ریاستِ مدینہ کابھرم بھی کہاں ٹوٹنا تھا!!
شیئر کریں
وزیراعظم عمران خان وہاں داخل ہوگئے، انگریزی محاورہ جس کی موزوں وضاحت کرتا ہے۔
fools rush in where angels fear to tread
(بے وقوف وہاں جاگھستے ہیں جہاں فرشتے بھی گریزاں رہتے ہیں)
وزیراعظم عمران خان اسلام کو نوازلیگ یا پیپلزپارٹی کے بدعنوان ٹولے جیسا معاملہ سمجھتے ہیں۔ سیاست میں ”طاقت ور حلقوں” کی ”مدد” سے وہ حریفوں پر قابو پاسکتے ہیں ،اس دنیا کی حقیر ترین چیزوں میں شامل اقتدار کی غلام گردشوں کا مزہ لے سکتے ہیں، جو ،نہیں خود کو وہ بھی دکھا سکتے ہیں، جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بھی باور کراسکتے ہیں، سیاسی حمایت کا دھوکا بھی تخلیق کرسکتے ہیں۔ مگر مذہب کا معاملہ قدرے مختلف ہے۔ اسلام کے ساتھ چھیڑ چھاڑ وہ پاکستان کی تو کیا امریکا کی فوج لے کر بھی نہیںکرسکتے۔ یہ آخری حد ہے۔ یہ مسلمانوںکی سرخ لکیر ہے۔ یہاں سے مزاحمت کا آغاز اور قربانیوں کا سفر شروع ہوتا ہے۔ یہاں نیب مددگار نہیں ہوگا، ایف آئی اے کے جعلی مقدمات کارآمد نہ ہوں گے، یہاںفیک نیوز کے نام پر مہم موثر نہ ہوگی۔ یہاں لوہے کا خوف باقی نہیں رہتا۔ طاقت ور حلقوں کا تحفظ کام نہیں کرتا۔ کوئی مرگلہ کی پہاڑیوں سے چیخ کر بتائے، عمران خان آپ سن رہے ہیں!!!آپ مذہب کی جبری تبدیلی کی قانون سازی میں کامیاب نہ ہوں گے۔ یہاںسے رسوائیوں کا آغاز ہوتا ہے۔ اقتدار کے انجام کا بھی آغاز!!
یہ سادہ غلطی نہیں! پاکستان میں مذہب اسلام کو قبول کرنے سے روکنے کی ایک منظم مہم عرصہ دراز سے جاری ہے۔ حقائق سے ناآگاہ اس کھیل کے پسِ منظر، تہہِ منظر اور پیشِ منظر میں کروٹیں لیتی سازشوں کا ادراک نہیں رکھتے ۔ اس کی تفصیلات آگے بیان کرتے ہیں۔پہلے اس بل کو اچھی طرح تول ، ٹٹول اور کھول، کھنگال لیں۔ اس بل کو جبری ٔ تبدیلی مذہب کا قانون کہا جارہا ہے۔ اول تو یہ نام ہی غلط ہے۔ کیونکہ پاکستان میں جبراً مذہب تبدیل کرنے کا کوئی ایک واقعہ بھی کہیں پیش نہیںآیا۔ تبدیلی ٔ مذہب کے تمام واقعات رضاکارانہ ہیں۔ رضاکارانہ مذہب کی تبدیلی کو اس کھیل کے پیچھے متحرک قوتیں خوب خوب سمجھتی ہیں۔ مگر اُنہوں نے بل کو جبری تبدیلی مذہب کی آڑ دی ہے۔ جو سراسر خلافِ واقعہ ہے۔ درحقیقت بل کا جوہری مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ یہ بل جبری مذہب کی تبدیلی کو روکتا نہیں، بلکہ رضاکارانہ قبولِ اسلام کے عمل کو جبراً روک رہا ہے ۔شرمناک بل کے مطابق مذہب قبول کرنے والوں کو عمر کے دو خانوںمیں تقسیم کیا گیا ہے۔ نو صفحات اور 24دفعات پر مشتمل اس شرمناک بل کی دفعہ 3 میں اٹھارہ سال اور اس سے کم عمر کے لوگوں کے تبدیلی ٔ مذہب کے عمل کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ تبدیلی ٔ مذہب کا یہ بل اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کے قبولِ اسلام کو سرے سے مانتا ہی نہیں۔یعنی وہ اسلام بھی قبول کرلیں تو وہ اپنے پچھلے مذاہب پر ہی تصور کیے جائیں گے۔بل کے مطابق اٹھارہ سال کی عمر کا شخص بھی دراصل بچہ ہی تصور کیا جائے گا۔ اگر اس عمر کے بچوں کے لیے کوئی بھی مسلمان باعثِ ہدایت بنتا ہے تو بل کی دفعہ 4 اُن کے لیے سزائیں تجویز کرتا ہے۔ جس کے مطابق وہ پانچ سے لے کر دس سال تک قید کیا جاسکے گااور ایک سے لے کر دولاکھ روپے تک اُسے جرمانہ کیا جاسکے گا۔ غور کیجیے! اٹھارہ برس اور اس سے کم عمر کے بچوں کو اسلام کی طرف متوجہ کرانے والوں کے لیے جرمانے سے زیادہ قید کی سزا کی مدت کو زیادہ سے زیادہ رکھا گیا ہے۔ جو اکثر مجرمانہ سرگرمیوں میں بھی بہت کم ہوتی ہیں۔ مگر یہاں قید کی سزا کو پانچ سے دس برس رکھ کر اسلام کی تبلیغ کو ہولناک اور ڈراؤنا عمل بنانے کی انتہائی دانستہ اور سفاکانہ کوشش کی گئی ہے۔ یہ ہر اعتبار سے اسلام کے خلاف ایک مجرمانہ ہتھیار ہے جو عمران خان کی جانب سے ریاست ِ مدینہ کی بظاہر مسلسل تکرار کے ساتھ پسِ پردہ تیار کیا گیا ہے۔ اب ذرادورِ نبویۖ میںاسلام قبول کرنے والے اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کا ماجرا بھی ذہن میں رکھیں۔
عمران خان کی ریاست ِ مدینہ میں حضرت علی اسلام قبول نہیں کرسکتے تھے۔ حضرت علی نے دس برس کی عمر میںاسلام قبول کیا تھا۔ اس حوالے سے ایک پوری فہرست ہے۔ حضرت عمیر بن ابی وقاص نے سولہ برس ، حضرت معاذ بن عمرو بن جموح نے تیرہ برس اور حضرت معاذ بن عفرانے تیرہ برس میں اسلام قبول کیا تھا۔یہ تینوں جلیل القدر اصحاب رسولۖ صرف کم عمری میں ہی اسلام قبول کرنے والے نہ تھے، بلکہ جنگ بدر کے شہداء میں بھی شامل ہیں۔ ان میں حضرت معاذ بن عمرو اور حضرت معاذ بن عفرا وہ ہیں جنہوں نے ابو جہل کو جہنم واصل کیا تھا۔ ان کے علاوہ حضرت زید بن ثابت گیارہ برس کی عمر میں قبولِ اسلام کے ساتھ مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے والوں میں شامل رہے۔ حضرت عمیر بن سعد دس برس میں حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے۔ حضرت ابو سعید خدری تیرہ برس کی عمر میںاسلام قبول کرکے غزوہ احد میں شریک ہونے کے لیے پیش ہوئے۔حضرت انس بن مالک جب خاتم النبیۖ کے خادم خاص بنے تو آپ کی عمر مبارک آٹھ برس تھی۔ کم سنی میں اسلام قبول کرکے تکالیف سہنے والے سینکڑوں اصحاب میں سے یہ چند نام ہیں، جو شیریں مزاریں کی وزارت میں ایک سازش کی طرح پروان چڑھنے والے بل کی تاریکی میں عمران خان کی ریاست مدینہ میںمشرف بہ اسلام ہی نہ سمجھے جاتے بلکہ قابلِ سزا بھی ہوتے۔
بل کا دوسرا حصہ اٹھارہ برس سے زیادہ عمر کے لوگوں سے متعلق ہے۔ اٹھارہ برس سے زیادہ عمر کے لوگ اسلام قبول کرنا چاہیںتوا نہیں ایسی شرطوں سے باندھا گیا ہے، کہ وہ سن کر ہی اسلام قبول کرنے سے تائب ہو جائیں۔ اٹھارہ سال سے زائد عمر کے غیر مسلم اسلام قبول کرنے سے پہلے تبدیلی ٔ مذہب کا ایک سرٹیفکیٹ لینے کے پابند کردیے گئے ہیں۔ مگر یہ سرٹیفکیٹ اُنہیں آسانی سے نہیں ملے گا۔غیر مسلم کو مذہب کی تبدیلی کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لیے مقامی ایڈیشنل سیشن جج سے رجوع کرنا ہوگا۔ اب یہاں سے قبول اسلام کے خواہش مند اور ایڈیشنل جج پر پابندیوں کی ابتدا ہوتی ہے۔ ایڈیشنل جج سات روز کے اندر درخواست گزار کے انٹرویو کی تاریخ مقرر کرے گا۔ مقررہ تاریخ پر غیر مسلم درخواست گزار ایڈیشنل سیشن جج کے سامنے یہ ثابت کرے گا کہ وہ قبولِ اسلام کسی دباؤ ، غلط بیانی یا دھوکا دہی کی بنیاد پر نہیں کررہا ۔ اس کے باوجود یہ بات کافی نہ ہوگی۔ ایڈیشنل سیشن جج اب اس غیر مسلم درخواست گزار کو کسی مذہبی اسکالرز سے ملوائے گا۔ اس کے باوجود بھی وہ تبدیلیٔ مذہب کے سرٹیفکیٹ کا مستحق نہیں سمجھا جائے گا۔ اب اُسے مذاہب کے تقابلی مطالعے کے بعد ایڈیشنل سیشن جج کے دفتر میںواپس آنے کے لیے مزید نوے دن کا وقت دیا جائے گا۔ ایڈیشنل سیشن جج ان تمام شرائط کو پوری کرنے کا پابند ہوگا۔ جو غیر مسلم درخواست گزار پر تبدیلی مذہب کا سرٹیفیکٹ حاصل کرنے کے لیے لاگو کی گئی ہیں۔ اگر اس پورے طریقے میں غیر مسلم تھک کر قبول اسلام سے ہی انکار کردے تو پھر اس کواسلام کی طرف راغب کرنے والا قصوروار سمجھا جائے گا اور اُسے مختلف قسم کی وہی سزائیں ملیں گی جو اٹھارہ برس یا اس سے کم عمر بچوں کو قبول اسلام کی طرف راغب کرنے والوں کے لیے متعین کی گئی ہیں۔ ذرا اندازا لگائیں ، اس عمل سے گزرنے میں اس بات کا کہیں بھی کوئی لحاظ نہیںرکھا گیا کہ کیا ہر شخص مذہب کی تبدیلی تقابل ادیان کے مطالعے کے بعد ہی کرتا ہے؟ کیا تقابل ادیان کا مطالعہ خود ایڈیشنل سیشن جج نے بھی کیا ہوتا ہے یا نہیں؟ کیا یہ بل بنانے والے بھی یہ جانتے ہیں کہ دنیا میں رائج مذاہب کے درمیان کہاںکہاں کیا کیا فرق ہے؟ ایک غیر مسلم کے قبول اسلام میں ان شرائط کے اندر کہیں اس امر کا اندازا ہی نہیںہوتا کہ تبدیلی مذہب کا خواہش مند ایک عام آدمی بھی ہوسکتا ہے۔ جو کسی کتاب کے مطالعے کے قابل بھی نہ ہو۔اس طرح یہ بل غلط طور پر یہ فرض کرلیتا ہے کہ پاکستان میں ہر شخص علم کی اس سطح پر پہنچ گیا ہے،جہاں وہ تبدیلی ٔ مذہب سے قبل تقابل ادیان کا مطالعہ کرنے کے قابل ہے۔ یہ سارے غلط مفروضے صرف تبدیلی سرکار میں ہی قائم کیے جاسکتے ہیں اور اس قسم کا غیر منطقی بل صرف عمران خان کے لائق فائق وزراء ہی پیش کرسکتے ہیں۔
عمران خان کی حکومت یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ پاکستانی معاشرہ درحقیقت کیا ہے؟ پاکستان میں روشن خیال ، لبرل اور سیکولر سمجھے جانے والے پورے طبقے کے بھی پس منظر میں کوئی نہ کوئی مذہبی پسِ منظر موجود ہے۔ یہاں کاروشن خیال، لبرل اور سیکولر بھی روشن خیال، لبرل اور سیکولر ٹھیٹھ اپنے بیان کردہ تصور کے مطابق نہیں ہے۔ وہ اپنے تعصبات کو اس روشن خیالی، لبرل ازم اور سیکولر ازم کی چادر اوڑھ کر چھپاتا ہے۔ اور اسے بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے۔ یہ بل اسی تعصب کی پیداوار ہے۔ ایک طرف سیکولر اقدار یہ دعویٰ کرتی ہے کہ مذہب ایک نجی معاملہ ہونا چاہئے۔ اور اس میں ریاست کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہئے۔ دوسری طرف ان اقدار کے حامل لوگ ریاست کی طاقت کو ایک شخص کے ذاتی تبدیلی ٔ مذہب کے فیصلے پر اثرانداز ہونے کے لیے بے رحمانہ طریقے سے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان ایک طرف ریاست مدینہ کی تکرار کرتے ہوئے نہیں تھکتے ، دوسری طرف اُن کی ریاست مدینہ میں کوئی اسلام بھی اپنی مرضی سے قبول نہیں کرسکتا۔ اُسے اپنے تبدیلی مذہب کی مرضی کو ریاست کی بے رحمانہ تحویل میںدیناہوگا۔ یعنی مذہب کی تبدیلی ،عقائد ، نظریات، اخلاقیات اور علم کا معاملہ نہیںبلکہ یہ اب ایک طریقہ کار ، ریاست کی نگرانی اور اس سے بھی بڑھ کر لوگوں کے تصورات تک پر اثرانداز ہونے کا خطرناک معاملہ بن چکا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت اب ایک خطرناک چہرہ لے کر ظاہر ہورہی ہے۔ یہ مختلف قوانین کے ساتھ عوام کو بے رحمانہ طور پر جکڑنے کی سازشوں کی آلہ کار بنتی جارہی ہے۔ تبدیلیٔ مذہب کا یہ غیر منطقی اور اسلام دشمن بل پاکستانی سماج کی مختلف جہتوں میں حشرات الارض کی طرح رینگتی سازشوں کی چغلی کھا رہا ہے۔ اس کا تذکرہ بعد پر اُٹھا رکھتے ہیں۔ تحریک ِ انصاف کی حکومت اب وہاں داخل ہو رہی ہے جہاں اس کو رعایت دینا ضمیر اور پاکستان پر ایک بوجھ بن جائے گا۔آہ! عمران خان کی ریاست مدینہ کا بھرم بھی کہاں آکر ٹوٹا ہے؟
٭٭٭٭٭٭٭