میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
عمران خان پاک بھارت سرحد پر دھرنا دیں

عمران خان پاک بھارت سرحد پر دھرنا دیں

منتظم
منگل, ۱۸ اکتوبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

ahsaan-baari

ڈاکٹر میاں احسان باری
عمران خان کا اسلام آباد کو سیل کرڈالنے کا وقت قریب آلگاہے، اور ملک میں افرا تفری کی فضابنی ہو ئی ہے۔دیگر سیاسی پارٹیوں کا موقف یوں ہے کہ عمران خان کا موقف تو ٹھیک ہے مگر اسلام آباد میں چونکہ مرکزی حکومت کا سیکریٹریٹ ہے اس لیے اس کا گھیراﺅ کرنا اور ملازمین کو کام سے روکنا غیر آئینی اور مناسب عمل نہیں۔ دارالحکومت کا گھیراﺅ کرنے سے بھارتی بنیے خوشی سے الٹی چھلانگیں لگائیں گے کہ چلے تھے ہمارے خلاف لڑنے اور آپس ہی میں گھتم گتھا ہو گئے چو نکہ بھارتی بارڈر ز پر سخت تناﺅ ہے اور بھارتی افواج سارے پاکستانی بارڈرز کے ساتھ لگ چکی ہیں اس لیے اس وقت تو بھارت کا گھیرا تنگ کرنا چاہیے۔ سفارتی سطح پر اس کی طرف سے کشمیر میں مسلسل ساڑھے تین ماہ سے کرفیو 115سے زائد افراد کی قتل و غارت گری اور ہزارو ں کو زخمی کرڈالنے پراس کے خلاف بھر پوراحتجاج ہو نا چاہیے تاکہ اس کا موقف غلط ثابت ہو جائے ۔کشمیر کمیٹی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن ہیں، اس لیے سمجھیں کہ وہ ہیں بھی اور نہیں بھی ہیں۔ نہ تو انہوں نے بیرونِ ملک وفود بھیج کر کشمیر پر کیے گئے مظالم کو اجاگر کیا ا ور نہ ہی کبھی خود تشریف لے گئے ،وفاقی وزارت انجوائے کر رہے ہیں۔حکومتی اتحادی ہونے کے ناطے صرف مرکزی حکومت کی گو مگوں کی پالیسی کو ہی فالو کررہے ہیں۔عمران خان نے بھی قومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس میں نہ جا کر سنگین غلطی کی۔ لندن کے مئیر کے انتخابات میں مسلمان امیدوار کے مقابلے میں اپنے یہودی سالے کی مدد بھی بڑی غلطی تھی۔ادھران کا ہر پارٹی سے اٹ کھڑکا ،مولانا فضل الر حمٰن کی نقلیں اتارنا ،ایم کیو ایم اور نواز شریف کی مخالفت کو ذاتی مشن کے طور پر اپنانا، جماعت اسلامی جو کے پی کے میں اب بھی ان کی اتحادی ہے، اسے بڑے معرکے پر بھی اعتماد میں نہ لے سکنا۔اے این پی سے چونکہ اقتدار چھینا، اس لیے وہ خواہ مخواہ ہی ٹانگیں کھینچتے ہیں ۔اس لیے ایسے عوامل ان کے اقتدار تک پہنچنے میں بڑی رکاوٹیں ہیں اسلام آباد کے گھیراﺅ کے اعلان کے بعد یہ کہہ ڈالنا کہ ”میں نے کوئی ان سے رشتہ لینا تھا؟“ کا بھی سیاسی حلقوں نے برا منایا۔ مشہور” لاہوری جلسہ” میںنئی قیادت کے نعروں کو پارٹی میں نو دولتیوں نے گھس کر پیچھے پھینک ڈالا ہے۔چو نکہ عمران خان ذاتی طور پر مخلص ،ایماندار ،غریبوں کا دکھ درد بانٹنے والے اور ملک میں فلاح و بہبود کی سیاست کرنے کے داعی ہیں۔اس لیے ہمدردی کے طور پر چند گزارشات پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ اس سے ان کی سیاست میں بگاڑ اور پٹڑی سے اتری ہوئی گاڑی دوبارہ لائن پر چڑھ سکتی ہے ۔وہ اپنا دھرنا پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے بھارتی بارڈر کے ساتھ ساتھ شفٹ کرنے کا فوراً اعلان کردیں ۔ہر 100 میل کے علاقے میں ایک ایک ہفتہ لگائیں اور یہ موقف ببانگ دھل اپنائیں کہ جب تک بھارت مقبوضہ کشمیر میں خودارادیت کی اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل در آمد نہیں کرتا میرا اور میرے کارکنوں کا پاکستان زندہ باد دھرناہمالہ سے کراچی تک جاری رہے گا۔اگر وہ چند ماہ یہ لانگ مارچ بارڈروں کے ساتھ ساتھ جاری رکھ سکیں تو ان کی” بَلے بَلے ” ہو جائے گی۔اور جو سیاہ گھٹائیں اس کی پارٹی پر چھا چکی ہیں وہ بھی چھٹ جائیں گی ۔واضح رہے کہ لمبے وقت کے لانگ مارچ پر صرف مخلص کارکن ہی ڈٹے رہ سکتے ہیں۔جاگیردار ،وڈیرے ،صنعتکار خود ہی وہاں سے ادھر ادھر چھپتے پھریں گے کہ یہ آرام پرست شہزادے نہ تو گرمی سردی برداشت کرسکتے ہیں اور نہ ہی پتھریلی مٹیالی زمین پر لیٹ سکتے ہیں۔ جنھوں نے جدو جہد کی ہو گی، بھوک پیاس برداشت کی ہوگی، قوم کے لیے ہرمشکل برداشت کرنے کا عزم ہوگا وہی کارکن اور نوجوان ورکر مطمئن ہو کر دوبارہ پارٹی میں جان ڈال دیں گے۔اگر میری معروضات پر عمران خان خلوص نیت سے عمل درآمد کر لیں توشاید اس جدوجہد کے سامنے وزیر اعظم پاناما لیکس کے مسئلے پر مزید بدنامی سے بچنے کے لیے استعفیٰ دے ڈالیں اور دنیا کی پارلیمانی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کریں ،تبھی ممکن ہے کہ ارکان اسمبلی دوبارہ قائد ایوان کے انتخاب میں عمران خان کی حمایت کرکے اس کا وزارت عظمیٰ کا خواب بھی پورا کردیں۔ایسا نہ بھی ہوتو دو سال سے کم ہی عرصہ بعد2018میں انتخابات ہو ں گے اور یہ تو دنیا جانتی ہے کہ جو بھی اقتدار میں ہوتا ہے اس کی غلطیوں کوتاہیوں پر عوام زیادہ تنقید کرتی اور نگاہ رکھتی ہے۔ 2018کے انتخابات میں سبھی گروہ اور پارٹیاں مطمئن ہو کر حصہ لیں گی ۔تب اپنی وطن دوستی اور سرحد پر دھرنے کی کامیابی کو عمران خان ضرور کیش کراسکیں گے ۔ایسا ہوجائے تو ملک میں اتحاد و اتفاق کی صورت پیدا ہو جائے گی، پوری پاکستانی قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر بھارتی او چھے ہتھکنڈوں کو مکمل ناکام بنادے گی ۔ایٹمی پاکستان مضبوط فلاحی مملکت بن کر ابھرے گا۔ اگر ایسا ہوجائے تو پھرسیاسی افرا تفریوں کے خاتمے کو دیکھ کر کچی گلیوں، بوسیدہ مکانوں ،جھو نپڑیوں سے خود کشیاں ،خود سوزیاں کرتی خلق خدا اللہ اکبر اللہ، اکبر اور سیدی ،مرشدی۔ یا نبی ،یا نبی کے نعرے لگاتی ضرور تحریک کی صورت میں نکلے گی اور افغان طالبان کی طرح تمام بڑے نامی گرامی ،نام نہاد ،لالچی کرپٹ سیاستدانوں سے اقتدار کی باگیں چھین کر خودسنبھال لے گی ۔پھر نہ کہنا کہ خبر نہ ہوئی، ہم سیاہ و سفید آپ کو وقت سے پہلے سمجھائے دیتے ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں