایٹم بم بھی پرکاہ برابر حیثیت نہیںرکھتا ۔
٭٭٭٭٭٭٭