یوم احتساب ، حکمرانوں کایوم حساب نہ ہوجائے
شیئر کریں
محمد اشرف قریشی
عقلمند لوگ کہتے ہیں کہ جب سانپ کو موت آتی ہے وہ راستے میں بیٹھتا ہے اور اسی طرح جب گیدڑ کی موت آتی ہے تو وہ پھر شہر کا رُخ کرتا ہے، یہ اہل قلم کا کہا ہوا جملہ ہے کہ ہماری سیاست مریضہ بن چکی ہے اور اس سچ کو پردے میں نہیں چھپایا جاسکتا کہ ہماری سیاست بستر مرگ پر سسکیاں لے رہی اور ایڑیاں رگڑ رہی ہے۔ یہاں تک کہ جو بھی ڈاکٹر اور طبیب بن کر سیاست کے علاج کے لیے بستر مرگ پر آتا ہے وہ بھی نیم حکیم اور نیم ملا ہونے کا ثبوت دیتا ہے۔
آج میاں نواز شریف وطن عزیز کے وزیر اعظم کے منصب جلیلہ پر فائز ہیں وہ اس مقام پر کس طرح آئے اور کیسے ایوان میں براجمان ہوئے اس پر نہ ہماری بحث ہے اور نہ ہی اس وقت اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں، البتہ ہمارا یہ کہنا شائد غلط نہ ہو اور آنے والا کل درست بھی ثابت کردے ، ہمیں یہ تو دکھائی دے رہا ہے کہ ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے، انجام گلستاں کیا ہوگا۔ ہمیں میاں نواز شریف کی سیاست کمزور ہی نہیں بلکہ کمزور ترین نظر آرہی ہے اور اس کمزوری ہی کا پیش خیمہ ہے کہ ملک بے شمار مسائل کی زنجیروں میں جکڑا اور قوم لاتعداد مشکلات کا شکار ہے ۔یہ بھی درست ہے کہ کرپشن طاقتور ہے جس کے سامنے دم مارنے کی کسی کو جرات نہیں ہوسکتی اور کرپشن کا یہ کمال ہے کہ کرپٹ لوگوں کے اتوار بازار میں کرپٹ سوداگروں کی یلغار ہے، اور اگر یہ کہا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں کہ قوم غریب ہے اور وہ اس بازار میں داخل بھی نہیں ہوسکتی، میاں نواز شریف نے اپنی شرافت کے لبادے سے فائدہ بھرپور اٹھایا اور نہ صرف کرپشن سے خود اپنے ہاتھ رنگین کیے بلکہ کرپٹ سیاستدانوں کو اپنی نمائندگی اور وکالت کے لیے وقف کردیا، ابھی ہمیں اس کی تفصیل سے پردہ نہیں اٹھانا ہے لیکن یہ کہنا نظریہ ضرورت بنتا ہے کہ میاں نواز شریف کو،22 کروڑ سے زائد عوام کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے صرف 3 ہی زبان دراز ترجمان ملے جو رانا ثناءاللہ، پرویز رشید اور سعد رفیق ہیں۔جن کی وزارتیں فقط میاں نواز شریف کی سیاسی اور نظریاتی حفاظت کے لیے وقف ہیں، ہمیں یہ قلم بند کرنے میں کوئی عار یا حجاب نہیں کہ وہ میاں نواز شریف ہی کی کرپشن چھپانے کے لیے نہیں بلکہ اپنی کرپشن پر پردہ ڈالنے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔
عمران خان تحریک انصاف کے سربراہ ہیں اور وہ قوم کے روشن مستقبل اور وقار کی سربلندی کے لیے میدان جہاد میں ہیں۔ وہ پاکستان کو تعمیر و تکمیل کے حقیقی مقاصد سے ہم آہنگ کرنے کا مشن لے کر سیاسی میدان میں آئے اور انہوں نے ان ہی مقاصد کی تعمیل و تکمیل کے لیے چھپے راز کھولے، سیاسی حمام سے باہر نکالنے کی کوشش اور جدوجہد کی اور…. اورجو قوم کے رہزن ہوتے ہوئے راہبر کے لبادے میں چھپے ہیں انکے لیے یعنی میاں نواز شریف کے لیے مشکلات پیدا ہوئیں، ان کی سیاست شائد ہمیشہ کے لیے دفن ہوجائے لیکن ہم میاں صاحب کی خدمت میں آج بھی صائب مشورے کا چراغ جلارہے ہیں کہ عمران خان کو جو کچھ سمجھ رہے ہیں اور چند لوگوں کو اُن کے خلاف محاذ آرائی کی ذمہ داریاں سونپ رہے ہیں یہ کسی بھی زاویہ اور نقطہ¿ نظر سے درست نہیں ہے، شاید کہ اترجائے ترے دل میں میری بات کہ عمران خان کوقوم سے کیا جانے والا مذاق اور غربت کے شکنجے میں ڈالے جانے کے انتقام میں قدرت نے مقرر کیا۔ آپ احتساب کے کٹہرے میں آجائیں اور جو الزامات عائد ہوچکے ہیں اس کی وضاحت کرنے میں کسی شرم اور حجاب سے کام نہ لیں۔ اگر حضر عمرؓ امیر المومنین ہوتے ہوئے عدالت میں آ سکتے ہیں توہم اور آپ کس کھیت کی مولی ہیں، ہم آج عمران خان کی خدمت میں بھی صائب مشورے کی گیند ڈالتے ہیں کہ آپ کا مطالبہ سو فیصد درست ہے لیکن عوام کی تائید و حمایت کے بغیر کامیابی کی معراج کبھی نہیں مل سکتی۔ قوم آج کسی بھی آزمائش کی متحمل نہیں ہوسکتی اور ہم نے میاں صاحب کو بتادیا ہے کہ اگر احتسابی مطالبے سے انحراف کیا تو یوم احتساب کہیں یوم حساب ثابت نہ ہوجائے۔