میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
جیسے کو تیسا؟

جیسے کو تیسا؟

جرات ڈیسک
منگل, ۱۸ اکتوبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

ابھی چیئرمین پیمرا ابصار عالم کا ذکر چھوڑیں۔بات طرزِ فکر کی ہے۔ ہم سوچتے کیسے ہیں؟ ایک قوم کی اپنی اجزائے ترکیبی ہوتی ہے۔ انسانی نسلوں پر ہی کیا موقوف حیوانوں میں بھی کچھ الگ گروہ ہوتے ہیں جن کی عادتیں ایک دوسرے سے نہیں ملتیں۔ وہ اپنے اپنے ماحول میں زندگی کرتے ہیں۔ ایک دوسرے سے الگ اور مختلف نمونے پر۔ ہندو اور مسلمان برصغیر کی دومختلف قومیںہیں۔ برصغیر میں محمد علی جناح کے علاوہ کوئی اور نہ تھا جنہوں نے سنجیدگی سے ہندو اور مسلمانوں کے مشترکات پر اُنہیں اکٹھا دیکھنے کی کوشش کی۔ اُن کی سنجیدگی کے باعث ہی وہ ”ہندو مسلم اتحاد کے سفیر “ کہلائے۔ مگر تاریخ اپنے فیصلوں میں اٹل ہے۔ قزاق اجل کی طرح وہ کبھی ٹلتی نہیں۔ وہ صاف قلب کے انسان تھے، تجربے نے اُنہیں سمجھایا تو ببانگ دُہل کہا کہ ”ہندو اور مسلم ایک قصبہ یا گاو¿ں میں بھی رہیں تو کبھی ایک قوم نہیں بن سکتے۔“
محمد علی جناح ایک حقیقت پسند ہی نہیں عملیت پسند رہنما تھے۔ اُن کی عملیت پسندی نے ہی اُن سے یہ الفاظ کہلوائے تھے۔ مگر اُن کی قوت ادراک نے تو کرشمہ کردکھایا۔ا ُن پر وہ گھڑی معلوم نہیں کب اُتری ہوگی جب اُن کے وفور ِ شعور نے الفاظ کی ایسی گوٹا کناری کی۔” اسلام اور ہندو مذہب دو الگ الگ مذاہب نہیں بلکہ دومختلف معاشرتی نظام بھی ہیں۔ یہ آپس میں شادی بیاہ نہیں کرتے ۔ ایک دسترخوان پر کھانا بھی نہیں کھاتے۔ یہ دو علیحدہ اور مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں۔اور ان تہذیبوں کی بنیاد ایسے تصورات اور حقائق پر رکھی گئی ہے جو ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ان کے تاریخی وسائل اور ماخذات مختلف ہیں۔ ان کی رزمیہ نظمیں ، سربرآوردہ بزرگ اور قابل فخر تاریخی کارنامے ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ بسا اوقات ایک قوم کا رہنما ، دوسری قوم کی برتر ہستیوں کا دشمن ہوتا ہے۔ ایک قوم کی فتح دوسری کی شکست ہوتی ہے۔ لہذا ان دونوں کے لیے بنایا گیا کوئی بھی مشترکہ آئین خاک میں مل کر رہے گا۔“
محمد علی جناح کے یہ الفاظ تاریخ کے ماتھے کا جھومر بن گئے۔ ان الفاظ پر اُن کایقین کچھ ایسا تھا کہ وہ محمد علی جناح سے قائد اعظم بن گئے۔ برصغیر میں مسلم قوم نے کبھی ان سے بڑھ کر کسی اور پر اعتما دنہ کیا تھا۔ مگر اب بات دوسری ہے۔ اب ہمارے قائد محترم میاں نوازشریف ہیں۔جنہیں موٹے پیٹوں کا لشکر قائد اعظم ثانی باور کراتا ہے۔ اب وہ ارشاد فرماتے ہیں کہ بس تقسیم کی ایک لکیر دوملکوں کے درمیان ہیں باقی سب کچھ ایک جیسا ہے۔ اُن کے عہد حکومت میں کوئی اس سے بڑھ کر سوچ بھی کیا سکتا ہے جو چیئرمین پیمرا نے سوچا۔ بظاہر تو اُنہوں نے حکومت سے سفارش کی ہے کہ بھارتی چینلز اور مواد پر مکمل پابندی لگادی جائے۔ مگر اُن کا طرز فکر ملاحظہ کیجیے۔ ابصار عالم نے ایک عالمانہ شان سے کہا ہے کہ بھارت میں اُن فلموں پر پابندی لگا دی گئی ہے جن میں پاکستانی فنکار کام کررہے ہیں۔ لہٰذا ہمیں بھی یہی کرنا چاہئے!!!! یہ بظاہر تو جیسے کو تیسا کا طرزعمل لگتا ہے۔ مگر یہ پسپائی کا ایک مکمل بیانیہ ہے۔ جس میں دشمنی کے لیے بھی ہم پہلے دشمن کے طرزعمل کے محتاج ہیں۔ یہ ایک اُدھا کا تناظر ہے۔ جس میں ہم دراصل خود کو بھارتی تحویل میں رکھ کر سوچتے ہیں۔
