عقل کا راستا
شیئر کریں
کبھی آپ نے سوچا ہے انسان اشرف المخلوقات کیوں ہے ؟ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے تو یہ امر ربی ہوا۔ لیکن رب نے انسان کو ایسا کون سا وصف عطا فرمایا ہے کہ جس کے ہوتے باقی تمام مخلوقات میں اس کا درجہ سب سے بلند ہوگیا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ انسان با شعور پیدا کیا گیا ہے لیکن شعور تو اپنے اپنے درجے میں جانوروں کو بھی حاصل ہے۔ جانوروں کے بچے پیدا ہوتے ہی اپنے اپنے فطری تقاضے انجام دینے لگتے ہیں، بھاگنے دوڑنے اور خود بخود دودھ پینے لگتے ہیں۔ ایک ہرن جب شیر کو دیکھتا ہے تو اس کے قدم خود بخود بھاگنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ مچھلی کے بچے خود بخود تیرتے ہیں ان کو کوئی تیراکی نہیں سکھاتا۔ جانوروں کی اس قسم کی حرکات اضطراری کیفیت ہوتی ہے جیسے ان کے اندر کوئی پروگرام فیڈ کیا ہوا ہو، کچھ طریقے کچھ چیزیں ان کے اندر انسٹال کر دی گئی ہوں اور وہ اپنی محدود ہدایات کے آگے بے بس ہوں۔
ہاں جانور سیکھ بھی جاتے ہیں جیسا کہ ہم سرکس کے سدھائے ہوئے جانوروں کو دیکھتے ہیں۔ بندر اور ریچھ نچاتے مداری ہم میں سے بہت سوں نے دیکھے ہوں گے۔ دوسری جانب انسان کسی فیڈ شدہ پروگرام کے تحت زندگی نہیں گزارتا۔ وہ کسی بھی کام کے کرنے سے پہلے سوچتا ہے۔ انسان یہ بھی سوچتا ہے کہ میں کیوں سوچتا ہوں؟ انسان زندگی گزارتا ہے، پھر سوچتا ہے میں کیوں زندگی گزارتا ہوں؟ کیسی زندگی گزارتا ہوں ، میں کیسے اچھی زندگی گزار سکتا ہوں۔ انسان سوچ سکتا ہے، سمجھ سکتا ہے۔ انسانوں کو مخلوقات اور جانوروں سے عقل کے ذریعے ایک درجہ فضیلت دی گئی ہے یہی چیز انسان کو اشرف المخلوقات بناتی ہے۔
انسان دنیا کی واحد مخلوق ہے جس کے دل میں سوال اٹھتا ہے کہ میں کون ہوں؟ کائنات کی کوئی دوسری مخلوق اپنے دل میں خود سے یہ سوال نہیں اٹھا سکی کہ میں کون ہوں؟ اور میں کدھر جا رہا ہوں؟خود سے سوال کرنے کی صفت ہی آدمی کو انسان بناتی ہے ، سوال عقل سے جواب مانگتے ہیں، عقل سے کیے گئے سوال جواب انسان کا مزاج بناتے ہیں۔اگر کائنات کا خالق تمام انسان ایک مزاج کے پیدا کر دیتا تو دنیا سے توازن ختم ہو جاتا۔ اگر تمام لوگوں کے سیکھنے کی صلاحیت ایک جیسی ہو جاتی تو بھی دنیا سے توازن ختم ہو جاتا۔ اسی طرح اگر تمام سکھانے والے برابر ہو جاتے تو بھی دنیا سے توازن ختم ہو جاتا۔
اگر دنیا میں تمام ڈاکٹر ایک ہی درجے کے ہوتے تو کیا ہوتا، تمام استاد ایک ہی جیسی ذہنی استعداد رکھتے تو کیا ہوتا ،اگر دنیا کے اندر تمام شاعر ایک ہی درجے کے ہوتے تو کیا ہوتا، اگر سب کا شعور برابر ہوتا تو دنیا کے کسی شعبے میں توازن نہ رہ سکتا، اسی عقل و شعور کی بدولت ہر انسان کی ذہنی سطح الگ ہے۔ اسی وجہ سے ہر انسان کا مزاج الگ الگ ہے۔ شخصیت الگ الگ ہے۔ دنیا کی ساری خوبصورتی انسانی ذہانت کی اسی رنگا رنگی کی وجہ سے قائم ہے۔
دنیا کی اس خوبصورتی کو قائم رکھنے کے لیے ہر انسان کا سب سے بڑا سوال یہ ہونا چاہیے کہ خود سے کیسے لڑا جائے، خود سے لڑنے سے مراد ہے اپنی غلطیوں کوتاہیوں اور خامیوں سے کس طرح نمٹا جائے۔ یہ بہت بڑی جنگ ہے یہ سب سے بڑا جہاد ہے۔ جو انسان یہ جنگ نہیں لڑتا وہ خواہشاتِ نفسانی کا تابع ہوجاتا ہے، اس کی عقل پر جہالت و تاریکی کے پردے پڑ جاتے ہیں،اس کی عقل نیکی و بدی تاریکی و روشنی میں تمیز کرنے سے قاصر ہوجاتی ہے، ایسا انسان اپنی زندگی تو جہنم بناتا ہی ہے ساتھ میں دوسروں کی زندگی بھی اجیرن بنا دیتا ہے۔ ایسے میں اللہ اور اس کے رسول کا بتایا ہوا راستاانسان کی عقل کو روشن کرتا ہے۔ بلاشبہ عقل انسانی کا احترام اسی میں ہے کہ وحی الٰہی اورانوار نبوت سے فیض حاصل کرتی رہے۔