ذرا دیکھئے یہ قوم کیسی شاندار تاریخ رکھتی ہے۔ مگر اب اس کا محور کرینہ کپور ، شاہ رخ خان ، اجے دیوگن، اکشے کمار کی فلمیں ہیں۔ چند بھارتی اداکاروں اور اداکاراو¿ں پر ان کی ثقافت کی مشترکات کی بنیاد ڈھونڈی جارہی ہے۔ اور ایسے لوگ ہمارے حکمران ہیں جو اس نظریہ سازی کی تقویت کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ ریاست کی پوری طاقت اس عمل میں صرف ہورہی ہے اور کوئی پرسان حال نہیں۔ افسوس پاک فوج بھی اس کا پوری طرح ادراک نہیں کر پارہی کہ یہ بھارت کی طرف سے سرجیکل اسٹرائیک کے دعوے سے زیادہ خطرناک کھیل ہے۔ کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے برسوں پہلے کہہ دیا تھا کہ پاکستان پر اب کسی نئے حملے کی ضرورت نہیں، یہ کام بھارتی فلمیں کرچکی ہیں۔ یہ بات دشمن کے منہ سے نکلی ہے ۔ اس لیے اس پر ایک تعصب بھی موجود ہے ۔ مگر درحقیقت ماجرا مختلف نہیں۔ پاکستان میں اب بچے شادیوں کے بعد پوچھنے لگے ہیں کہ ابھی پھیر ے تو ہوئے نہیںپھر شادی کیسے ہوئی؟ بھارتی ڈراموں کے مختلف کرداروں کے ناموں سے اشیاءکھلی منڈی میں دستیاب ہیں۔کارپوریٹ جمہوریت نے ایک ایسا خراچ معاشرہ جنم دے دیا ہے جو ہر چیز کو برائے فروخت کی عینک سے دیکھتا ہے۔ یہاں تک کہ نظریہ پاکستان کو بھی وہ اس کی بھینٹ چڑھانے کو تیار ہے۔
پاکستان کے ان لال بجھکڑوں کو کیسے سمجھایا جائے کہ برہمن ذہنیت اُنہیں کبھی گوارا نہیں کریگی۔ یہ مسئلہ فلموں اور ڈراموں کا نہیں۔ طرزعمل اور تاریخ کا ہے۔ برہمن ذہنیت اس حوالے سے اُن ہندوو¿ں کوگوارا نہیں کرتی جو رعایت کی بوباس رکھتے ہیں۔ بی جے پی نے اپنے ہی رہنما جسونت سنگھ کو اپنی ایک کتاب پر نشان عبرت بنا دیا۔ جس میں وہ قائد اعظم کی طرف سے متحدہ ہندوستان کی خواہش کو حقیقی قرار دیتے ہوئے کانگریس کے تاریخی رویئے کا پردہ چاک کرتے ہیں۔ وہ خورشید قصوری کی کتاب کی تقریب رونمائی بھارت میں گوارا نہیں کرتے۔ یہ برہمن ذہنیت بھارت کی عدالت عظمیٰ کے ایک سابق جج مرکنڈے کاٹجو کے اس پر مزاح ٹوئٹ کو گوارا نہیں کرتے کہ ”پاکستان کو اگر کشمیر لینا ہے تو پھر اُسے ساتھ بہار کو بھی لینا پڑے گا۔“ اس ٹوئٹ پر جج کو انتہاپسند بھارتیوں نے چھلنی کردیا یہاں تک کہ اُنہیں معافی مانگنی پڑی۔ ہندوو¿ں کی پوری تاریخ اسی سے عبارت ہے۔ بھارت کے ساتھ تعلق نہ رکھنے کا تعلق ہی ساز گار ہے۔ مگر یہ بات تقسیم کو محض ایک لکیر سمجھنے والوں کی سمجھ میں نہیں آئے گی۔
وزیراعظم نوازشریف کے دسترخوان پر بیٹھے ان حرص آلودہ ذہنوں کو یہ باور کرانا بہت مشکل ہے کہ بھارتی مواد محض اس لیے نہیں دھتکارا جانا چاہئے کہ وہ ہمارے چند بھانڈوں ، مسخروں اور گویوں کو اپنے ہاں قبول نہیں کرتا۔ بلکہ یہ اس کے باوجود بھی ہمارے لیے قابل قبول نہیں۔ ہماری تاریخ اور ذوق ومزاج اور اُن کی تاریخ اور ذوق ومزاج بالکل الگ الگ ہیں۔ ہم ایک دوسرے کے لیے کبھی قابل قبول نہیں ہوں گے۔ اس کے باوجود کہ ہم ایک دوسرے کے مواد کو ایک دوسرے کے لیے قابل رسا بنا دیں ۔ قائد اعظم نے بات واضح کردی تھی کہ
”ہندو اور مسلم ایک قصبہ یا گاو¿ں میں بھی رہیں تو کبھی ایک قوم نہیں بن سکتے۔“ کوشش کرنے والے مزید کوشش کردیکھیں!


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں